الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (چوتھی قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ ہم نے پچھلی اقساط میں تفصیلی طور پر بتایا کہ 1970ء کے انتخابات کن حالات میں منعقد ہوئے اور اس کے بعد 1977ء کے الیکشن کے ذریعے پاکستان کیسے ایک بار پھر فوجی دور میں داخل ہوا۔ اس کے بعد فوجی دور میں یعنی جنرل ضیاالحق کے دور میں پہلے غیر جماعتی انتخابات 1985ء کے فروری میں ہوئے۔
میں پہلے غیر جماعتی انتخابات شاید غلط کہہ گیا اصل میں یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے دوسرے غیر جماعتی انتخابات تھے۔ پہلا غیر جماعتی الیکشن 1962ء میں ہوا تھا جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لا لگایا تھا اور وہ اپنی مرضی کی سیاسی سیٹ اپ بنانا چاہتے تھے۔
اس وقت جتنے بھی سیاستدان تھے، ایوب خان کو ان سے شدید الرجی تھی تو انہوں نے کسی پر سات سال جبکہ کسی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگادی اور پھر انتخابات کروائے مگر یہ پہلے انتخابات تھے جو ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر نہیں تھے بلکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے 80 ہزار بلدیاتی کونسلرز کو ملا کر الیکٹورل کالج بنایا گیا اور اس الیکٹورل کالج نے صدر اور قومی اسمبلی کا انتخاب کیا۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات، اگرچہ وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر یعنی ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ہوئے لیکن ان کا مقصد بھی جنرل ایوب کی حکومت کی طرح ضیاالحق کے مارشل لا حکومت کو سویلین چہرہ دینا تھا۔
پھر ان انتخابات سے ایک حکومت نواز نئی پولیٹیکل کلاس جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے، اس کا جنم ہوا۔ 1985ء کے الیکشن اس اعتبار سے بھی یاد رکھے جائیں گے کیونکہ اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا نظام متعارف کروایا گیا۔ اس سے پہلے اقلیتیں جنرل نشستوں کے لیے جیسے مسلمان ووٹ دیتے ہیں ویسے ہی پاکستانی ہندوؤں مسیحی اور سکھ بھی دیتے تھے۔ لیکن ضیاالحق صاحب نے سعودی اسکالرز کی مدد سے ایک شرعی نظام نافذ کرنے کا آغاز کیا تو شاید اسی اسپرٹ میں انہوں نے ماضی کی روایت کو بھی ختم کردیا اور اقلیتوں کے لیے علیحدہ الیکٹوریٹ کا نظام متعارف کروایا گیا۔ یعنی اقلیتی ووٹر مسلمان امیدواروں کو ووٹ نہیں دے سکتے بلکہ صرف اپنے ہم مذہب امیدوار کو ہی ووٹ دے سکتے ہیں۔
جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً جنرل نشستوں پر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے ہوتے ہیں لیکن اقلیتوں کے لیے ایک ہی حلقہ بنایا گیا اور وہ پورے پاکستان کا حلقہ تھا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے یعنی ایک امیدوار جس نے رحیم یار خان سے یا گھوٹکی سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہوں اب اسے کنویسینگ کے لیے چترال، کوئٹہ، لاہور بھی جانا پڑے گا تو اس طرح اقلیتوں کو ایک طرح سے عملاً انتخابی سیاست سے نکال کر بے جان کردیا گیا۔
لیکن فروری 1985ء کے الیکشن بہت ہی غور و خوص اور ٹیسٹنگ کے بعد ہوئے۔ انتخابی فضا کی سن گن لینے کے لیے جو مارشل لا حکومت نے ستمبر 1979ء میں پہلے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کروائے۔ ان میں بہت سے حکومت مخالف سیاسی کارکنان جن میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اچھی خاصی تعداد تھی، وہ منتخب ہوگئے۔ اس کی وجہ سے فوجی حکومت پریشان ہوگئی اور اس نے جس اعتماد کے ساتھ نومبر 1979ء میں کہا تھا کہ جی ہم بلدیاتی الیکشن کے بعد عام انتخابات بھی کروائیں گے تو وہ پیشکش انہوں نے بلدیاتی نتائج دیکھتے ہوئے واپس لے لی۔
پھر مارچ 1981ء میں آئین چونکہ معطل تھا لیکن اسٹرکچر بنانے کے لیے کسی نہ کسی چیز کی ضرورت تو ہے تو پروویژنل کانسٹیٹیوشنل آرڈر یعنی پی سی او جاری کیا گیا۔ اس کے ذریعے صدر کو آئین میں ترامیم کا اختیار مل گیا اور پھر جنوری 1982ء میں سرکار کے وفادار سیاستدانوں پر مشتمل ایک 228 رکنی نامزد، منتخب نہیں نامزد مجلس شوریٰ بنی تاکہ مارشل لا حکومت کو کچھ تو سیاسی چہرہ مل جائے۔
اگست 1983ء میں جمہوری قوتیں تھیں مثلاً پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتیں، انہوں نے ایک اتحاد ’تحریک بحالی جمہوریت‘ (ایم آر ڈی) قائم کیا اور عام سیاسی عمل کو شروع کرنے کے لیے اور 1973ء کا آئین مکمل حالت میں بحال کرنے کے نعرے کے ساتھ ایک تحریک شروع کی۔ اس کا زیادہ تر زور اندرون سندھ رہا، پنجاب میں علامتی طور پر کچھ احتجاج دیکھنے میں آیا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالکل الگ تھلگ تھا۔ چونکہ ایک صوبے میں زیادہ زور تھا لہٰذا مارشل لا حکومت کو طاقت کے بل پر احتجاج کچلنے میں آسانی رہی۔
عام انتخابات کروانے تھے اور اس کا پریشر ایم آر ڈی کی وجہ سے بڑھتا چلا گیا۔ لیکن اس سے پہلے ضیاالحق صاحب نے 19 دسمبر 1984ء کو صدارتی ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا۔ یہ بہت مزیدار اعلان تھا اس میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ کیا آپ اگلے پانچ سال کے لیے ضیاالحق کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ سوال یہ تھا کہ اگر آپ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ضیاالحق اگلے پانچ سال کے لیے صدر ہیں، اس طرح گھما پھرا کر سوال رکھا گیا۔
الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس ریفرنڈم میں 62 فیصد ووٹ پڑے اور ان 62 فیصد میں سے بھی 98 فیصد نے ضیاالحق کے اس سوال کے حق میں ووٹ دیا کہ اگر ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں تو آپ صدر ہیں، یہ عجیب مضحکہ خیز صورتحال تھی۔ حبیب جالب اس زمانے میں زندہ تھے اور انہوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے کہا کہ،
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اس دن کیا حالات تھے، سڑکوں پر سناٹا تھا لیکن ووٹ 62 فیصد پڑگئے۔ 1985ء کے الیکشن چونکہ غیر جماعتی تھے اور سیاست دانوں کو اور ان کی جماعتوں کو بہت مضبوطی سے باندھا گیا تھا لہٰذا جس جس کے پاس بھی پیسہ تھا وہ میدان میں آگیا مثلاً ٹھیکیدار، تاجر، ریکروٹنگ ایجنٹ، اسمگلرز، نو دولتیے، جاگیردار اور قبائلی اور جو روایتی روحانی خان وادے ہیں ان کو بھی آگے آنے کا موقع مل گیا مگر مارشل لا حکومت کی جانب سے پھر بھی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ کسی کو بڑے انتخابی جلسے یا جلوس کی اجازت نہیں تھی۔ آپ زیادہ سے زیادہ اپنے محلے میں کارنر میٹنگز کرسکتے تھے مگر وہ بھی چار دیواری میں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو بھی امیدوار تھے، تھے تو وہ قومی اسمبلی کے امیدوار لیکن ان کی تقاریر میں گلی کی نالی پکی کروانے کا وعدہ کیا جاتا تھا، سڑک بنوانے کا وعدہ کیا جاتا تھا، محلے کے بیروزگار نوجوانوں کو نوکری دلوانے کا وعدہ کیا جاتا تھا، پاکستان کے تعلقات بھارت، افغانستان اور امریکا سے کیسے ہونا چاہیے انہیں بالکل پتا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ملکی معیشت کس نوعیت کی ہونی چاہیے اس میں کیا کیا اصلاحات ہونی چاہئیں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ سیدھا سیدھا بلدیاتی ذہن کے ساتھ قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے اور ظاہر ہے کہ یہی ٹارگٹ اور یہی منشا تھی مارشل لا حکومت کے لیے کتنا اچھا ہے کہ ایسے سیاستدان سامنے آئیں جو پڑھے لکھے نہ ہوں تاکہ وہ سوال کریں گے اور نہ ہمیں جواب کی زحمت ہوگی۔
بہت سے نئے چہرے سامنے آئے لیکن غیر جماعتی انتخابات سے خرابی یہ ہوئی کہ چونکہ ملک گیر سطح پر تو ڈیبیٹ نہیں ہو پارہی تھی تو لہٰذا قبائلی اور مقامی مسائل تھے۔ برادری ازم ابھر کر سامنے آیا اور سارا زور ایک دوسرے کی کردار کشی پر صرف ہوگیا۔ لیکن ایک چیز بڑی مزیدار ہوئی کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام ووٹر ضیاالحق کی حکومت سے کتنا بیزار تھا۔ نامزد مجلس شوریٰ کے 104 ارکان نے بھی الیکشن میں حصہ لیا مگر ان میں سے صرف دس منتخب ہوئے، باقی سب غیر معروف لوگوں سے ہار گئے۔
بہرحال الیکشن ہوگئے ایک قانونی اسمبلی بن گئی تو پھر 2 مارچ 1985ء کو صدر مملکت نے آئین کی بحالی کا حکم نامہ جاری کیا تاکہ اسمبلیاں تشکیل پاسکیں۔ محمد خان جونیجو جوکہ ایک وقت میں ایوب خان کی کابینہ میں وزیرِ ریلوے تھے لیکن کا نام بہت کم لوگوں نے سنا تھا تو اس صورت میں وزیراعظم کے طور پر ایک نیا چہرہ سامنے لایا گیا۔ سب ایک دوسرے سے پوچھتے تھے جونیجو صاحب کون تھے لیکن بعد میں جب وہ کرسی پر بیٹھے تو انہوں نے دن میں تارے دکھا دیے تھے جس کا ذکر ہم تھوڑی دیر بعد کریں گے۔
پھر 23 مارچ کو ضیا الحق جو بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے تھے، انہوں نے صدر کے لیے حلف اٹھایا۔ پھر صوبائی وزرائے اعلیٰ اسمبلیوں نے منتخب نہیں کیے بلکہ انہیں گورنر نامزد کردیتے تھے اور اسمبلیاں صرف ہاتھ کھڑا کردیتی تھیں کہ ہاں جی منظور ہے۔ ناں جی ناں کہنے سے آپ کو پتا ہے کہ اس زمانے میں کیا ہوسکتا تھا۔ یہ سارے انتظامات کرنے کے بعد مارشل لا 30 دسمبر 1985ء کو لگ بھگ ساڑھے سات برس بعد اٹھا لیا گیا۔
اس دوران قومی سیاسی جماعتوں کو دور رکھنے کے لیے جو کھچڑی پکی اس کے نتیجے میں نسلی و مذہبی تنظیموں کی مشروم گروتھ شروع ہوئی اور ملک گیر جماعتیں کمزور ہوتی چلی گئیں جس کے نتیجے میں وفاقی سیاست کو ان بالواسطہ طور پر خاصا نقصان پہنچا۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ جتنے بھی مارشل لا ریگولیشن اب تک جاری ہوئے ہیں، اچھے یا برے، انہیں آئینی تحفظ دینے کے لیے ایک ترمیم منظور کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ترمیم منظور کرنی پڑی اور یہ آٹھویں آئینی ترمیم کے نام سے تاریخ اور آئین میں محفوظ ہے۔
پھر جنوری 1986ء میں وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے خود کو الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹر کروایا تھا ان پر سے پابندی ہٹالی گئی۔ وہ اب سیاست کرسکتی ہیں اور جیسے ہی یہ پابندی ہٹی تو غیر جماعتی ایوان میں ایک بار پھر اچانک ’پاکستان مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک جماعت کا ظہور ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ غیر جماعتی نظام کے معمار، یعنی جنرل ضیاالحق، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی کھڑی کی ہوئی غیر جماعتی سیاست کی دیوار کو گرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
اس کے بعد ملک ایک اور سیاسی رولر کوسٹر پر سوار ہوگیا۔ اگلی قسط میں ہم بھی اسی رولر کوسٹر پر سوار ہونے کی کوشش کریں گے۔
وسعت اللہ خان سینیئر صحافی و کالم نگار، اور ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے شریک میزبان ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔