سال 2024ء اور دنیا کو درپیش اہم چیلنجز
2024ء سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ درحقیقت جغرافیائی سیاست میں بڑھتے ہوئے تناؤ اور عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے دنیا یونہی غیرمستحکم حالت میں رہے گی۔
غزہ اور یوکرین میں جنگوں اور چین-امریکا تناؤ کی وجہ سے عالمی منظرنامہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ایک سے زائد بحرانوں اور چیلنجز سے پیدا ہونے والی رکاوٹیں مستقبل کو مزید پریشان کُن بنا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس غیریقینی کی صورتحال کو اگلے سال امریکا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے عام انتخابات مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
کثیر القطبی دنیا کی طرف منتقلی میں تو تیزی آئے گی لیکن کثیرالجہتی ادارے مسلسل دباؤ میں رہیں گے۔ عالمی سطح پر طاقت کی منتقلی بھی جاری رہے گی جبکہ اوسط درجے کی قوتیں جغرافیائی سیاست کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
2024ء کے جغرافیائی سیاست کے رجحانات، رسک اور چیلنجز میں بے یقینی کی صورتحال ایک حقیقت کی طرح موجود رہے گی۔ دی اکانومسٹ کی ’ورلڈ آہیڈ 2024‘ رپورٹ میں تنازعات اور جغرافیائی سیاسی رقابتوں میں شدت کی وجہ سے ’ملٹی پولر ڈس آرڈر‘ کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ یقینی طور پر جاری بحرانوں کی وجہ سے آئندہ سال دنیا غیرمستحکم اور بے یقینی کی صورتحال کا ہی شکار رہے گی۔
لندن میں قائم رسک کنسلٹنسی فرم کنٹرول رسکس کا ماننا ہے کہ آئندہ آنے والا سال ’بحران کو مزید سنگین بنانے اور رکاوٹیں پیدا کرنے میں اہم ثابت ہوگا‘ جس سے رسک منیجمنٹ اوورلوڈ ہوگا’۔ دیگر ادارے بشمول عالمی اقتصادی فورم ’متعدد بحرانوں کے دور‘ کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
آنے والے سال میں سب سے اہم اسٹریٹیجک منظرنامہ امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کا راستہ ہوگا۔ اگرچہ دونوں عالمی قوتوں نے غیرمنظم تصادم کے خطرات کا ادراک کیا ہے اور حالیہ مہینوں میں اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن جغرافیائی مفادات کے تصادم، تائیوان سے تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تصادم کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہیں گے۔
چین سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی بائیڈن انتظامیہ کی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی سے واضح ہوچکی ہے جبکہ چین کی جانب سے دباؤ کے باعث تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تصادم بڑھے گا، عسکری مقابلے میں بھی شدت آئے گی جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تائیوان ایک خطرناک تنازع بنا رہے گا۔
تاہم کنٹرول رسکس، دونوں ممالک کے اندرونی چیلنجز کو مدِنظر رکھتے ہوئے سمجھتا ہے کہ دونوں کے درمیان معاملات ’فی الحال اپنی جگہ پر رہیں گے‘۔ ان اندرونی چیلنجز میں اہم امریکا کے صدراتی انتخابات اور چین کے معاشی مسائل ہیں۔ بین الاقوامی تھنک ٹینکس اور بلیک راک جیسی سرمایہ کاری کی مشاورتی کمپنیز کے زیادہ تر جائزوں نے دونوں ممالک کے تصادم کو خارج ازامکان قرار دیا ہے لیکن ایشیا پیسیفک خطہ جو امریکا اور چین کی کشیدگی کا مرکز ہے، یہاں دنیا دونوں ممالک کے ممکنہ حادثاتی تصادم کے حوالے سے فکرمند ہے۔
سال 2024ء میں مشرق اور مغرب کے درمیان کشیدگی میں شدت آئے گی جبکہ یوکرین جنگ جاری رہے گی لیکن شاید معاملات تعطل کا شکار ہوجائیں۔ مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کے فقدان کا مطلب یہ ہے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگا جس میں عالمی معیشت اور سپلائی چینز بھی متاثر ہوں گی۔
تاہم عالمی توجہ اس وقت یوکرین سے ہٹ غزہ کی جانب مبذول ہوچکی ہے۔ اس تنازع نے مشرقِ وسطیٰ کو تشدد اور عدم استحکام کی صورتحال میں ڈال دیا ہے اور کچھ عرب ماہرین اسے ’فیصلہ کُن‘ لمحہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
دہائیوں تک ردی کی ٹوکری میں پڑا رہنے والا مسئلہ فلسطین اب عالمی ایجنڈے میں سرِفہرست ہے۔ موجودہ صورتحال سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرکے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار کروانے کی امریکی پالیسی ناقص اور ناپائیدار تھی۔ معاہدات ابراہیمی کی حکمت عملی اب غزہ میں جنگ کی وجہ سے ختم ہوچکی ہے۔ 2024ء عرب حکومتوں اور عالمی قوتوں کی صلاحیتوں کو چیلنج کرے گا کہ وہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے مسئلہ فلسطین کا حل کیسے نکالتے ہیں اور اسرائیل پر کیسے زور دیتے ہیں کہ وہ دوبارہ دو ریاستی حل کی طرف لوٹے۔
تقسیم کا شکار اس عالمی منظرنامے میں درمیانی قوتیں جغرافیائی سیاست پر بھرپور اثرانداز ہوں گی۔ چین-امریکا کے باہمی تناؤ نے دیگر ممالک کو موقع دیا ہے کہ وہ اس رقابت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنا آزاد راستہ اختیار کریں۔
اس کے علاوہ عالمی نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی اور طاقت کے منتشر ہونے نے درمیانی قوتوں کے لیے سفارتی سرگرمیوں اور اثرورسوخ پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جیسے جیسے یہ رجحانات بڑھتے جائیں گے، یہ درمیانی قوتوں کو اپنی سودے بازی کی اہلیت بہتر کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ اس سے دو بڑی عالمی طاقتیں زیادہ سفارتی سرمایہ خرچ کرکے درمیانی طاقت والے ممالک کو شامل کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔
بین الاقوامی خطرات کے حوالے سے زیادہ تر جائزوں کے مطابق دنیا میں آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے علاقائی اور عالمی سطح پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں انتخابات کا انعقاد ہوگا جن میں توقع کی جارہی ہے کہ 4 ارب سے زائد لوگ بیلٹ کے ذریعے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
سب سے زیادہ نتیجہ خیز امریکا کے صدارتی انتخابات ثابت ہوں گے۔ اگر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی ہوتی ہے تو اس کے دنیا پر دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے یہی امید کی جارہی ہے کہ وہ اپنی پرانی خارجہ پالیسی اختیار کریں گے جو انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اختیار کی تھی۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی چین کے ساتھ تعلقات، یوکرین میں جنگ، اتحادیوں کے ساتھ تعلقات اور دیگر خطوں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے امریکی دعووں پر اثرانداز ہوگی۔
2024ء میں کلیدی سوال یہ ہوگا کہ آیا جمہوری رجعت پذیری کا حالیہ برسوں میں دیکھا جانے والا رجحان جاری رہے گا یا رک جائے گا۔ چونکہ دنیا بھر کی جمہوری ریاستوں کو تقسیم، عدم برداشت اور نقصان دہ سیاست کے چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے جمہوری پسماندگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ان ریاستوں میں شہری آزادی اور میڈیا کی آزادی میں کمی اور اختلاف رائے کے حق کو دبانے کی کوششوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ معاشی تناؤ اور بڑھتی ہوئی عوامی توقعات کے پس منظر میں ہورہا ہے۔
جمہوری انحطاط کے عالمی رجحان کو بہت سی عالمی تنظیموں نے ریکارڈ کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹاک ہوم میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس کی گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی کی تازہ ترین گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی رپورٹ میں بڑی تعداد میں ممالک کی جمہوریتوں کو زوال پذیر پایا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں حساب لگایا گیا کہ دو تہائی سے زائد عالمی آبادی زوال پذیر جمہوریتوں، آمرانہ یا ہائبرڈ حکومتوں میں زندگی گزار رہی ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی کمزوریوں کا جواب دینا سال 2024ء کا اہم چیلنج ہوگا۔ ایک ڈیجیٹلائزڈ دنیا کو سائبرسیکیورٹی کے پریشان کن مسائل کا سامنا ہے کیونکہ پوری دنیا میں ہی اس کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
ڈیٹا چوری اور دھوکہ دہی، سائبر حملے، حساس سسٹمز، بجلی کے نیٹ ورکس اور مالیاتی منڈیوں پر حملے بڑھتے ہوئے خطرات کی فہرست میں شامل ہیں۔ مصنوعی ذہانت بالخصوص اس کا فوجی استعمال بھی بہت سے خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں بین الاقوامی سطح پر ایسے اقدامات نظر نہیں آتے جن کا مقصد نئی ٹیکنالوجیز کے غیر مستحکم اثرات سے نمٹنا یا انہیں کم کرنا ہو۔
سال 2024ء میں چیلنجز تو بہت ہوں گے لیکن یہ چیلنجز ہمیں ایک ایسی دنیا میں درپیش ہوں گے جہاں عالمی قیادت اور یکجہتی، دونوں ہی کا فقدان ہوگا۔
یہ مضمون 4 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔