اُبھرتے سورج کی سرزمین سے: سفرنامہ جاپان (پہلی قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
اس وقت جاپان کے کئی علاقوں میں درجہ حرارت منفی ہوچکا ہے جبکہ میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں موجود ہوں۔ یہاں شدید سردی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہاں بھی درجہ حرارت منفی کے ہندسے کو چھونے والا ہے۔ دنیا میں جاپان تیسری بڑی معاشی قوت ہے جبکہ بہترین پاسپورٹ کی درجہ بندی میں جاپان گزشتہ 5 برس سے اولین تھا، البتہ رواں برس اس کا درجہ تیسرا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا کا ایک محفوظ ملک ہے اور سیاحوں کے لیے شاندار منزلِ مقصود ہے۔ آئیے آپ کو اس خوبصورت ملک کا تازہ ترین احوال بتاتے ہیں کیونکہ میں ابھی یہاں کئی دنوں تک موجود رہوں گا۔
کراچی ایئرپورٹ کا اعزاز
پاکستان سے میں جب جاپان کے لیے روانہ ہوا، توکراچی ہوائی اڈے پر بین الاقوامی روانگی کے دروازے تک اہل خانہ نے مجھے رخصت کیا۔ اس موقع پر ہم نے دیکھا کہ ایئرپورٹ کے اندر کسٹم کے استقبالیہ کے دائیں طرف آٹھ دس ممالک کی گھڑیاں آویزاں تھیں جن پر اکثر ممالک کے ٹائم غلط چل رہے تھے جس میں جاپان کا مقررہ وقت بھی غلط تھا۔ جاپان کا وقت پاکستان سے چار گھنٹے آگے ہے جبکہ اس گھڑی کے مطابق جاپان پاکستان سے دوگھنٹے آگے تھا۔ یہ اعزاز صرف کراچی ہوائی اڈے کا ہی ہے اور شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا ہو۔ ایئرپورٹ حکام کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کس قدر افسوس ناک امر ہے۔
اس موقع کی سب سے اہم اور اچھی بات، تمام اسٹاف اور حکام کا مثبت اور دوستانہ رویہ تھا بلکہ مجھ سے کسٹم والے صاحب نے ہنسی مذاق بھی کیا جب انہیں پتا چلا کہ میں جاپانی ادب وثقافت کا محقق ہوں۔ یوں میں وطن سے رخصت ہوا اور جاپان پہنچنے سے پہلے متبادل پرواز سے ابوظبی ایئرپورٹ پہنچا۔
ابوظبی ایئرپورٹ: جدید طرزِتعمیر کا شاہکار
ابوظبی ایئرپورٹ انتہائی صاف ستھرا، جدید اور پُرسکون ایئرپورٹ تھا جہاں کا عملہ بااخلاق جبکہ وہاں کوئی افراتفری بھی نہیں تھی۔ چند گھنٹوں کے بعد اسی ملک کی ایئرلائن سے پرواز بھری۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پاکستان سے آنے والے جہاز اور اب ہمیں جس جہاز میں بٹھایا گیا تھا وہاں کھانے اور عملے سمیت سب کچھ مختلف تھا یعنی اب سب کچھ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور معیاری تھا۔ پاکستانی مسافروں سے یہ تضاد مجھے سمجھ میں نہیں آیا، یہ اکثر ایئرلائنز کرتی ہیں جس پر حکومتِ پاکستان اور متعلقہ شعبوں کوغور کرنے کی ضرورت ہے۔
جاپان: میرادل، میری جان
جاپان کے شہر ٹوکیو کے دو ایئرپورٹ ’ہانیدا‘ اور’ناریتا’ ہیں، ہم ناریتا پر اترے۔ اس پرواز میں میرے برابر والی نشست پر جاپانی فوٹوگرافر ’کازوکی واتاناوے‘ براجمان تھے جن سے دوستی ہوگئی۔ وہ اسپین سے اپنا خصوصی فوٹو شوٹ پروجیکٹ مکمل کرکے آرہے تھے جبکہ ان دنوں ان کی تصاویر کی نمائش بھی ٹوکیو میں جاری ہے جس کو دیکھنے میں ضرور جاؤں گا۔ انہوں نے دورانِ سفر مجھے اپنی ایک تصویر دوستانہ کلمات لکھ کر اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کی۔ جاپان میں اپنے سفر کی ابتدا میں یہ میرے لیے ایک عمدہ آغاز تھا۔
جاپان میں پاکستانی مسافروں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ سختی برتی جاتی ہے جس کا میں بھی عینی شاہد ہوں مگر اس مرتبہ میں اپنی فلائٹ میں اکیلا پاکستانی مسافر تھا اس لیے جاپانی کسٹم کے حکام نے مجھے خوش آمدید کہا۔ شاید تواتر سے جاپان آنے جانے کا یہ ایک پوشیدہ فائدہ تھا وگرنہ نئے مسافروں کو یہ سہولت کم ہی ملتی ہے۔ بہرحال ایئرپورٹ سے میں نے انٹرنیٹ سم خریدی، ٹرین کا ٹکٹ لیا اورجاپان کے ایئرپورٹ سے مرکزی ٹوکیو کی جانب روانہ ہوا۔ ناریتا ایئرپورٹ شہر سے باہر بنا ہوا ہے۔ اس بار جہاز کی کھڑکی والی سیٹ ملی تھی تو مجھے جاپان کا سب سے مشہور پہاڑ ’فُوجی ساں‘ دیکھنے کا نادر موقع بھی میسر آیا۔
اس مرتبہ میں اپنے دورے میں جاپانی دوستوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملوں گا۔ اس لیے جاپان میں تین دہائیوں سے مقیم اور پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل کے نمائندہ جاپان اور ہمارے پیارے دوست جناب راشد صمد خان نے میرا استقبال کیا۔ اس کے بعد انہوں نے میری تواضع ’چائے کافی‘ سے کی کیونکہ جاپان کا موسم ٹھنڈ کا احساس دلارہا تھا۔ ٹوکیو سے تھوڑی مسافت پر ایک دیہی علاقے ’گھما‘ میں میرا قیام تھا جہاں ہم سب دوست ’مصطفیٰ خاورکھوکھر‘ کے گھر پہنچے۔ خاور بھائی بھی گزشتہ تین چار دہائیوں سے جاپان میں مقیم ہیں اور جاپانی زبان کو اپنے آبائی علاقے گوجرانوالہ کی پنجابی کی طرح روانی سے بولتے ہیں۔ ٹوکیو کے بعد مضافاتی علاقوں میں سائی تاما، اباراکی اورگھما قابلِ ذکر ہیں، مرکزی ٹوکیو کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کے حوالے سے بھی سیروسیاحت کا تذکرہ پیش نظر رہے گا۔
جاپان کی دیہی زندگی اور شہری طرزِ حیات
جاپان کی شہری زندگی سے تو دنیا واقف ہی ہے اور ہم بھی آپ کو سیر کروائیں گے لیکن ساتھ ساتھ جاپان کے دیہی علاقوں کا تذکرہ بھی جاری رہے گا تاکہ آپ شہری اور دیہی زندگی کا فرق بھی محسوس کرسکیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پورے جاپان میں ایک جیسی ملیں گی جیسے لوگوں کا اخلاق، صفائی کا خیال رکھنا وغیرہ۔ میں جاپان کے بہت سے شہروں اور مضافاتی علاقوں میں گیا مگر مجال ہے کہ انتظام وانصرام میں کوئی فرق ملا ہو۔ چاہے وہ گھر ہوں، دفاتر ہوں، سڑکیں ہوں، اسٹیشنز ہوں، یا پھر کھیت کھلیان ہوں، پورا جاپان ریلوے لائنز کے ذریعے ایک سے دوسری جگہ سفر کرتا ہے۔ جس نے یہاں آکر ٹرینوں کا نظام سمجھ لیا وہ سمجھیں کم خرچے میں زیادہ جاپان دیکھ لے گا اور جو نہیں سمجھ پایا اس کے لیے جاپان میں محو سفر ہونا مشکل ہوجائے گا۔ مجھے بھی ابتدائی دوروں میں مشکلات ہوئیں مگر اب میں کافی سمجھ گیا ہوں اور آپ کو بھی سمجھا سکتا ہوں۔
یہ نظام بہت سادہ ہے جو بظاہر بہت پیچیدہ محسوس ہوتا ہے۔ کئی طرح کی ٹرینیں اور ان کے روٹس ہیں جن میں لوکل اور سُست رو ٹرینیں بھی ہیں اور تیز سے تیز ترین ٹرینیں بھی ہیں حتیٰ کہ دنیا کی تیز ترین ٹرینوں میں سے ایک ’شنکانسین‘ ٹرین بھی شامل ہے جسے عرف عام میں بلٹ ٹرین کہتے ہیں۔ پورے جاپان میں ہر چھوٹے بڑے علاقے میں اسٹیشنز بنے ہوئے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہو یا پھر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک، جاپان کے تمام لوگ ٹرینوں کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
آپ کو گوگل پر صرف اپنی منزل کا نام لکھنا ہوتا ہے۔ ایپ کے ذریعے آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں تک کتنی ٹرینیں بدلنی ہوں گی، کہاں سے بدلیں گی، ان کے اوقات کار کیا ہوں گے، اس پر کُل خرچہ کتنا آئے گا، یہ ایپ سب کچھ بتاتی ہے۔ اس کو جس نے جتنی جلدی سمجھ لیا، وہ سکھ میں رہے گا۔
ویسے تو پورے جاپان میں بسیں بھی چلتی ہیں مگر لوگ ٹرین کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ آمدورفت میں ٹیکسی سب سے مہنگی سواری ہے۔ عام جاپانی بھی بحالت مجبوری ٹیکسی میں سفر کرتا ہے اور اگر آپ کی اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل ہے تب بھی آپ کو جاپان کی مہنگی ترین پارکنگ فیس ذہن میں رکھنا ہوگی جہاں گھنٹوں کے حساب سے پارکنگ فیس چارج کی جاتی ہے۔ آپ کو بہت سے جاپانی شہری اور طلبہ سائیکلز چلاتے بھی دکھائی دیں گے، یہاں تک کہ ایک مخصوص آبادی سائیکلز پر سفر کرکے اسٹیشن تک آتی ہے۔ جاپان میں ایسا نظارہ باربار دیکھنے کو ملتا ہے اسی لیے ہائی وے یا عام سڑک کنارے سائیکل برداروں کے لیے جگہ مختص کی جاتی ہے۔
ان دنوں جاپان میں سردی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اس لیے یہاں شام 5 بجے رات کا سماں ہوجاتا ہے جبکہ رات 11 بجے تک شہری علاقوں میں دکانیں کھلی رہتی ہیں البتہ دیہی علاقوں میں چھ سات بجے تک رات ہوجاتی ہے۔ جاپانی لوگ علی الصبح بیدار ہوتے ہیں۔ صبح 8 بجے سے اسٹیشنز پر ہزاروں افراد آتے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرینوں کے اندر اکثریت کتاب پڑھتی ہے یا پھر موبائل دیکھنے میں مشغول ہوتی ہے۔ ٹرین میں آپس میں گفت و شنید مناسب خیال تصور نہیں کیا جاتا۔
سرعام سگریٹ پینا بھی ممنوع ہے اور جلدی ہونے کے باوجود ہزاروں لاکھوں افراد کا مجمع ٹرینوں میں سوار ہوتے ہوئے لائن بنانا نہیں بھولتا۔ گاڑی چلاتے ہوئے بیلٹ باندھنا اور ڈرائیو کرتے وقت سامنے سے اگر سائیکل سوار یا پیدل چلتے ہوئے کوئی آجائے تو گاڑی والے کو رکنا ہوگا جیسے یہ اس کا فرض ہے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سگنل توڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چاہے کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہو یا نہیں۔ جاپانی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتتے اور قانون سے ڈرنے کے بجائے اس کی پاس داری کرتے ہیں جوکہ ان کی کامیاب سماجی زندگی کا راز ہے۔
اردو زبان کے جاپانی طلبہ کا اردو ڈراما
جاپان پہنچتے ہی ہمیں سب سے پہلے جو دعوت نامہ موصول ہوا وہ ’ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ کے شعبہ اردو کی طرف سے تھا۔ اس شعبے سے منسلک جناب پروفیسر مامیاکین ساکو جو خود بھی اردو اور سندھی زبانوں کے دانشور اور استاد ہیں، انہوں نے ہمیں یہ دعوت دی جبکہ ڈرامے کے منتظمین میں بھی وہی پیش پیش ہیں۔ اس یونیورسٹی میں ہر سال اردو زبان پڑھنے والے جاپانی طلبہ اردو میں ڈراما پیش کرتے ہیں۔ اس بار جو ڈراما پیش کیا گیا اس کا نام ’آشیانہ‘ تھا جس کے ڈرامانگار ’ڈاکٹر محمد حسن‘ تھے۔ اس کھیل کو جاپانی طلبہ نے بہت عمدگی اور مہارت سے پیش کیا۔ ڈرامے کے اختتام پر جاپان میں پاکستان کے سفیر جناب ’رضا بشیر تارڑ‘ نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اردو زبان کے جاپانی طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
ٹوکیویونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کا ثقافتی میلہ
اس موقع پر یونیورسٹی کی طرف سے تمام زبانوں کے طلبہ نے اسٹالز بھی لگائے اور اُن ممالک کی ثقافت اور روایتی کھانا پیش کیا جن کی زبان وہ سیکھ رہے تھے۔ اردو زبان کے طلبہ نے پاکستانی اسٹال لگایا ہوا تھا جہاں چائے اور سموسے فروخت ہورہے تھے۔ میں نے اپنے پاکستانی دوست عرفان امبے اور ان کی جاپانی بیگم ’یوشی اے امبے‘ جو جاپانی زبان کی طالبہ بھی ہیں، ان کے ساتھ دیسی کھانے کھائے، فیسٹیول سے بھی خوب لطف اٹھایا اور اردو ڈرامے میں بھی ایک دوسرے کے سنگ رہے۔
یہاں سفیر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے دیگر افراد سے بھی دلچسپ گفتگو رہی جو اس موقع پر تشریف لائے ہوئے تھے جبکہ شعبہ اردو کے دیگر اساتذہ بھی ہمراہ تھے۔ برابر میں بنگلادیش اور کچھ فاصلے پر بھارت کے اسٹالز بھی موجود تھے۔ میں نے خیرسگالی کے طور پر ان کے اسٹالز کا دورہ بھی کیا اور ان کے کام کی تعریف کی جس پر وہ طلبہ بے حد خوش ہوئے۔ اس ثقافتی میلے میں ایک ساتھ اتنے سارے ممالک کا کلچر دیکھنے کا اتفاق ہوا جوکہ ایک اچھی سرگرمی ہے۔ میرے نزدیک پاکستانی جامعات میں بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہیے۔
قدم بہ قدم جانب منزل
جاپان چار بڑے جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے اور اگر اس کے ساتھ دیگر چھوٹے بڑے جزیرے گنے جائیں تو کم وبیش جزائر کی کُل تعداد 14 ہزار 125 بنتی ہے۔ انتظامی لحاظ سے جاپان کو 8 ریجن میں تقسیم کیا گیا ہے اور 47 پریفیکچر (صوبے) بنائے گئے ہیں۔ 790 شہروں اور دیہات پر مشتمل اس ملک میں ہر جگہ دیکھنے کے قابل ہے۔ پورا ملک ایک نظام کی لڑی میں پرویا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک کونے سے دوسرے کونے تک سب کچھ ایک جیسا ہے، ہر طرف قانون کی حکمرانی ہے، اس ملک کا دارالحکومت تو ٹوکیو ہے لیکن اوساکا جیسے شہر بھی اپنی پوری چمک اور آب وتاب رکھتے ہیں اور جاپانیوں کی دیہی زندگی بھی اتنی ہی خوبصورت اور شاندار ہے جتنی شہری زندگی ہے۔
اس سفرنامے میں آپ کو ایسی مزید جھلکیاں ملتی رہیں گی۔ اگرچہ جاپان مہنگا ترین ملک ہے لیکن یہاں جس چیز کی جو قیمت طے اور مقرر ہے اس سے ایک ین بھی اوپر کوئی نہیں لے سکتا۔ ناانصافی، چوری، ڈکیتی، دھوکا دہی اور چھینا جھپٹی جیسے الفاظ اور تصورات جاپانی معاشرے میں بے معنی ہیں۔ یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ پورے ملک میں آپ کہیں بھی چلے جائیں چاہے عورت ہیں یا مرد بلاتفریق آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ یہ جاپان کی ترقی کی اصل روح ہے۔ باہر سے آئے ہوئے سیاحوں کے لیے یہ ملک بہت مہنگا ہے لیکن اگر ان سیاحوں کا تعلق پاکستان یا بھارت جیسے ممالک سے ہے تو پھر بہت سوچ سمجھ کر جاپان کا سفر کریں ورنہ مہنگائی کے ہاتھوں جان کے لالے پڑجائیں گے۔
میں پاکستان جاپان لٹریچر فورم کے لیے دونوں ممالک میں تخلیقی وتحقیقی کام کرتا ہوں اور اسی سلسلے میں جاپان آیا ہوں۔ کام کی تفصیل بھی آپ کو بتائیں گے لیکن فی الحال تو کام کرتے ہوئے کئی دن ہوچکے تھے اسی لیے سوچا کہ تفریح کی جائے تو ہم نے اپنے رہائشی علاقے ’اتاکوراماچی‘ میں اپنے میزبان خاور بھائی کے ہمراہ دیہی طرز زندگی میں حصہ لیا کیونکہ خاور بھائی ایک کسان اور زمیندار ہیں۔ ہم نے ایک جاپانی خاتون کے جاپانی پھلوں کے درختوں کی کانٹ چھانٹ کی پھر اپنی زمین کے قطعے پر کام کیا اور ایک دوسری زمین پر فارم ہاؤس بنانے کے لیے اراضی کی صفائی کے کام میں حصہ لیا۔ جاپان میں تمام لوگ اپنا کام خوشی خوشی کرتے ہیں۔
جاپانی ادبی میوزیم اور نپولین فلم
چونکہ میں کافی دنوں سے مسلسل کام کررہا تھا تو سوچا کہ کیوں نہ چھٹی کی جائے۔ چھٹی کرکے میں نے دو کام کیے، ایک تو میری رہائش گاہ سے قریبی شہر میں واقع ’کوگالٹریچرمیوزیم‘ کا دورہ تھا۔ جاپان میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں مقامی ادیبوں، شعرا، مصوروں اور فلم سازوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میوزیمز قائم کیے گئے ہیں، مذکورہ میوزیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اس میوزیم میں سب سے زیادہ مجھے جن ادیبوں کی شخصیت نے متاثر کیا ان میں جاپانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ادیبہ ’ناگائی می چیکو‘ اور ادیب ہونے کے ساتھ اسکرین پلے رائٹر کے طور پر شہرت پانے والے ’کوبایاشی کیوزو‘ تھے۔
اس میوزیم کا حسنِ انتظام دیکھ کر یہ گماں ہورہا تھا کہ یہ گویا کسی یورپی ملک کا کوئی میوزیم ہو۔ میوزیم کا مقام بھی انتہائی خوبصورت تھا جو اس شہر ’کوگا‘ کا قدیم علاقہ ہے۔ میں نے اس میوزیم سے جاپانی سینما کے معروف اسکرین پلے رائٹر اور ادیب ’کوبایاشی کیوزو‘ کی ایک کتاب بھی خریدی اور وہاں کافی پیتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ ہم کب سعادت حسن منٹو، خواجہ خورشید انور، میڈم نورجہاں اور دیگر مشاہیر کے لیے میوزیم بنائیں گے؟ جواب میں صرف خاموشی تھی جس کے سنگ میں کافی کی چسکیاں لے رہا تھا۔
اس کے علاوہ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ٹوکیو کے علاقے ’آکیہ بارا‘ میں موجود سینما میں ہم فلم ’نپولین‘ دیکھنے گئے۔ اس فلم کا مرکزی کردار ’جیکوئن فینکس‘ نے ادا کیا ہے جو اس سے پہلے فلم ’جوکر‘ کے لیے بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار، برطانوی فلم ساز’ریڈلی اسکاٹ’ ہیں۔ جاپان میں سینما دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا جو بہت شاندار رہا۔ سینما کا معیار، دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مہنگا اور بہترین ہے۔ جاپان میں دیکھی ہوئی یہ فلم یادگار رہے گی۔ جاپان کی اپنی فلمی صنعت بہت مضبوط ہے جس پر آگے چل کر بات ہوگی۔ اس کے علاوہ چھٹی کے موقع پر گھر والوں کے لیے تھوڑی بہت خریداری بھی کی۔
جاپانی اور پاکستانی کھانے
پاکستان جاپان لٹریچرفورم کے پیٹرن اِن چیف، سابق جاپانی سفارت کار اور میرے استاد جناب توشی کازو ایسومورا صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ ٹوکیو اسٹیشن کی زیرِزمین فوڈ اسٹریٹس میں بنے ایک بھارتی ریسٹورنٹ میں پاکستانی کھانا کھایا اور تبادلہ خیال کیا۔ ان کے علاوہ ٹوکیو میں مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ ’صدیق‘ پر راشد صمد خان اور جاپان میں پاکستانی طلبہ تنظیم کے صدر، جناب مناظر حسین کے ہمراہ بھی کھانا کھایا جبکہ جاپان کی مشہور ڈش ’سوشی‘ کھانے کے لیے ایک معروف سوشی ریسٹورنٹ بھی گئے۔
میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جاپان کو بازیافت کرنے کے عمل سے گزر رہا ہوں، امید کرتا ہوں کہ آپ قارئین بھی میرے اس سفر میں برابر کے شریک رہیں گے۔ بقول شاعر،
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔