مخالفین نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے
پاکستان تحریک انصاف کو اس کے مخالفین نے انٹرا پارٹی انتخابات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب کہ پی ٹی آئی کے منحرف اور بانی اراکین میں شامل اکبر ایس بابر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس پورے عمل کو قانونی فورم پر چیلنج کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر پی ٹی آئی کی جانب سے کرائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگادیے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کے بجائے درحقیقت سلیکشن کی جس کا مقصد پی ٹی آئی کارکنوں کو باہر پھینک کر پارٹی کی باگ ڈور چند وکلا کے ہاتھوں میں دینا تھا۔
اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن سے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن نہ صرف آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ پارٹی کے اپنے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے دھڑے کے سربراہ پرویز خٹک نے بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو ’جعلی مشق‘ قرار دیا، حال ہی میں پی ٹی آئی-پارلیمینٹیرینز کے نام سے اپنی پارٹی بنانے والے پرویز خٹک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کا درست حکم دیا ہے۔
پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پرویز خٹک نے الزام لگایا کہ گزشتہ 12 برسوں کے دوران ہونے والے پی ٹی آئی کے تمام انٹرا پارٹی انتخابات جعلی تھے۔
اس موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں ان کی موجودگی کے دوران الیکشن کمیشن کو ’جعلی ریکارڈز‘ پیش کیے گئے، انہوں نے کہا کہ بیرسٹر گوہر خان کو دو سال قبل ہی پارٹی میں متعارف کرایا گیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین کے پاس پارٹی ممبر شپ کارڈ تک نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے فوری بعد مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی راولپنڈی میں پریس کانفرنس کی۔
مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنماؤں کے ہمراہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا پورا عمل فریم شدہ مشق تھی، یہاں تک کہ انتخابات کی بنیادی رسمی کارروائی تک بھی پوری نہیں گئیں، انہوں نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو ’کٹھ پتلی تماشہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا پر براہ راست نشر کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں دھاندلی صاف نظر آرہی تھی، انہوں نے الیکشن کمیشن سے اس دھاندلی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی مفرور شخص پارٹی عہدیدار بن سکتا ہے؟ انہوں نے آنے والے عام انتخابات کے حوالے سے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس آف پاکستان پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ صاف، شفاف انتخابات کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
پی ٹی آئی کے نئے سربراہ پر طنز کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو چیئرمین کے عہدے کے لیے پوری پی ٹی آئی میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا، اس لیے عمران خان کو اپنی پارٹی کے اعلیٰ عہدے کے لیے ایک سابقہ ہی جیالا ملا۔‘
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو ’جمہوری نظام کا مذاق‘ قرار دیا، ایمل خان نے باچا خان مرکز سے جاری ایک بیان میں کہا کہ اس عمل سے پورے جمہوری نظام کا مذاق اڑایا گیا اور بھگوڑوں کو عہدوں سے نوازا گیا۔