• KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm
  • KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:09pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:50pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 7:59pm

پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا

شائع August 2, 2012

آج عوام کے ذہنوں میں اس پاکستان کے دھندلے سے نقوش ہیں جو سن اسی کی دہائی میں کھبی ہوا کرتا تھا۔ آج کے مقابلے میں وہ پاکستان ہمارے لئے کسی اجنبی سیارے کے برابر ہے۔

میں یہاں ایک آپ کو چند تاریخی تصاویرمیں شریک کرنا چاہتا ہوں جسے جمع کرنے میں کئ برس لگ گئے اور یہ تصاویر اس اجنبی ملک کی ہے جو پاکستان کہلاتا تھا۔

انیس سو پچپن میں ہالی وڈ کے معروف اسٹارا سٹیورٹ گرینگر اور ایوا گارڈنر لاہور ائیرپورٹ آمد پر اپنے پرستاروں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ وہ فلم ’بھوانی جنکشن ‘کے بعض حصوں کی عکسبندی کے لیے لاہور پہنچے تھے۔

فلم ’بھوانی جنکشن ‘کا ایک منظر، جسے لاہور کے ایک تھانہ کے سامنے فلمایا گیا تھا۔

انیس سو ستاون میں کراچی کے میٹرو پول ہوٹل نائٹ کلب میں منعقدہ نیو ائیر پارٹی کی تقریب کے دوران رقص میں بے خود رقصاں جوڑا۔

انیس سو تریسٹھ کے روزنامہ مارننگ نیوز کی ایک خبر کا تراشا، جس میں بتایا گیا ہے کہ کراچی ائیرپورٹ پر بنے بار میں یورپ کے معروف پاپ موسیقی گروپ ’بیٹلز‘ کی آمد کی اطلاع پر پرستاروں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔

بیٹلز گروپ کو کراچی سے ہانگ کانگ کے لیے رابطہ پرواز پکڑنی تھی۔ اس دوران وہ ڈرنک کے لیے بار میں چلے آئے تھے۔ سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں کراچی کا ائیرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں سے ایک تھا۔ تصویر: بشکریہ سمیع شاہ

سن ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں غیر ملکی سیاح کراچی کے ساحل پر غسلِ آفتابی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

امریکی سیاحوں کا ایک گروپ، جو کراچی کے ساحل پر تفریحاً کیکڑے پکڑنے آیا تھا۔’ کیکڑا گیری‘کراچی کی سیاحتی سرگرمیوں میں اہمیت کی حامل تھی۔ سیاح کیماڑی کے ساحل سے کشتیا ں کرائے پر لے کر سمندر میں کیکڑا گیری پر نکل جاتے تھے۔

کشتیاں کرائے پر فراہم کرنے والے بالعموم کراچی کے افریقی نژاد پاکستانی تھے۔ بعض کشتیوں میں چھوٹا سا باورچی خانہ، بار اور باربی کیو کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ وہ کشتیاں اب بھی ساحل پر ہیں مگر سیاح کوئی نہیں۔

انیس سو اکسٹھ میں ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے کراچی کا دورہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران وہ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان سے مل رہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے پاکستان کے حکمران فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے ہمراہ بے چھت کی لیموزین گاڑی پر سوار ہو کر شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا تھا۔

انیس سو انہتر میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حکومت کے حامی طلبہ تنظیم کے ساتھ کراچی میں تصادم کا ایک منظر۔1967 اور1968 کے دوران طلبہ اور مزدور تنظیموں کے احتجاج نے ایوب آمریت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

انیس سو اڑسٹھ کے آخری ایّام کی تصویر، سادہ لباس پولیس اہلکارحریت پسند، پشتون قوم پرست طالب علم کو ایوب خان کی حمایت میں نکلنے والی ریلی پر گولی چلانے کے الزام میں دبوچ کر لے جارہے ہیں۔

ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستانی رسائل میں شائع شدہ ایک اشتہار، جس کے ذریعے پاکستان میں کنیڈین کلب وہسکی متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

یہ وہسکی شروع شروع میں صرف کراچی ہارس ریسنگ اینڈ پولو کلب المعروف ریس کورس میں دستیاب تھی۔ بعد ازاں اسے شہر کے دیگر بار میں بھی متعارف کرایا گیا

انیس سو ستر میں مغربی پاکستانی کا ایک فوجی مشرقی پاکستان کے ایک بنگالی کو دبوچ کر مارپیٹ اور ہراساں کرتے ہوئے۔

انیس سو اکہتر میں مغربی پاکستان کی فوج اور مشرقی پاکستان کے بنگالی قوم پرستوں (مکتی باہنی) کے درمیان خانہ جنگی کا ایک منظر۔

مشرقی پاکستان کے قوم پرستوں نے فوج کو بڑے پیمانے پر بنگالیوں کے قتلِ عام کا مرتکب قرار دیتے ہوئے، اُن کے خلاف ہتھیار اٹھالیے تھے۔ ہندوستان کی حمایت سے باغیوں نے مغربی پاکستان کی فوج کو شکست دی اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔

انیس سو اکہترمیں مشرقی پاکستان کی بندوق بردار خواتین کا دستہ ڈھاکا کی سڑکوں پر، مغربی پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور بنگالی قوم پرستوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مارچ کرتے ہوئے۔

پاکستتان کی قدیم ترین شراب ساز کمپنی مری بریوری کی جانب سے پہلی بار ملک میں ’ہلکی بئیر‘ متعارف کرانے کے موقع پر شائع کیا گیا اشتہاری پوسٹر۔

انیس سو بہتر کی ایک دلچسپ تصویر۔ پاکستانی مسافر افغان ٹیکسی پر لد کر طورخم پار افغانستان جارہے ہیں۔ ٹیکسیوں پر اس طرح لد کر،روزانہ ہزاروں باشندے سرحد پار کرکے تجارت کی غرض سے افغانستان جاتے تھے۔

بہت سے لوگ ان ٹیکسیوں کے ذریعے سنیماؤں میں لگی نئی ہندوستانی فلم دیکھنے کابل جاتے ۔ دن میں وہ فلم دیکھتے اوررات کو واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتے تھے۔

انیس سو بہتر میں برطانوی، فرنچ اور امریکی نوجوان لڑکے لڑکیو ں پر مشتمل ایک گروپ لاہور میں بس کی آمد کا منتظر۔ پاکستان ہِپیّوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا، جسے ’ہِپّی رہ گذر‘ کہا جاتا تھا۔

انیس سو ساٹھ  سے انیس سو اناسی  تک، ہزاروں کی تعداد میں یورپی اور امریکی نوجوان اس رہ گذر سے گزرا کرتے تھے۔ یہ ہِپیّوں کی وہ رہ گزر تھی جو ترکی سے شروع ہوتی، ایران سے گزرتی، خم کھا کر افغانستان میں داخل ہوتی، پاکستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچتی اور پھر اپنی آخری منزل نیپال پر پہنچ کردم لیتی تھی۔

انیس سو تہتر میں پاکستانی وزارتِ سیاحت کے شائع کردہ ایک بروشر کا عکس، جس میں ہوٹل، ریستوران، بارز اور ہِپّی رہ گزر پر واقع سیاحت کے لیے پُرکشش مقامات کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔

انیس سو چوہتر میں پاکستانی وزارتَِ سیاحت کی ایک بس مغربی سیاحوں کو کراچی کے قابلِ دید مقامات کی سیر پرلے جارہی ہے۔ اس طرح کی بسوں میں، ہِپیّوں کے ذوق کے مطابق ’سہولتوں‘ کا خیال رکھا جاتا تھا۔

انیس سو اڑسٹھ میں کراچی کے مشہور سنیما ’تاج محل‘ کا ایک بیرونی منظر۔ پاکستان کی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں، یہ شہر کے متعدد سنیما گھروں میں سے ایک تھا۔

 انیس سو پینسٹھ سے انیس سو ستترتک، پاکستانی فلمی صنعت ماہانہ درجنوں فلمیں بناتی تھی۔ فلم سازی کا یہ رجحان انیس سو پچھتر میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے، جب صرف ایک سال کے دوران ایک سو چودہ پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔

 انیس سو سترکی دہائی کے آخر میں اس وقت پاکستان فلموں پر زوال آنا شروع ہوا،جب ملک پر جنرل ضیا کی آمریت قائم ہوئی اور ملک میں وی سی آر متعارف ہوا۔

 سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں نہایت پُرکشش سمجھی جانے والی پاکستانی فلم انڈسٹری اس وقت تقریباًاپنی موت آپ مرچکی ہے۔

انیس سو ستر کی دہائی میں، مارشل آرٹس کے ماہر اور مشہور اداکار بروس لی کاہاتھ سے تیار کردہ شاندار کلاسیکی بِل بورڈ۔

نیس سو تہتر میں بروس لی کی ’کھڑکی توڑ‘ فلم ’اینٹر دی ڈریگون ‘ کی پاکستان میں نمائش کے موقع پر یہ بِل بورڈ لاہور میں تیار کیا گیا تھا۔ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی، بروس لی ایکشن فلموں کے شائقین میں بہت مشہور تھے۔

 ان کی فلمیں پاکستان میں باکس آفس پر شاندار بزنس کرتی تھیں۔ ان فلموں نے پاکستانیوں کو مارشل آرٹس سے بھی متعارف کرایا۔ انیس سو تہترمیں بروس لی کو اچانک موت نے آ گھیرا اور وہ دنیا سے چلے گئے۔

انیس سو اکہترمیں ہاکی ورلڈ کپ فائنل کی نایاب تصویر۔ اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان نے میزبان ٹیم کو شکست دے کر اعزاز اپنے نام کیا تھا۔

انیس سو تہترمیں کوئٹہ ائیرپورٹ پر ایرانی ملکہ فرح دیبا کی آمد کا منظر۔ دائیں بازو کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (نیپ) کی حکومت کے اُس وقت کے گورنر خیر بخش بزنجو ان کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ انیس سو سترکے انتخابات کے بعد نیپ نے بلوچستان میں حکومت بنائی تھی۔

بدقسمتی سے وزیرِ اعظم بھٹو نے شاہ ایران کی ایک شکایت پربلوچستان میں جناب بزنجو اور نیپ حکومت کو برطرف کردیا تھا۔

 کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایران نے جناب بھٹو کو خبردار کیا تھا کہ صوبائی حکومت ایرانی بلوچستان میں بلوچ قوم پرست باغیوں کو شاہ کے خلاف بغاوت پر اُکسارہی ہے۔

انیس سو چوہتر میں اکیس سالہ بینظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی کراچی میں واقع رہائش گاہ کے پورچ میں بیٹھی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب اپریل ۱۹۷۹ میں جناب بھٹو کو پھانسی دی تو بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔

دسمبردو ہزار سات میں اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں دہشت گرد حملے میں جان گنوانے سے پہلے وہ سن نوّے کی دہائی میں دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔

مئی انیس سو بہترکے ماہنامہ ہیرالڈ کے سرورق کا عکس۔ ڈان گروپ کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا ماہنامہ ہیرالڈ ابتدا میں بدلتے فیشن اور شہری نوجوانوں کے سیاسی و سماجی رجحانات پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔

بعد ازاں، انیس سو اسی کے بعد سے لے کر اب تک، ماہنامہ کا متن زیادہ تر سیاسی نوعیت کے امور کا احاطہ کرتا ہے۔

انیس سو تہترکے ماہنامہ ہیرالڈ کے ایک شمارے کے سرورق کا عکس، یہ منظر کراچی کی پُرجوش اور بھڑکیلی زندگی کا عکاس بن تھا۔

انیس سو بہترمیں پاکستان کی معروف فیشن ماڈل رخشندہ خٹک کی، فیشن شو میں لی گئی یادگار تصویر۔ سن ستّر کی دہائی میں رخشندہ ملک کی صفِ اول کی فیشن ماڈل تھیں۔

 انیس سو اناسی میں انہوں نے ماڈلنگ اور مُلک، دونوں کو خیرباد کہا۔ رخشندہ خٹک ۲۰۱۱ میں امریکا میں انتقال کر گئیں۔ تصویر بشکریہ ایکسپریس ٹریبون

انیس سو تہتر میں پاکستانی فلموں کی معروف گلوکارہ اور پاپ موسیقی کی علامت سمجھی جانے والی رونا لیلیٰ کے موسیقی البم کا سرِ ورق۔ بعد میں یہ سرورق پوسٹر کی شکل میں ہاسٹلوں میں مقیم طلبا کے کمروں کی دیواروں پر چی گویرا اور ماؤزے تنگ جیسے انقلابی رہنماؤں کی تصاویر کے ساتھ چسپاں نظر آتا تھا۔

لیلیٰ مشرقی پاکستان سے تعلقرکھتی تھیں مگر بنگلا دیش کے قیام باوجود وہ اگلے کئی سال پاکستان میں رہیں۔انیس سو چوہترمیں انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بنگلا دیش کی شہریت حاصل کرکے وہیں سکونت اختیار کرلی۔

http://www.youtube.com/watch?v=lJq1K-N5AEw

انیس سو بہتر میں پاکستانی ٹیلی وژن پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ایک گیت کی جھلک، جس سے وہ پاکستان کی جدید موسیقی کی ایک علامت بن کر سامنے آئیں۔

انیس سو پچہترمیں ریلیز ہونے والی فلم شبانہ کے گیتوں پر مشتمل ریکارڈ کے سرورق کا عکس۔ اس فلم میں پاکستانی اداکارہ بابرہ شریف نے کام کیا تھاجو بعد صفِ اول کی ہیروئن اور ستّر کی دہائی کی فلموں میں سیکس سمبل کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔

انیس سو پچہترمیں شائع ہونے والا ایک پوسٹر، جس میں سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی لوک پرفامرز کو دکھایا گیا ہے۔ یہ پوسٹر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ ’امریکن فوک لائف کنسرٹ ‘ کے موقع پروہیں طبع اور شائع ہوا تھا۔ اس کنسرٹ میں پاکستانی لوک فنکار فن کا جوہر دکھانے کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول ترین حکومت میں پاکستانی لوک ثقافت اور موسیقی کو بھرپور سرکاری سرپرستی حاصل رہی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس حکومتی حکمتِ عملی کا کم از کم ایک حصہ تھا جس کے ذریعے وہ سندھی، بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو مفاہمت کے ذریعے قومی دھارے میں لانا چاہتے تھے۔

انیس سو پچہترمیں پشاور کے ایک کم درجے کے ہوٹل کے برآمدے میں موجود غیر ملکی جوڑا۔ ساٹھ کی دہائی سے پیٹھ پر تھیلے لاد کر، پاکستان کارخ کرنے والے مغربی سیاحوں کے ریلے کی وجہ سے  لاہور، کراچی اور پشاور میں اس طرح کے ہوٹلو ں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔

اس بات کی وضاحت کرنا ممکن نہیں کہ مرد نے گلے میں ہولسٹر کیوں لٹکایا ہوا ہے۔ البتہ اکثر اوقات یہ خالی ہوتے تھے، صرف پشاوری فیشن کا دکھاوا۔

ستّر کے عشرے کی معروف ایرانی گلوکارہ اور پاپ میوزک کی شناخت میڈم گوگوش فارسی رسالے’ بی تا‘ کے سرورق پر۔ گوگوش نے انیس سو پچہترمیں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے متعدد بڑے کنسرٹ کیے۔ کئی پی ٹی وی پر نشر ہوئے۔ جن سے انہیں یہاں بہت پذیرائی ملی۔

میڈم گوگوش ایک بار پھر پاکستان آکر کنسرٹ سیریز کرنا چاہتی تھیں مگر انیس سو اناسی میں ، ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد حکومت نے ان پر پابندی عائد کردی اور گوگوش کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔

انیس سو چہتر میں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے بعض کھلاڑی نائٹ کلب میں خوش گوار وقت گزارتے ہوئے۔ تصویر میں دائیں سے وسیم راجا، اوپنر مدثر نذر، فاسٹ بولر سکندر بخت اور بیٹسمین جاوید میاں داد۔

پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والی اس تصویر کے کیپشن کے انداز اور الفاظ پہ غور کیجیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسی کی دہائی کے اوائل میں یہ لب و لہجہ بدل گیا تھا۔ اس طرح پارٹی کرنے والے کرکٹرز کے لیے (زیادہ تر اردو اخبارات میں) مذمتی انداز اور الفاظ استعمال ہونے لگے تھے۔

سندھی قوم پرستوں کے شائع کردہ ایک پوسٹر کا عکس۔ یہ پوسٹر سب سے پہلے انیس سو تہتر میں سندھی قوم پرست جماعت ’جئے سندھ‘ کے قیام کے فوراً بعد شائع کیا گیا تھا۔

اس پوسٹر کے ذریعے سندھی قوم کے سیکولر رویے، حقیقت پسندی، رواداری اور صوفی اسلام سے ان کے رشتےکو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

انیس سو پچہتر میں، پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کی اہلیہ اور ملک کی خاتونِ اوّل بیگم نصرت بھٹو میکسیکو میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شریک ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اپنے ’سوشلسٹ ‘شوہر ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ ترقی پسند تھیں۔

انیس سو چوہترمیں مشہور پاکستانی کرکٹر عمران خان، جو سن ستّر کی دہائی کے نوجوانوں کے پسندیدہ ’فیشنی ‘کپڑوں میں ملبوس ہیں۔

کبھی ’پلے بوائے‘ کے لقب سے معروف خان نے نوّے کی دہائی میں کرکٹ سے علیحدگی کے بعد’تجدیدِ ایمان‘ کی اور دوبارہ بطور مسلم  دنیا میں آئے۔اس کے بعد انیس سو نوے میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی۔

 ۱۹۸۷ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رجعت پسند فوجی آمر ضیاء الحق کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔ عمران خان نے ۱۹۸۷ میں ہی پاکستانی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا مگر جنرل ضیا بدستور انہیں ٹیم میں واپس لانے کے لیے بہلاتے پھسلاتے رہے۔

ستّر اور اسّی کی دہائی میں پاکستان کے اکثر بڑے بڑے کرکٹ اسٹار کی سیاسی وابستگی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کسی سیاسی جماعت سے براہ راست وابستگی اختیار نہیں کی تھی۔ مثال کے طور پر فاسٹ بولر سرفراز نواز، سابق کپتان مشتاق محمد اور جاوید میاں داد بھٹو کے پرستار تھے۔

اگرچہ عمران خان کا جنرل ضیا کی رجعت پسند پالیسیوں کی طرف جھکاؤ نہیں تھا مگر اس کے باوجود ان کے فوجی آمر سے قریبی مراسم تھے۔

انیس سو چہتر کا ایک منظر، پاکستانی پاپ اسٹار عالمگیر مشہور ٹی وی اداکار اور کامیڈین مرحوم معین اختر کو لطیفہ سنارہے ہیں۔ یہ تصویر کراچی میں عالمگیر کے اُس کنسرٹ سے ذراپہلے لی گئی، جس کی میزبانی معین اختر نے کی تھی۔

http://www.youtube.com/watch?v=tfg04aAlQdA

انیس سو پچہتر- چہترکی ایک کی نایاب وڈیو سے جھلک، جس میں عالمگیر، تُرک پاپ سنگر کے ساتھ پی ٹی وی پر پرفارم کررہے ہیں۔ انیس سو اٹھترمیں ضیا آمریت کے دور میں اس گانے پر پابندی لگادی گئی تھی۔

انیس سو پچھتر میں پاکستانی ٹیلی وژن اداکار سبحانی بایونس، شکیل احمد اور آر جے ایک ٹی وی ڈرامے کے سیٹ پر۔ سبحانی اسٹیج کے منجھے اداکار تھے مگر شکیل اُن دنوں ابھرتے ٹی وی اداکار تھے۔

انیس سو چہتر میں کراچی انٹرکونٹیننٹل ہوٹل کے سوئمنگ پول کنارے مغربی سیاح بیئر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔  تصویر بشکریہ رورے مکلین

انیس سو چہتر میں مغربی سیاحوں کا ایک گروپ ریل گاڑی سے کراچی تا لاہور سفر کے دوران۔ تصویر بشکریہ مراد حسین اور بینا احمد۔

انیس سو چہتر میں کالج کے باہر بنچ پر بیٹھی چند طالبات موج مستی کرتے ہوئے۔

http://www.youtube.com/watch?v=M-l8uBBbyx8

انیس سو اٹھتر میں کراچی میں کھیلے گئے پاکستان بمقابلہ ہندوستان کرکٹ ٹیسٹ میچ کی نایاب فوٹیج۔ یقینی طور پر ڈرا کی جانب گامزن اس میچ میں سنسنی اس وقت بیدار ہو گئی جب پاکستان کے کپتان مشتاق احمد نے آخری سیشن میں پچیس اوورز میں 160 رنز سے زائد کا ناممکن سمجھا جانے والے ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔

یس سالہ جاوید میانداد اور نائب کپتان آصف اقبال کو بطور اوپنر بھیجا گیا۔ وکٹ کے درمیان رنز لینے کے حیرت انگیز مظاہرے کے باوجود،  پاکستان کو فی اووَر آٹھ رنز سے زائد اوسط درکار تھی کہ اس وقت اقبال آؤٹ ہوگئے۔

 تب مشتاق نے رن ریٹ آگے بڑھانے کے لیے چھبیس سالہ عمران خان کو بھیجا۔ ابتدا ہی میں رن آؤٹ سے بچنے والے خان نے ہندوستانی باؤلنگ کو آڑھے ہاتھوں لیا اور دو چھکوں اور چار چوکے لگا کا پاکستان کو فتحیاب کر دیا۔

انیس سو ستتر میں مارشل لا کے نفاذ پر روزنامہ ڈان کی خبر اور سرخی کا عکس۔ ’اگلے اکتوبر‘ تک انتخابات نہیں ہوسکتے، یہ کہہ کر جنرل ضیا ء الحق نے تقریباً گیارہ برس ملک پر حکمرانی کی لیکن اُس کے بعد پاکستان پھر کبھی ایسا نہ بن سکا۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (40) بند ہیں

سلطان ولئ شاھ Aug 03, 2012 11:19am
ماشاءاللہ ڈان نیوز ایک معلوماتی ادارہ ہے۔ اللہ تعالی اس کو اور ترقی دے۔ آمین
سالععم Aug 03, 2012 01:18pm
ذبر دست
ابراھیم Aug 03, 2012 04:04pm
سر سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن کیا یہ شراب اور نائٹ کلب معاشرے کا حصہ ہونا لازمی ہیں.
لاریب Aug 05, 2012 11:25am
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اتنی محنت سے جو کچھ ظاہر کرنا چاہا ہے پاکستان ویسا بالکل نہیں تھا ۔آپ کی کوشش یہ ہے کہ آپ نے منفی تصاویر جمع کیں لیکن پاکستان ایک فلاحی اسلامی ریاست ہے جو صحیح طرح سے بن تو نہیں پایا لیکن انشااللہ ضرور بنے گا۔
یمین الاسلام زبیری Aug 06, 2012 12:58am
میں نہ تو شراب کا حمایتی ہوں نہ نائٹ کلب کا حامی لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ شراب و کباب آزاد تھے تو ڈالر دو سے چار روپے ہوتا تھا. اب جب ان چیزوں پر پابندی ہے تو ڈالر سو کے قریب پہنچا ہوا ہے، یعنی قوم سفر پر آچکی ہے
badsha Aug 06, 2012 08:21am
بہت ہی زبردست !
Soomro Aug 06, 2012 04:46pm
بہت اعلی کاوش ھے، ادارہ ڈان اس حوالے سے قابلِ ستائش ھے.
Soomro Aug 06, 2012 04:48pm
جو حقیقت ہے، وہی کچھ لکھا ہے، حقائق یہی ہیں
ندیم صدیقی Aug 07, 2012 11:14pm
آپ نے تو کمال کر دیا. یہ وہی پاکستان ہے جو میں نے بچپن میں کچھ کچھ دیکھا اور سنا. اس زمانے میں ریاکاری کم تھی. دوسروں کی برائی کو اس کا ذاتی مسئلہ سمجھا جاتا تھا. روزہ نہ رکھنے والے کے بارے میں یہ تصور کر لیا جاتا تھا کہ اسے کوئی مجبوری ہوگی. اسلام نافذ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ہمارے گھروں میں‌موجود تھا. آنکھوں میں حیا اور شرم تھی. وہ پاکستان جنت نہیں تھا لکین آج جیسا جہنم بھی نہیں تھا.
بلیک شیپ Aug 08, 2012 06:20am
کراچی کے ساحل والی جو تصویر ہے اسے دیکھ کر میں اس سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اس وقت مُلا نامی مخلوق کہاں غائب تھی۔۔۔۔۔۔ کیا اس وقت جماعتِ اسلامی کے پاس ڈنڈا بردار فورس نہیں تھی جو ان ننگی ننگی عورتوں کی ہڈی پسلی ایک کردیتی۔۔۔۔۔۔ ;-) :-) ;-)
eazygo Aug 08, 2012 10:45am
واقعی داستان ہوش ربا ہی لگتی ہے، پر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ضیاء سے پہلے اگر عمومی ماحول ایسا تھا تو پھر ضیاء نے جو کچھ کیا وہ قوم نے کیسے مان لیا، اور اگر قوم کو اسی طرح کوئی بھی آکر کسی بھی طرف لگا سکتا ہے تو پھر قوم کو کیا الزام اور سدھرنے کی امید کیسی
ندیم صدیقی Aug 08, 2012 03:52pm
یہی نقطہ ہے کہ قوم نے تو نہیں مانا، اور نہ قوم کسی طرف لگی. جو کچھ ہوا وہ صرف بناوٹی یا جبر کے تحت تھا. شاید یہیں سے تو ہمارے اندر دہرے رویے پیدا ہونے شروع ہوئے. ایک وہ چہرہ تھا جو ہمارے معاشرے پر ریاستی مشینری کے تحت تھوپا گیا اور ایک وہ ماحول تھا جو ہمارے گھروں کے اندر پہلے سے موجود تھا. بات یہ نہیں ہے کہ ضیا سے پہلے سب لوگ ساحل پر جا کر کپڑے اتار کر لیٹ جاتے تھے یا سب لوگ ضرور نائٹ کلب ضرور ہی جایا کرتے تھے. اصل بات یہ ہے کو ان باتوں کو لوگ ایشو نہیں بناتے تھے اور اسے کسی فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتے تھے. اس بات کو آج کے دور میں بیرون ملک رہنے والے لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جہاں سکرٹ اور سکارف ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں، کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا اور منزل آنے پر اپنے اپنے راستے پر چلے جاتے ہیں.
nasira mansoor ali Aug 09, 2012 05:29am
i am a bit confused here,what were you trying to prove? that era was very westernised? well it was better than what pakistan looks like today,but there was no need to show the drinks or white skin.should we all feel proud that the life style in that era was better than today?i think both extremes are wrong,a molvi state or very westerised state.
سعید اختر Aug 09, 2012 06:09am
آج کا بچا کھچا پاکستان یہاں کی عوام کا پاکستان نہیں ہے. یہ صرف سیکرڈ کاؤ کا پاکستان ہے. سیکرڈ کاؤ جو چاہے پاکستان کی تقدیر کے ساتھ کر لے. موجودہ پاکستان مذہبی منافقت کا پاکستان ہے. اگر کسی کے ذہن میں یہ ہو کہ یہاں انقلاب آئے گا تو یاد رکھئے گا منافق معاشرے میں انقلاب کبھی نہیں آتا۔ منافق معاشرہ کسی دوسری قوم یا معاشرے کے ہاتھوں مغلوب ہوتا ہے، یعنی ایسا معاشرہ سو جوتے بھی کھاتا ہے اور سو پیاز بھی۔ ڈان کی یہ کلیکشن بتاتی ہے کہ ضیا آمریت (سیکرڈ کاؤ) نے آج کے پاکستان کا حلیہ بگاڑنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ اس فوٹو ، وڈیو کلیکشن کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو یورپ ہونا چاہئے۔
ندیم صدیقی Aug 09, 2012 09:32am
یہی بات ہے کہ ہم لوگ مغربی اور مشرقی کلچر میں پھنسے ہوئے ہیں. ذائی طور پر مجھے بھی شراب وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں، لیکن اصل پوائنٹ ہی یہی ہے کہ معاشرے میں یہ سب کچھ موجود ہوتا ہے. بالکل جیسے آج بھی پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک میں موجود ہے. ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، دبئی، مصر اور کئی اور. نہ جانے ہمارے اندر یہ خناس کہاں سے آ گیا ہے کہ سب سے اچھے مسلمان ہم ہی ہیں. ان ملکوں میں بھی مسلمان بستے ہیں اور ہم سے زیادہ بستے ہیں، لیکن سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں. کیا آج ہم دہرے معیار نہیں رکھتے، کس گھر میں ہندی یا انگریزی موسیقی نہیں سنی جاتی. ہماری کس شادی میں لڑکیاں ڈانس نہیں کرتیں، ہندی فلم کس گھر میں نہیں دیکھی جاتی، لیکن تقریوں میں ہم اس سب سے انکاری ہو جاتے ہیں. ہم میں سے جو لوگ ان کے خلاف زیادہ آواز اٹھاتے ہیں ان کے بچے بھی بیرون ملک ہی پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ آزاد ماحول میں آرام سے رہتے ہیں جس کی ایک جھلک ان تصویروں میں دکھائی گئی ہے.
Noor Aug 09, 2012 10:54am
We can refer to just one reference book for our guidance and that is Quran. It has been repeatedly given in Quran that the nations are not spoiled because of bad deeds, but because good people don't stop them. So no concept of minding just own business in Islam. Moreover, if few other Islamic countries allow liquor, it does not justify for Pakistan as well.
نادیہ خان Aug 09, 2012 11:40am
یہ تو سچ فرمایا کہ پاکستان ابھی تک فلاحی اسلامی ریاست بن نہیں پایا لیکن ےہ نہیں کہا کہ باوجود ان کوششوں کی جو اس کے بننے سے اب تک ہو رہی ہیں. ہوتی کیا ہے اسلامی فلاحی ریاست؟ یہ بھی تو بیان فرماییے. مولانا مودودی سے ضیاِ الحقی بدنییتیوں، شریف برادران کی امت مسلمہ کے کڑوے گھونٹوں سے عمرانی بال ٹیمپرنگ کے خوابوں تک، ابھی تک اس فلسفے کو جب بھی پاکستانی یا کسی بھی لیبارٹری میں آزمایا گیا تو نتیجہ صفر دیکھ کر قوت ایمانی نے ہمیشہ جوش میں آکر یہی فیصلہ صادر کیا کہ اس میں لیبارٹری کی تعمیر میں خرابی یا اس کے کیمیایی مادوں میں ملاوٹ یا تجربہ کرنے والے سایینسدانوں میں خلوص کی کمی اور اگر کچھ اور نہیں تو یہودو نصاری کی سازش تو ہوسکتی ہے مگر اس فلسفے میں ہرگز کویی غلطی نہیں. جناب اعلی چودہ سو سال تو ہو چکے اور کتنا لییجیے گا؟
ندیم صدیقی Aug 09, 2012 12:49pm
ایک گزارش، اگر سب لوگ اردو میں رائے دیں تو زیادہ لوگ اس بحث میں شامل ہو سکیں گے. سوال یہ نہیں کہ شراب بیچنا جائز ہے یا نہیں، یا بکنی پہننا اچھا ہے. بات اس عدم برداشت کی ہے جو بتدریج ہمارے اندر پیدا ہو گئی ہے. بلاشبہ ہر معاشرے میں اچھے شعار کی تلقین کرنی چاہیے اور برے کاموں پر تنقید بھی کرنی چاہیے لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کو ریاستی یس سیاسی طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. یہ کام ماں باپ، گھر کے بزرگوں اور اساتذہ کا ہے، اور معذرت کے ساتھ اصل کوتاہی یہیں ہوئی ہے. ہمارے گھروں میں بزرگ ہوا کرتے تھے، ہماری بڑے، اور ہمارے استاد اس بات پر نظر رکھا کرتے تھے کہ ان کے بچے کس رخ پر جا رہے ہیں. ہم صرف برائی کی علامتوں کے مقابلے میں مذہبی علامتیں لے آئے ہیں. آج شراب سرعام فروخت نہیں‌ہوتی لیکن بدمستی اور بے ہودگی سرعام ہے. برقع پہلے سے زیادہ لیکن بے حیائی اس سے زیادہ، کیا گائوں اور کیا شہر. کس کس معاملے میں تضاد نہیں ہے. امریکہ مردہ باد لیکن وہاں شفٹ ہونے کی آرزو بھی. انڈیا ٹھاہ مگر اس کی فلمیں واہ.
owaisjal Aug 09, 2012 01:15pm
ہم سمجھ سکتے ہے کہ ندیم کو یہ سب بتانے کہ لیے کتنی تگ و دو کرنی پڑی، وجہ، پاکستان عمومی ایسا نہیں جیسا دکھانے کی کوشش کی گٔی ہے. This article is a bit fail.
owaisjal Aug 09, 2012 01:25pm
kia pakistan pehle k muqablay main ab ziada roshan khayal nahe? kia ab sharab nahe bikti? kia ab hawwa ki beti nahe bikti? kia ab qaumi ghairat nahe bikti ? aj sahil e samandar per ye kaam khullay aam nahe hota to kia hua, private dreamworlds main to ab bhe hotta he, kia pakistan main larkiya college k baher ab us trah nahe khari hoti? is article main jo dikhana chah rhe hen ap wo ghalat hai, Q? Qk apko is k liye jitni research krni pari wo wazeh kerta he k "such dhoonda nahe jata" such sub k samnay ayyan hotahe.
اقبال افغانی Aug 09, 2012 03:47pm
بھائی قرآن کی رٹا بھی عموما وہی لوگ لگاتے ہیں جنہوں نے بدقسمتی سے اسے ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا اور نہ ہی ان واقعات کی تاریخ جن کے موقع پر یہ اترا۔ اس لیے ہر مسلمان نے یہ گنجائش پیدا کرلی ہے کہ جو اس کی سمجھ میں آگیا یا جس پر اسے اور اس کے دل کو جواب دہ نہ ہونا پڑے وہی قرآن کا مطلب ہے۔ اپنے غلط عمل پر شرمندگی نہ ہونا اور اپنی پارسائی پر غرور، خدا کی برابری ہے اور آج کل امت مسلمہ اسی غرور میں مبتلا ہے۔ اس کی لیے اس نے قرآن کی آیات کے غلط استعمال کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔ شراب پینا یا لڑکیوں کا جینز پہننا مذہب کا ظاہری پہلو ہیں، سو یہ اللہ اور بندے کا آپس کا معاملہ ہے لیکن دوسروں پر مذہب کی ذاتی تشریح ٹھونسنا خدا کی برابری ہے۔ مذہب کا بڑا حصہ باطنی اوصاف اور باطنی برائیوں کا مقابلہ ہے. اسی لیے تو ہم نے مذہب کو بھی شیخی بگھارنے کا ذریعہ بنا لیا ہے.۔گلی گلی مسجدیں ہیں اور بھری ہیں لیکن رمضان کے دوران ان ہی لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ دیکھ لیجیے۔ آپ نے سنا تو ضرور ہوگا مگر شراب پی کر کتنے لوگوں کو خود اپنی آنکھوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے دیکھا ہے بہ نسبت روزہ رکھ کر لڑنے کے؟
سلیم Aug 09, 2012 08:29pm
ڈیر .. میں نے یہ مضمون کئی مرتبہ پڑھا . اپنی ابتدائی عمر کا زمانہ نگاہوں میں پھر گیا . آپ نے نہایت اختصار اور نہایت کام یابی سے کچھ واضح اشارے دییے ہیں‌اور اتنا ہی کافی ہے. اس سے زیادہ کی ضرورت بھی نہیں. کیوں کہ جو نسل بھٹو دور کے بعد پیدا ہو ئی ہے اس میں نہ رواداری ہے اور نہ قوت برداشت یہ برین واشنگ سے عمل سے گزرے ہوئے لوگ ہیں . ان سے کوئی امید رکھنا بے کار ہے . آپ نے اپنا کام نہایت محنت اور ایمان داری سے کیا ہے . مبارک باد قبول کیجیے .
eazygo Aug 09, 2012 09:16pm
"یہی نقطہ ہے کہ قوم نے تو نہیں مانا، اور نہ قوم کسی طرف لگی" ======= آپکے اس نقطے کو دیکھیں تو پھر ایک مخصوص طبقہ فکر جو ہر وقت ساری پاکستانی عوام کو کوستا رہتا ہے، وہ بھی پھر اتنا ٹھیک محسوس نہیں ہوتا
ندیم صدیقی Aug 10, 2012 09:02am
اس بات پر دل تو نہیں مانتا کہ پوری کی پوری قوم کی برین واشنگ ہو گئی ہے مگر حالات کچھ ایسے ہی ہیں. آج پاکستان میں کسی مذہبی یا سماجی ایشو پر روایتی موقف سے ہٹ کر بات کرنا ناممکن ہے.
بختیار احمد Aug 10, 2012 01:16pm
وہ تصویر جس میں آپ نے سٹیوارٹ گرینجر اور ایوا گارڈنر کی آمد کا کہا ہے، وہ ان دو اداکاروں کی نہیں لگتی۔ ایک اور تصویر میں اداکار شکیل کے ساتھ جو سبحانی ہیں وہ با یونس نہیں ہیں بلکہ دوسرے سبحانی ہیں۔ ساتھ میں راجو جمیل ہیں۔ تحقیق کا کام تو ماشاء اللہ آپ کا خاصہ ہے۔ بہت خوب۔ رہا پاکستان تو جیسے حاکم ملے ویسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں بُروں سے نجات دلائے۔ آمین
وزیر علی شگری سکردو Aug 27, 2012 03:37am
جناب آپ نے بہت زبردست محنت کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔ بہر حال اس تصاویری مجموعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے لوگ کتنے خوش حال تھے اور پاکستان کتنا پر امن ملک تھا۔
ظفر لطیف Aug 28, 2012 04:21pm
یہ شراب اور ڈالر کا آپس میں کیا رشتہ ہوا؟ آپ ہمارے سیاستدانوں کی نالایکیوں کو ڈالر ور شراب سے تو نہ جوڑیں۔
ظفر لطیف Aug 28, 2012 04:23pm
آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں ک بینظر کا قتل اسلامی شدت پسندوں نے کیا تھا. دوسرا آپ نے سندھی قوم پرستوں کا پوسٹر کو سیکولر کہا ہے حالاںکہ سیکولر سے زیادہ وہ ہندو پوسٹر نظر آ رہا ہے.
شمس Aug 30, 2012 05:01am
مجھے لگتا ھے کے شاید پاکستان کا قیام ھی 'عدم برداشت'کا نتیجا ھے. اور ویسے بھی جس ملک میں %97 لوگ 'ایک طرح' کے ھوں تو 'دوسری طرح' کے لوگوں کا کیا حال ھو سکتا ھے.
اظہر الحق Oct 07, 2013 08:34am
بہت اچھی کلیکشن ہے ، مگر جو بات کہی جا رہی ہے ، وہ شاید ٹھیک نہیں ، پاکستان آج شاید پہلے سے بہت زیادہ لبرل ہے ، ہمارے ٹی وی ڈرامے اور فیشن شو اس بات کے غماز ہیں فرق صرف ایک آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے یہ سب کچھ عوام کے لیے تھا ، یعنی جس کا جو دل چاہتا وہ وہ کر لیتا ، اگر وہ مذہبی بنتا تو بن جاتا ، لبرل ہوتا تو وہ بن جاتا ۔ ۔ ۔ اور دونوں خوشی خوشی رہتے ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتے مگر ایسے ہی جیسے دو دوست ایک دوسرے سے متفق نہیں ہوتے ، یہ نارمل سماجی رویے ہوتے ہیں ، اب، یہ سب نہں ہے ، اب اختلاف میں شد ت ہے ، جو لبرل ہے وہ حد سے زیادہ لبرل ہے ، جو مذہبی ہے وہ بس خود کو ہی حرف آخر سمجھ رہا ہے ۔۔ ۔ ۔ تصویریں بدلی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں لوگ ضرور بدل گئے ہیں ۔ ۔۔
sajid Khan Oct 07, 2013 10:46am
Kash aaj Hamara payara pakistan aysa ban jai jahan hr traf aman aur khushi ho, pakistan ka culture aur civilization dakhnay ky ly pori dunya sy log baghir kisi khof ky aayin. jin logo nay pakistan ka khosorat image baggar dia hy tarekh un ko aur un ky farsoda nazrayat ko koraydan mn phankh dy gi. Zia period sy pakistan mn andhairo ka safar shroo how jis ka result aaj dehshat gardi ke shakal mn hum bardasht kar rahain hain. Sharab aur night clubs ka culture dobara zinda ho jai tu mulk sy jannoiat khatm ho sakti hy aaj hum sab jis samaj mn zinda hain wo kisi pagal khany sy kam ni.
S Minhaj Zafer Oct 07, 2013 02:03pm
TV old picture is of Raju Jameel,Shakeel & Akbar Subhani and not of Subhani .BaYounus
اصباح ممتاز انصاری Oct 07, 2013 02:52pm
واقعی پاکستانی کی تاریخ کی یہ وہ جلکیاں ہیں جو اب تک نگاہوں سے اوجھل تھیں.....
shoaib Oct 07, 2013 10:02pm
amazing document
Shirin Qadir Oct 09, 2013 07:48am
پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا Great collection!
Ahmed Oct 09, 2013 09:42am
جناب مجھے یہاں کہی نام نہاد لبرلز کی سوچ پہ افسوس ہوتا ہے لیکن آپ نے جو تجزیہ کیا ہے وہ 100فیصد درست ہے۔ لبرلز کو میں نے ان نام نہاد "پاکستانی" لبرلز کو کبھی بھی کسی بات پہ خوشی کر اظہار کرتے نہیں دیکھا ہر وقت جلے کٹے طنز کے علاوہ ان کا کوئی کام ہے ہی نہیں سرے سے۔ اگر کچھ لوگوں نے ماضی میں مزہب کے نام پر غلط کام کیے ہیں تو یہ منافق طبقہ ان سے بہت زیادہ غلطیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور یہ سب یہ لوگ صرف جھوٹی شہرت اور پیسہ کے لیے کر رہے ہیں۔ حقیقی لبرل ثبوتوں کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا کوئی ثبوت پیش کرے تہ جلے کٹے طنز کرنے کی بجائے اس کا جائزہ لے کر قبول یا رد کرتے ہیں۔
Dr. Tariq Abbasi Oct 09, 2013 02:57pm
is sa ziada ganday ishtihar to geo per aatay hain. Sharab us dor ki nisbat aaj ziada hay. Karachi main aik hospital hay jahan wine sa honay wali liver diseases ka ilaj hota hay. Mareez buhat ziada hain. Islam or Pakistan ko sirf dehshat gardu na kharab kia hay. Aaj Saudi-Yahadoo company ko ARABIAN SAE main dalain Pakistan set ho jaey ga
ڈانیال Oct 11, 2013 05:22am
رلا دیا آپ نے قسم سے، کاش ہم نھی تو کم از کم آیئندہ آنے والی نسلیں ہی ایساپر امن پاکستان دیکھ سکیں. لعنت ہو ضیا اور طالبان پر
Aftab Oct 11, 2013 11:24am
I am really moved to hear and look at your hardwork and toil for collecting such a magnificent data... but as the Quran says... "Hal yasthawel aama wal Baseer? kya andhy awr dekhney waly barabar hai? mera matlab ye hai ke jo loog Zia awr jamati islami awr taliban ke children hai wo administrator ke baath kese smjhengey...
Dr. Haseeb Oct 11, 2013 08:58pm
Poster of Sindhi nationalist impressed me, but nowadays situation in sindh is going to be bed (not worst , if state sponsored version of islam will be controlled). pakistan state machinery invest on religious extremism, and sponsor hafiz saeed laike persons in Sindh. Tableegee Jamaits are main cause of increasing intolerance.

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025