!جاگو اٹھو پاکستان

ذرا تصور کریں ایک ایسا ملک جسے مذہبی شدّت پسندی اور تشدد نے تہس نہس کر دیا ہو- اس کی عوام نے ایک ایسی گورنمنٹ کا انتخاب کیا ہو جو پانچ سال تک (اپوزیشن میں بیٹھ کر) سابقہ حکومت کو تشدد پر قابو پانے اور اس کے خاتمے میں ناکامی پر ملامت کرتی رہی۔
اور پھر، انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد نئی حکومت کے وزیر اعظم قوم سے اپنے پہلے خطاب کے لئے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں،
"ہمیں (نئی حکومت کو) اب اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ (دہشتگردی کے حوالے سے) صورت حال واقعی کتنی سنگین اور پیچیدہ ہے"۔
آپ ان کی یہ بات سنتے ہیں اور سوچتے ہیں، آخر یہ لوگ کس بات پر دوسروں کو ملامت کرتے رہے ہیں، کیا یہ گزشتہ پانچ سال سے اس ملک میں نہیں تھے؟
اس کے بالکل برعکس، ناصرف یہ لوگ پنجاب اسمبلی میں موجود تھے بلکہ انہوں نے بھی صوبے میں شدّت پسندانہ تشدد کی لہر کا سامنا کیا ہے جہاں وہ سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے پنجاب کے چیف منسٹر (جو ایک بار پھر صوبے کے چیف منسٹر ہیں) شدّت پسندوں کے آگے تقریباً گڑگڑاۓ تھے کہ پنجاب کو بخش دیا جاۓ، کیونکہ وہ (پنجاب گورنمنٹ) بھی اسی چیز پر یقین رکھتے ہیں جس پر شدّت پسندوں کو ہے-
اس فرمانبردارانہ درخواست پر شدّت پسندوں نے پنجاب میں حملے بند کردیے- تاہم، دوسری جگہوں، جیسے خیبر پختون خواہ، سندھ، اور بلوچستان میں کالعدم شدّت پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی طرف سے آگ و خون اور پاگل پن کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔
بہرحال، وہ جو کبھی صرف پنجاب کی صوبائی حکومت تھی، ان میں سے اب زیادہ تر نئی مرکزی حکومت کا حصّہ بن گۓ ہیں۔ پنجاب کے چیف منسٹر یہ کہہ کر شدّت پسند حملوں کو صوبے سے دور رکھ سکتے ہیں کہ انکی حکومت اور ان ایماندار درندوں کے خیالات ایک ہیں لیکن باقی ماندہ پاکستان اس معذرت خواہانہ اور فرمانبردارانہ راستے پر چلنے کو تیار نہیں۔
اسلام آباد میں سابقہ حکومت اور خیبر پختون خواہ، سندھ اور بلوچستان میں اس کے اتحادیوں نے شدّت پسندوں کے ہاتھوں ناقابل بیان ہلاکتوں اور تشدد کا سامنا کیا ہے۔
اور پھر بھی، تشدد کے خلاف اس کے (اگرچہ بدنظم) ردعمل کو اپوزیشن پارٹیز خصوصاً پی ایم ایل-این، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے انتہائی لاپرواہی اور سنگدلی کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا۔
سابقہ حکومت کے بدنظمی کے شکار طرز عمل کو اپوزیشن اور اس کے ہمدردوں نے پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا پر خوب اچھالا، اور یہی وہ وجوہات تھیں جن کی بناء پرقوم نے (مرکز اور پنجاب میں) پی ایم ایل-این اور (خیبر پختون خواہ میں) پی ٹی آئی کو گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ووٹ دیے۔
پی ایم ایل-این اور پی ٹی آئی دونوں کا یہ اصرار تھا کہ ان کے پاس پاکستان کو لاحق تمام امراض کی بہتر سمجھ اور جوابات موجود ہیں۔ خصوصاً انتہا پسند تشدد، توانائی کے بحران اور بگڑتی اقتصادی حالت کے حوالے سے۔
جہاں تک انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے منڈلاتے گہرے ساۓ اور تجربات کا تعلق ہے، ایسا لگتا ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں اب تک پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے مسئلہ پر خالی خولی نظریوں کی بنیاد پر بناۓ گۓ فریب، اور ایسی من گھڑت کہانیوں کا پیچھا کرتی رہی ہیں جن کا دارومدار ادھ کچی اور سطحی عقل و فہم پر ہے۔
ایک معتبر انگریزی ہفتہ وار نے بتایا ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی کے چیف عمران خان پریشان ہوگۓ جب خیبر پختون خواہ میں عہدیداروں کے ایک گروپ نے انہیں صوبے میں سرگرم انتہا پسند تنظیموں کے میک اپ کی تفصیلی پریزنٹیشن پیش کی۔
انہیں بتایا گیا کہ تقریباً چالیس سے زائد تنظیمیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی میں کام کر رہی ہیں۔ یہ سن کر ایسا لگا انہیں حیرت ہوئی۔
حال ہی میں اس حوالے سے جو چیزیں، نواز شریف اور عمران خان کو چونکا رہی ہیں، ان باتوں کو نا صرف گزشتہ حکومت بلکہ بہت سے معتبر خبر نگار، کالم نگار اور کچھ عرصے سے چند ٹی وی اینکر بھی دہراتے رہے ہیں۔
کیا شریف برادران اور عمران خان اس وقت نسیم حجازی کے ناول پڑھ رہے تھے جب انہیں ان تفصیلات پر غور کرنا چاہیے تھا جن سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اور ساتھ ہی کچھ غیر ملکی صحافی پاکستان میں سرگرم انتہا پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے میک اپ، ایجنڈے اور آپریشنل طریقہ کار کے بارے میں عوام کو مطلع کر رہے تھے؟
اپنی لاعلمی میں پی ایم ایل-این اور پی ٹی آئی نے ناصرف ملک کو انتہا پسندی کے مسئلہ پر گمراہ اور الجھن میں ڈال دیا ہے بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے یہ خود فریبی کا شکار ہو گۓ ہیں۔
اور آج ہمارے سامنے اسلام آباد، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں ایسی نئی حکومتیں ہیں جو فقط دو ماہ کے عرصے میں پچاس سے زائد دہشتگرد حملوں کا شکار ہونے کے بعد جیسے سکتے میں آ گئی ہوں۔
یہ ہے اصل تشویش کا سبب۔ ہمارے پاس مرکز، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ایسی گورنمنٹس اقتدار میں ہیں جن کا خیال ہے کہ ڈرون حملے اور وزیرستان میں فوج کی موجودگی انتہا پسند حملوں کی اصل وجہ ہیں۔ ان کے یہ وسیع نظریات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور اب پہلے سے بھی زیادہ احمقانہ لگنے لگے ہیں۔
ہم حکومت کی اعلیٰ سطح پر ایسے لوگ دیکھ رہے ہیں، جو اس ملک کو لاحق خطرے کی اصل نوعیت دیکھ کر حواس باختہ ہو گۓ ہیں۔
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ نواز شریف جیسے تجربہ کار انسان، بلآخر ان حقائق کو تسلیم کر لیں گے جن کا انھیں اچانک ادراک ہوا ہے۔
انکی حکومت کو چاہیے کہ سکتے کی حالت سے باہر نکلیں، آستینیں چڑھائیں اور سب سے پہلے اس ملک میں رائج انتہا پسند تشدد کی پیچیدگیوں کو پوری طرح سمجھیں اور پھر بجاۓ دہشت کی ماری مگر معصوم عوام کو (پی ایم ایل-این اور پی ٹی آئی دونوں) مستقل بہلاوے دینے کے، اس کا کچھ علاج کریں۔
اور وقت آگیا ہے کہ عمران خان بھی اپنی خود پسندی کو ایک طرف کریں اور ایسی اہم معلومات کے لئے گنجائش پیدا کریں جو ان کے گھمنڈی برتاؤ میں تھوڑی انکساری لاسکے۔ اس بات کے پیش نظر کہ انکی پارٹی، جنگ زدہ خیبر پختون خواہ کی حکومت چلا رہی ہے، وہ ایک اہم کھلاڑی بن جاتے ہیں۔
اگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ انتہا پسندانہ تشدد کے حوالے سے ان کے نظریات اب ناقص معلومات اور الجھے ہوئے مفروضوں پر مبنی لگنے لگے ہیں، تو پھر انکا انجام تاریخ کے غلط اوراق میں ہوگا۔ ایک شہرت پسند انسان کے لئے یہ مقام زیادہ شاندار نہیں ہو گا۔
ندیم ایف پراچہ ایک کلچرل ہسٹورین اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں