’بھارت کے سخت اقدامات کشمیریوں کے عزم کو مزید توانا کریں گے‘
بھارت کی عدالت عظمیٰ نے کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی حکومت کے 2019ء کے اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ اس اقدام کے تحت بھارتی حکومت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کردیا تھا۔ اس متفقہ عدالتی فیصلے نے مقبوضہ کشمیر کے الحاق پر مہر ثبت کردی ہے تاہم اس فیصلے میں حیرت کا کوئی عنصر نہیں ہے۔
اس فیصلے نے نہ صرف مودی حکومت کے خطے کو تقسیم کرنے کے اقدام کو بلکہ مقبوضہ وادی میں جاری آبادیاتی تبدیلی کو بھی باضابطہ کردیا ہے۔ بھارت کے زیر تسلط رہنے والے لاکھوں کشمیریوں کے لیے یہ ایک اور سیاہ دن ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے اس فیصلے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’امید، ترقی اور اتحاد کا شاندار اعلان‘ قرار دیا ہے۔ اس فیصلے نے شاید مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کو چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر بہت بڑا سیاسی فائدہ دیا ہو لیکن یہ یقینی طور پر مقبوضہ کشمیر کی محکوم آبادی کے لیے پرامید اعلان نہیں ہے۔
عدالت نے خطے میں آئندہ سال 30 ستمبر تک انتخابات کروانے کا بھی حکم دیا ہے تاہم خطے کی غیر مستحکم صورتحال کے پیش نظر بھارت کے لیے وہاں انتخابات کروانا مشکل ہوگا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو روایتی طور پر علیحدگی کے مخالف کشمیری رہنماؤں نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلے سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ تقریباً تمام سرکردہ کشمیری رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اگرچہ وحشیانہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی آئی ہے، لیکن حالات قابو میں نہیں ہیں۔
پہلے سے زیادہ مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپس آنے کے فوری بعد نریندر مودی نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جس نے کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت فراہم کی تھی۔ یوں سات دہائیوں کے بعد مقبوضہ وادی کے لیے برائے نام خود مختاری کو بھی ختم کردیا گیا۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 درحقیقت مقبوضہ ریاست کے بھارت سے الحاق کے معاہدے پر مبنی تھا جسے کشمیری علیحدگی پسند گروپوں اور پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ برسوں کے دوران مقبوصہ کشمیر کے اختیارات کو اس قدر کم کیا کردیا گیا کہ مقبوضہ ریاست سے خود مختاری کی جھلک تک ختم ہوگئی۔ مودی سرکار کے 5 اگست کے اقدام نے کاغذی کارروائی کرکے مقبوضہ کشمیر کے نوآبادی ہونے پر پڑے پردہ کو بھی ہٹا دیا۔ مودی نے طویل عرصے سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اس کا ہندوستانی ریاست سے الحاق کرنے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔
لیکن جس جلدبازی میں یہ کام کیا گیا ہے وہ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ہٹ دھرمی اور حد سے تجاوز کا مظاہرہ تھا۔ درحقیقت، ’آرٹیکل 370 کی منسوخی نے خطے کو دو وفاقی علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دیا ہے۔ اب ان دونوں پر ان کے اپنے مقننہ کے بغیر براہ راست مرکز سے حکومت کی جائے گی‘۔
5 اگست کی کارروائی کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کو کچلنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں اضافی بھارتی فوجیوں کی تعینات ہوئی۔ اس قدم نے کشمیریوں کو بھارتی قبضے کو چیلنج کرنے کے لیے جس طرح متحد کیا ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ علاقہ گزشتہ چار سالوں سے نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی میں ہے۔ یہ عملی طور پر محاصرے میں ہے اور تمام بنیادی حقوق معطل ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اقدام کو ہندوستانی جمہوریت کا ’تاریک ترین باب‘ قرار دیا اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے کی گئی اس کارروائی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا۔ کشمیر کی سیاسی جماعتیں جنہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی مخالفت کی تھی وہ بھی عدالت سے رجوع کرنے والوں میں شامل تھیں۔
چار سال سے زیادہ عرصے سے بھارتی سپریم کورٹ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے فیصلے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔ پیر کو سنائے گئے فیصلے نے نہ صرف مودی حکومت کے غیر قانونی اقدام کی ’توثیق‘ کی ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے بھارتی ریاست کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کو بھی جائز قرار دیا ہے۔
زیادہ نقصان دہ امر عدالت کی جانب سے آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کی توثیق ہے۔ آرٹیکل 35 اے نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ صرف کشمیر کے مستقل باشندے ہی خطے میں جائیداد کے مالک ہوسکتے ہیں۔ مودی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ڈومیسائل رول کو تبدیل کیا۔ ’یہ اقدام ہندوستان کے کسی بھی ایسے شخص کو رہائش اور سرکاری ملازمتوں کا حق دیتا ہے جو ریاست میں 15 سال یا اس سے زیادہ عرصے رہا ہو، وہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہو اور کچھ امتحانات دیے ہوں یا ریاستی حکومت میں 10 سال یا اس سے زیادہ کام کیا ہو‘۔
کچھ رپورٹس کے مطابق، بھارت کے مختلف حصوں سے تقریباً 50 لاکھ افراد نے کشمیری ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پہلے ہی حاصل کر لیے ہیں، اس طرح مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے جو انتخابات ہونے کی صورت میں ان کے نتائج کو تبدیل کر سکتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حکم نے کشمیر کی ان سیاسی جماعتوں کو بھی دور کر دیا ہے جو نئی دہلی کے ساتھ ایک خود مختار فریم ورک کے تحت کام کرنے کو تیار تھیں۔ اس فیصلے کے بعد اب بھارت کے پاس کشمیر میں کوئی اتحادی نہیں بچا ہے۔
سابق کشمیری وزیر اعلیٰ اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح، ایک اور سابق وزیر اعلیٰ اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اعلان کیا ہے کہ ’عزت اور وقار کے لیے ہماری لڑائی جاری رہے گی‘۔
تاہم اہم کشمیری مزاحمتی رہنما میر واعظ عمر فاروق کے لیے یہ فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق 2019ء سے زیادہ تر وقت گھر میں نظر بند تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’وہ لوگ جنہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت (بھارت کے ساتھ خطے کے) الحاق کی سہولت کاری کی تھی، انہیں احساس ہوگا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے‘۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا حکم انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست ہندوتوا کی طرف مائل ہے۔ یہ یقینی طور پر اگلے سال ہونے والے قومی انتخابات میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کے امکانات کو فروغ دے گا، جس سے مودی کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی۔ تین بڑی ریاستوں میں پارٹی کی تازہ ترین جیت نے پہلے ہی اس کی انتخابی پوزیشن کو مستحکم کر دیا ہے۔
مودی حکومت کے 5 اگست کے اقدام کی توثیق کرنے والا عدالتی حکم جغرافیائی سیاست پر بھی اثرانداز ہوگا، جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بامعنی مذاکرات کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
پاکستان کے پاس موجودہ حالات میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرنے اور بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے علاوہ آپشنز محدود ہی ہیں۔ لیکن کشمیری عوام نے دکھا دیا ہے کہ بھارتی ریاست کی طرف سے طاقت کا بے تحاشہ استعمال حصول آزادی کے ان کے عزم کو کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک طویل جنگ ہونے والی ہے لیکن بھارت کے سخت اقدامات ان کے عزم کو مزید توانا کریں گے۔
یہ مضمون 13 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔