الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی
آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان۔ اس سے پہلے کہ آپ آٹھ فروری کو اگر الیکشن ہوتے ہیں، اس میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں، میرا دل چاہا، کیونکہ کرنے کو میرے پاس کوئی خاص کام نہیں تھا، کہ جب بھی کوئی نیا الیکشن آتا ہے تو ہم اس میں کھو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس سے پہلے کیا کیا ہوا کہ نوبت یہاں تک آئی ہے۔
مثلاً اگر اسی الیکشن کو لے لیا جائے جن کا آٹھ فروری کو ہونے کا اعلان ہوا ہے تو یہ 1970ء سے لے کر اب تک بارہویں الیکشن ہوں گے۔ بارہویں الیکشن وہ جن میں ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر عام آدمی کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی رائے دے کر حکومت سازی میں اسٹیک ہولڈر بن سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ 1970ء سے پہلے الیکشن نہیں ہوتے تھے لیکن ان کی نوعیت مختلف تھی۔ طرح طرح کے تجربات ہوتے تھے تب کہیں جا کے ہم 1970ء تک اس قابل ہوئے کہ لوگوں پر اور ان کے ووٹوں پر اعتماد کرنا سیکھیں۔
اس سے پہلے کا جو عمل ہے اگر میں مختصراً وہ بتانے کی کوشش کروں تو برطانوی ہند میں 46-1945ء میں یعنی تقسیم سے لگ بھگ دو سال پہلے جداگانہ انتخابات ہوئے تھے جس میں اہم جماعتیں تھیں کانگریس جو ہندو اکثریت کی نمائندہ تھی اور دوسری جماعت تھی مسلم لیگ جو مسلمانوں کی نمائندہ سمجھی جاتی تھی۔ اس میں عام طور سے ہمیں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مختص سیٹوں پر لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی اور کانگریس ہندوؤں کے لیے مختص سیٹوں پر فاتح بن کر ابھری لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ جو الیکشن تھے یہ ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر نہیں تھے۔
ووٹر کے لیے اس زمانے میں شرط تھی کہ یا تو وہ صاحب جائیداد ہو یا بنیادی طور پر تعلیم یافتہ ہو یا کسی بھی طرح کا حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ 90 فیصد آبادی ان تینوں میں سے کسی ایک معیار پر بھی پورا نہیں اترتی تھی لہٰذا یہ الیکشن تو ہوئے لیکن اس میں برٹش انڈیا کہ یا متحدہ ہندوستان کے کہہ لیں جو جمہور تھے انہوں نے ووٹ نہیں دیا بلکہ ان میں سے جو ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط پوری کرتے تھے ان کو اس قابل سمجھا گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ اس زمانے کا یہ سسٹم تھا۔
اس کے نتیجے میں جو مرکزی اسمبلی وجود میں آئی 1946ء میں اس نے قانون سازی کی کوشش کی اور جو عبوری دور تھا تقسیم سے پہلے کا اس میں کام کرنے کی کوشش کی پھر جب تقسیم ہوگئی تو بالواسطہ صوبائی انتخابات کے بدلے میں جو مرکزی اسمبلی بنی تھی اس کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی وفاقی مجلس قانون ساز وجود میں آئی جس کے دونوں بازوؤں سے، مغربی پاکستان سے اور مشرقی پاکستان سے 69 رکن تھے۔
نئی حکومت تھی یا نئی مملکت تھی وہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت چل رہی تھی کیونکہ اس کا کوئی اپنا آئین نہیں تھا تو یہ جو مجلس قانون ساز تھی اس کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ نئی مملکت کے لیے آئین سازی کرے لیکن آئین سازی نہ ہوسکی ہندوستان میں اس پر کام شروع ہو چکا تھا لیکن پاکستان میں اس پر کام شروع نہیں ہوا تھا کیونکہ ایک ہی سال بعد قائداعظم کی رحلت ہوگئی تھی۔
اس کے بعد بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور دنگل بازی شروع ہوگئی جو آپ تاریخ کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ جو پہلی مجلس قانون ساز تھی یہ آئین سازی میں ناکام ہوگئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عام آدمی بالکل کٹا رہا بلکہ 1951ء سے 1954ء کے دوران پاکستان میں ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر صوبوں میں البتہ ضرور انتخابات ہوئے اور بدقسمتی سے پہلے انتخابات پر ہی سوالیہ نشان آگیا۔
اس زمانے میں ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پنجاب میں ایک اصطلاح متعارف ہوئی جھرلو، جھرلو کا مطلب یہ تھا کہ بظاہر ایک امیدوار بہت مضبوط ہے اور جب بیلیٹ باکس کھلتا ہے تو وہ ہار جاتا ہے۔ وہ ہار کیسے جاتا ہے؟ کیونکہ پولیس اور بیوروکریسی جو ضلعی اور تحصیل کی سطح پر بیوروکریسی ہوتی تھی پٹواری، تھانے دار وغیرہ اسے الحمدللہ شروع سے ہی ہماری حکمران اشرافیہ استعمال کرنے کی عادی ہوچکی تھی تو پنجاب میں جو الیکشن ہوئے ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ان پر بھی اس جھرلو کی وجہ سے سوالیہ نشان لگ گیا۔
مشرقی پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے تو وہاں مسلم لیگ کی خاصی مقبولیت تھی لیکن جو 1952ء کے لسانی فسادات ہوئے جو بنگلہ اور اردو کی و بحث تھی کہ کونسی قومی زبان ہونی چاہیے کون سی نہیں ہونی چاہیے اور ان کی بنیاد پر لوگ بھی مرے تو مشرقی پاکستان میں ایک خیال یہ پیدا ہوا کہ مسلم لیگ شاید ہماری امنگوں پر پورا نہیں اتر رہی ہے۔ تو قوم پرست جماعتیں جن میں کہ اس زمانے کی عوامی لیگ بھی تھی اور اس کے رہنما حسین شہید سہروردی تھے اور دیگر جماعتیں تھیں انہوں نے ایک فرنٹ بنایا ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے۔
جگتو فرنٹ نے مارچ 1954ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کا مشرقی پاکستان میں صفایا کر دیا۔ عام آدمی کو ووٹ کی طاقت دینے کے نتیجے میں یہ جو نتائج آئے تھے اس کا ردعمل یہ ہوا کہ جو نوآبادیاتی نظام کی عادی حکمران اشرافیہ اور بیوروکریسی تھی اس کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی اور ان کو یہ خیال ہوا کہ ایک آدمی ایک ووٹ کوئی بہت زیادہ اچھی چیز نہیں ہے اور جب تک قابل قبول اور مثبت نتائج لانے کا انتظام نہ ہو جائے تب تک بالواسطہ الیکشن ہی غنیمت ہیں اور جمہوریت کنٹرولڈ ہونی چاہیے۔
ان کا خیال تھا کہ عام آدمی جاہل ہوتا ہے شاید اسے پتا نہیں ہوتا کہ جمہوریت کے آداب کیا ہیں، بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں ہے اور وہ اپنے طبقے کو نہیں پہچانتا، وہ یہ باتیں کہتے تو نہیں تھے، ہوسکتا ہے دل میں یہ باتیں سوچتے ہوں۔
پاکستان کی دوسری مجلس قانون ساز بھی بالواسطہ طور پر صوبائی ارکان نے منتخب کی مگر اس نے اچھا کام یہ کیا کہ 1956ء کا آئین بنایا۔ اس سے پہلے 1955ء میں صوبوں کی شناخت ختم کر دی گئی تھی اور ون یونٹ کا فارمولا نافذ کیا گیا تھا۔ جب آئینہ بن گیا تو ظاہر ہے کہ الیکشن بھی ہونے چاہیے تھے ون مین ون وٹ کی بنیاد پر تو طے پایا کہ دسمبر 1958ء یا پھر جنوری، فروری 1959ء میں قومی سطح پر الیکشن کروائے جائیں گے۔
مگر پھر جو اس وقت کے حکمران تھے انہوں نے دیکھا کہ مشرقی بازو میں بالخصوص اور مغربی پاکستان میں بالعموم جو بایاں بازو ہے اور طلبہ سیاست ہے جس کا زیادہ تر جھکاؤ بائیں کی طرف تھا اور قوم پرستی کی سیاست کی لہر رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے اور وہ جو جگتو فرنٹ کی فتح تھی 1954ء کے الیکشن میں مسلم لیگ پر وہ اسی کا نتیجہ تھی تو آئین تو بنا لیا، آئین کا شوق پورا کر لیا لیکن جب الیکشن کی باری آئی تو انہوں نے آنا کانی شروع کر دی۔
پھر جو ہمارے بیوروکریسی کے سرخیل تھے انہوں نے امریکا کو اعتماد میں لیا، اس زمانے میں امریکا بڑا پریشان تھا کہ پوری دنیا میں بایاں بازو پھیل رہا تھا، کہ دیکھیں اگر ہم نہ رہے تو پاکستان میں بایاں بازو چھا جائے گا تو امریکا نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اس کا گرین سگنل پاتے ہی 7 اکتوبر 1958ء کو وزیراعظم آئی آئی چندریگر کو برطرف کرکے صدر میجر جنرل سکندر مرزا جو پہلے گورنر جنرل تھے پھر بعد میں 1956ء کے آئین کے بعد صدر بن گئے تھے انہوں نے اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے مل کر ملک میں مارشل لا لگوا دیا۔
مگر 20 روز بعد جو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر تھے ایوب خان انہیں احساس ہوا کہ سارے اختیار تو میرے پاس ہیں تو پھر بطور ڈیکوریشن پیس میں اسکندر مرزا کو کیوں رکھوں؟ انہوں نے بیس دن کے بعد 27 اکتوبر کو تین چار جرنیلوں کو آدھی رات کے وقت بھیجا جنہوں نے زبردستی اسکندر مرزا سے ایک کاغذ پر سائن کروائے اور وہ سبکدوش ہوگئے۔ ان کو پہلے کوئٹہ اور پھر وہاں سے لندن کی فلائٹ میں روانہ کر دیا گیا اس کے بعد وہ کبھی نہیں پلٹے۔
جو جنرل ایوب خان صاحب تھے، کمانڈر انچیف انہوں نے صدارت بھی سنبھالی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تو پہلے ہی تھے اور پھر عارضی طور پر وزیراعظم کے عہدے کی ٹوپی بھی انہوں نے پہن لی۔ پھر قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے بنیادی جمہوریت کا نظام لیبارٹری میں تیار ہونا شروع ہوا۔ اس کے فضائل کیا تھے، اس کے نقصانات کیا تھے، یہ ہم آپ کو اگلی قسط میں بتائیں گے۔
وسعت اللہ خان سینیئر صحافی و کالم نگار، اور ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے شریک میزبان ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔