الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی (ساتویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
آداب! میں ہوں وسعت اللہ خان اور الیکشن کہانی جاری ہے۔ ہم بات کررہے تھے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں ہونے والے انتخابات کے معیار کے بارے میں اور اس دوران ملک میں کیا کیا ہوا۔ ہم نے گزشتہ قسط میں 1993ء کے انتخابات کی بات کی تھی۔ 1993ء کے انتخابات اس لحاظ سے آئیڈیل تھے کیونکہ پیپلز پارٹی خوش تھی، صدر ان کی مرضی کا آیا تھا یعنی فاروق لغاری صاحب جبکہ بےنظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔
توقع یہ تھی کہ شاید اس بار محترمہ بے نظیر بھٹو کی سویلین حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلے گی۔ لیکن آپ کو تو پتا ہے کہ پاکستان میں ہر پونے تین، چار سال کے بعد اچانک سے کسی کے پیٹ میں درد اٹھتا ہے اور وہ لات مار کر پورے اسٹرکچر کو گرا دیتا ہے، اب تک کم از کم ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں۔ 6 نومبر 1996ء کو، صدر فاروق لغاری جنہیں بے نظیر بھٹو نے بہت محبت سے صدر بنایا تھا، انہوں نے سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت کی حمایت سے بےنظیر بھٹو پر خراب گورننس، کرپشن، عدلیہ کی آزادی پر حملے، سینیئر افسران اور ججوں کی فون بگنگ، ماورائے عدالت قتل اور ابتر اقتصادیات کا الزام لگا کر اسمبلیوں سمیت ان کی حکومت کو برطرف کردیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ شیکسپیئر نے جولیس سیزر کا کھیل لکھا تھا اس میں بروٹس ہوتا تھا اور اس نے جو جولیس سیزر کے ساتھ کیا، تو پیپلز پارٹی کی سینیئر قیادت کے بقول فاروق لغاری بھی بروٹس نکلے۔ جب حکومت کی برطرفی کا اعلان ہوا تو شو کو گرینڈ بنانے کے لیے جیسے پہلے ہوتا تھا ویسے ہی اہم سرکاری تنصیبات پر فوج تعینات ہوگئی۔ وزیراعظم ہاؤس میں کئی گھنٹوں تک بےنظیر بھٹو موجود رہیں لیکن فون لائنز کاٹ دی گئیں، ایئرپورٹ بند کردیا گیا تھا اور اللہ جانے کیوں بند کیا گیا تھا۔ لاہور کے گورنر ہاؤس جہاں آصف زرداری موجود تھے، انہیں وہیں سے گرفتار کرلیا گیا۔ گو کہ اس اقدام کو بھی چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ نے دو ماہ سماعت کے بعد فاروق لغاری کی جانب سے حکومت کی برطرفی کا اقدام جائز قرار دے دیا۔
ملک معراج خالد صاحب جو پیپلز پارٹی کے بانی رکن، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی، وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے تھے جبکہ وہ 1988ء کی بی بی کی حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے تھے، وہ ایک قابل احترام نام تھے، وہ نگران وزیراعظم بننے پر آمادہ ہوگئے۔ 3 فروری 1997ء کو الیکشن ہونا قرار پائے۔ اس میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ تاریخ میں پہلی بار فاٹا کے قبائلی علاقے کے عوام کو آٹھ مخصوص نشستوں پر براہِ راست ووٹ دینے کا حق ملا۔ یہ حق معین قریشی کی نگران حکومت نے 14 دسمبر 1996ء کو ہی دے دیا تھا اور پہلی بار ہی قومی اور صوبائی انتخابات بھی ایک ہی دن منعقد ہوئے تھے۔
نومبر 1993ء میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان لوٹے۔ ضیاالحق کے دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی اس کے بعد سے مرتضیٰ بھٹو ملک سے باہر تھے اور پھانسی کے بعد ظاہر ہے کہ ان کے واپس آنے کا کوئی سبب بھی نہیں بنتا تھا اور 1993ء میں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو مرتضیٰ بھٹو واپس آگئے۔ بےنظیر بھٹو ان کی وطن واپسی کے خلاف تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ بھٹو خاندان کے بہت سے خفیہ اور اعلانیہ دشمن گھوم رہے ہیں اور قسمت کے اعتبار سے ان کا خاندان ہمیشہ سے ویسے بھی گرداب میں ہی رہا ہے۔
لیکن دونوں کی والدہ بیگم نصرت بھٹو، بےنظیر کی احتیاط پسندی کو خاطر میں نہیں لائیں اور انہوں نے بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کا بھرپور ساتھ دیا۔ چنانچہ مرتضیٰ بھٹو نہ صرف پاکستان واپس آئے بلکہ مارچ 1995ء میں انہوں نے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے نام سے اپنا ایک علیحدہ دھڑہ بنایا۔ اگلے برس 20 ستمبر 1996ء کو کراچی میں 70 کلفٹن جو بھٹو خاندان کی آبائی رہائش گاہ ہے، کے باہر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو بظاہر پولیس مقابلے میں سڑک پر مار دیا گیا۔
یہ بہت المناک صورتحال تھی کہ بہن کے وزیراعظم ہوتے ہوئے دن دہاڑے اسی کے ماتحت کوئی ادارہ اس کے سگے بھائی کو سڑک پر مار دے تو اس سے بہت بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوا کہ کیا یہ حکومت اس قابل بھی ہے کہ گورننس کرسکے اور اپنے اداروں پر کنٹرول کرسکے۔ تو ایسے واقعات کو بعد میں فاروق لغاری نے جواز کے طور پر استعمال کیا اور کہا کہ یہ بہت ہی کمزور حکومت تھی جس کا جانا بہت ضروری تھا۔ ایسے میں انتخابات کا اعلان ہوا تو کارکنان بھی اکتائے ہوئے تھے۔ جب فروری 1997ء میں پیپلز پارٹی الیکشن میں کھڑی ہوئی تو اکثر شکایت آئی کہ کارکنان گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس دوران میں اگر تھوڑا سا پیچھے جاؤں اور سندھ کے شہری علاقوں کی بات کروں تو آپ کو یاد ہوگا کہ جون 1992ء میں ایک نیم فوجی آپریشن ہوا تھا جس میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو انٹیلیجنس ایجنسیز کی مدد سے دو دھڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم نے 1993ء کے قومی انتخابات کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 1997ء میں ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں نے انتخابی عمل میں شرکت کی۔ ایک دھڑا ایم کیو ایم حقیقی جسے 10 یا 12 قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی لیکن اسے قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی۔
جماعت اسلامی نے 1997ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن اس بائیکاٹ سے کس کو نقصان پہنچا اور کس کو فائدہ، یہ تو جماعت اسلامی ہی بہتر جانتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ایک نئی پیشکش سامنے آئی جو 25 اپریل 1996ء کو الیکشن سے چند ماہ قبل قائم ہوئی تھی مگر اس نے بھی اپنے قیام کے 6، 7 ماہ ہونے کے باوجود 1997ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کو دیکھا گیا کہ ان کے پاس خیالات کی ہمیشہ کی طرح شدید کمی دیکھی گئی کیونکہ نظریاتی اختلاف یا نظریاتی مقابلہ ختم ہو چکا تھا تو وہی گھسے پٹے موضوعات پر بات کی گئی جو آج تک کی جارہی ہے جیسے نفاذ شریعت، بری معیشت کو سدھاریں گے، گورننس کو اچھا کریں گے اور جو باقی وقت تھا اس میں ذاتی کردار کشی پر اتر آتے تھے کہ جی فلانی ایسی ہے تو فلاناں ایسا ہے، وہی جو آج کل بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔
1997ء کے انتخابات اس لحاظ سے یاد رکھے جائیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی کو جتنی بری انتخابی شکست ان انتخابات میں ہوئی، نہ ایسی شکست اس سے پہلے کبھی ہوئی تھی نہ اس کے بعد اب تک ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ سے قومی اسمبلی کی 18 نشستیں جیت پائی، پنجاب سے دو جبکہ سرحد اور بلوچستان سے ایک سیٹ جیتی۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 207 جنرل نشستوں میں سے 136 جیتیں، ایم کیو ایم نے 12 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے 9 نشستیں حاصل کیں۔
پنجاب ظاہر ہے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا تو وہاں لہٰذا 240 صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں سے 211 مسلم لیگ (ن) کو مل گئیں۔ سرحد میں مسلم لیگ (ن) نے 32 جبکہ اس کی اتحادی اے این پی نے 29 نشستیں جیتیں۔ صوبائی اسمبلی سندھ میں پیپلز پارٹی نے 34 جبکہ ایم کیو ایم نے 88 نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ (ن) وہ واحد جماعت تھی جس نے چاروں صوبوں میں نشستیں حاصل کیں۔ 21 آزاد امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی۔ مگر ووٹر ٹرن آؤٹ بھی تاریخی طور پر 36 فیصد رہا، اس سے پہلے کسی بھی الیکشن میں اتنا کم ٹرن آؤٹ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
حالانکہ 1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اتحادی وغیرہ ملا کر دوتہائی اکثریت مل گئی تھی۔ سب سے کم ٹرن آؤٹ کی آخر وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر باہر ہی نہیں نکلا، وہ شاید بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں اپنائی گئی پالیسیز سے اکتا گئے تھے اور ان سے انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ 17 فروری 1997ء کو نواز شریف نے دوسری بار وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور انہوں نے ایم کیو ایم، اے این پی، آزاد ارکان اور مخصوص نشستیں ملا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔
پنجاب کے علاوہ سرحد اور سندھ میں بھی مسلم لیگ (نواز) نے مخلوط حکومت بنائی۔ بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے جمہوری وطن پارٹی اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنائی۔ مگر اختر مینگل کی حکومت ڈیڑھ برس ہی برداشت ہوسکی اور اگست 1998ء میں جوڑ توڑ کے نتیجے میں بلوچستان میں بھی مسلم لیگ (نواز) کی حکومت بن گئی۔ یوں چاروں صوبوں اور مرکز میں نون ہی نون تھی، ’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی توہے‘ والا معاملہ تھا۔
مگر یہ نام نہاد ہیوی مینڈیٹ تھا بھی نواز شریف کی دوسری سویلین حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے کی حد پار نہیں کرواسکا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں نہ کہ پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت ہے وہ بہت ہی آئیڈیل ہے لیکن یہ نحوست ہے کہ حکومت چاہے دو تہائی اکثریت ملے، سادہ اکثریت ملے یا چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو 5 کا ہندسہ پار کرنا اس کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
موقع ملا تو اس 5 کے ہندسے پر بھی تھوڑی بات کریں گے۔ اب تک ہم نے 1997ء تک کا دور دیکھ لیا اور ہم جب آگے جائیں گے تو سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے گا کیونکہ ایک اور تبدیلی ہمارے راستے میں کھڑی ہوگی۔
وسعت اللہ خان سینیئر صحافی و کالم نگار، اور ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے شریک میزبان ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔