’انتخابات سے قبل سنایا گیا فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی یاد تازہ کررہا ہے‘
خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ عام انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سنایا گیا یہ عدالتی فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اور سزاؤں کی یاد تازہ کررہا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے ذریعے منظر سے ہٹانے کی شرمناک سیاسی روایت کے تحت عمران خان نے اپنے بہت سے پیشروؤں جیسا ہی انجام پایا ہے۔ ان پر اور شاہ محمود قریشی پر جیل کے اندر سائفر سے متعلق مقدمہ چل رہا تھا۔
یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی رہنما کو سرکاری راز افشا کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان پر ایک سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خفیہ مواصلات کو گم کردینے کا الزام ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ دستاویز امریکا کی جانب سے درپیش ایک خطرے کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان کی حکومت کو واشنگٹن اور اس وقت کی فوجی قیادت کی سازش کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا اور یہ بیانیہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نام نہاد دستاویز کو ایک سیاسی جلسے میں لہرایا، جس سے ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے سے کچھ ہفتوں پہلے عوامی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس بیانیے نے کام دکھایا اور عمران خان کے حامیوں کو پرجوش کردیا۔
یہ واضح ہے کہ سازش کا الزام انہیں عسکری قیادت کے ساتھ بھی محاذ آرائی پر لے آیا، وہی عسکری قیادت جس نے کبھی ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے پیچھے بدلہ لینے کی خواہش کارفرما تھی۔ جیل کے اندر عدالتی کارروائی جس طریقے سے چلی اس سے مس ٹرائل کے الزامات کو تقویت ملی۔ پھر انتخابات سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جانا بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
یہ سابق وزیر اعظم کی دوسری سزا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی، جس نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ دریں اثنا، پی ٹی آئی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نے پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔
اس کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان یعنی کرکٹ بیٹ واپس لے لیا اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔
پھر بھی تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے، جس نے آنے والے انتخابات، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں مینیج کرلیا گیا ہے، میں اپنے حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنا لگتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اس کے برعکس بھی نکل سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ پارٹی کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔
ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لہر کو روکنا انتہائی مشکل ہوگا۔ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما کی سزا پورے سیاسی ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مقبول سیاسی رہنماؤں کو الگ تھلگ کرنے کی ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ درحقیقت، اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ سزا سے سابق وزیر اعظم کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جوکہ کل ووٹروں کی اکثریت ہیں۔
یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمزور انتخابی مہم سے ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے گروہوں پر جاری جبر نے پہلے ہی ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان کی سزا ملک میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے پورے جمہوری عمل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ پہلے ہی مشکوک ہونے کے باعث ملک کے استحکام کی طرف بڑھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
مشکوک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی ایک کمزور سویلین حکومت کے لیے بہتر حکومت کرنے اور اقتصادی اور قومی سلامتی کے محاذوں پر کچھ ڈیلیور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے کمزور ہونے کے نتیجے میں طاقت کے ڈھانچے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ پہلے ہی طویل ہوچکا ہے۔ ایک عوامی اجتماع میں آرمی چیف کے حالیہ تبصروں سے متعلق سامنے آنے والی کچھ خبریں موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تنقیدی جائزے کی عکاسی کرتا ہے۔
اس ملک میں آرمی چیف کا اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر کے موضوعات پر بات کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی جب موجودہ آرمی چیف نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے سیاست سے لے کر معیشت، خارجہ پالیسی اور مذہب تک کے مسائل پر بات کی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا وژن تھا کہ ملک کس طرح اپنی تقدیر بدل سکتا ہے، کچھ لوگ اسے ’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن‘ کہتے ہیں، ۔ یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کے ریمارکس فوجی سربراہوں سے منسوب کیے گئے ہوں۔ سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے اپنی ایک ’ڈاکٹرائن‘ تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ عوامی تعامل انتخابات کے قریب ہی ہوا تھا۔ ایسا عمران خان کی تازہ ترین سزا سے چند دن پہلے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ یقینی طور پر کوئی غیر سیاسی گفتگو نہیں تھی اور اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات ہوں گے۔ اگرچہ سیاست کے بارے میں آرمی چیف کے خیالات زیادہ تر سویلین سیاسی رہنماؤں پر ادارہ جاتی عدم اعتماد کی عکاسی کرتے تھے تاہم سماجی اور ثقافتی مسائل پر ان کا نقطہ نظر زیادہ اہم لگا۔
اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ فوج زمام اقتدار سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ سویلینز کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کا عدم اعتماد اب بھی واضح ہے، حالانکہ انتخابات کے انعقاد پر شک کی اب کوئی وجہ نہیں ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان کی سزا کے بعد سیاسی منظر نامہ کیسا بنتا ہے۔
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔