الجرارہ موسٹ وانٹڈ
اسلام آباد: ایک بہادرانہ مقابلے میں سعودی اسپیشل فورسز نے دنیا کے بدنام ترین انتہاپسند لیڈر، ابو جرارہ الیمنی، کو مری، پاکستان کے معروف ویکیشن سپاٹ میں واقع ایک ہوٹل سے گرفتار کر لیا-
خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور لوگ پاکستانی گورنمنٹ کو کوسنے لگے کہ اس نے ایک بار پھر امریکیوں کو پاکستانی خودمختاری کو نقصان پنہچانے کی اجازت دی-
بہرحال جب یہ واضح ہوا کہ چھاپہ امریکیوں نے نہیں سعودیوں نے مارا تھا تو ماتھے کے بل، مسکراہٹوں میں بدل گۓ، اور کئی لوگوں کو 'جزاک الله!' کہتے سنا گیا-
اس چھاپے کے چند منٹوں بعد وزیراعظم ریاستی ٹیلی ویژن پر ظہور پذیر ہوۓ اور قوم کو مبارک بعد دیتے ہوۓ سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کی-
دلچسپ بات یہ کہ، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام اور کچھ کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں جنہوں نے اس چھاپے کی مذمت میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس بلائی تھی، یہ سنتے ہی کہ یہ حملہ امریکیوں نے نہیں سعودی فورسز نے کیا تھا، کانفرنس کے بیچ میں اپنا موقف تبدیل کرلیا-
جماعت اسلامی کے سربراہ پہلے تو امریکیوں کو ملک کی خودمختاری پامال کرنے کی اجازت دینے پر پاکستانی سویلین گورنمنٹ کو لعنت ملامت کرتے سنے گۓ، لیکن جب ایک رپورٹر نے یہ تصدیق کی کہ چھاپہ سعودی فورسز کی کارگزاری ہے جماعت اسلامی کے سربراہ، جمیعت علماء اسلام کی طرف مڑے اور انہیں گلے لگا کر بولے؛
"ماشاء الله!! آج کا دن ہماری اسلامی جمہوریہ کے لئے ایک شاندار دن ہے"-
آغاز میں جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام کے سربراہوں نے ہوٹل سے گرفتار ہونے والے شخص کی اصل شناخت دریافت کی تھی، ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر یہ شخص جرارہ ہے تو ہمیں شرم آنی چاہیے کیوں کہ وہ امریکا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا ایک حریت پسند ہے-
تاہم، یہ واضح ہونے کے بعد کہ گرفتاری سعودی فورسز کے ہاتھوں ہوئی ہے، دونوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جرارہ، پاکستان کا دوست نہیں ہے بلکہ وہ تو مسلمان ہی نہیں ہے!
ایک مشترکہ بیان میں، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام اور فرقہ پرست تنظیموں نے قوم کو مبارک باد دی اور کہا کہ ہم تو ایک عرصے سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ انتہا پسند پاکستان کے دشمن ہیں، انہیں نیست و نابود کر دینا چاہیے-
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام (پی ٹی آئی کے ساتھ) امریکی ڈرونز کے خلاف دھرنا جاری رکھیں گے جو جرارہ جیسے شیطانوں کو پاکستان بھیج رہے تھے اور ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہے تھے-
بیان میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ احمد شاہ ابدالی کو پاکستان میں مداخلت کرنے اور امریکا کو شکست دینے کی دعوت دی جاۓ- جب یہ بتایا گیا کہ احمد شاہ ابدالی تقریباً دو سو سال پہلے مر چکا ہے تو مذہبی لیڈروں نے اسے مغربی پروپیگنڈا قرار دیا-
کانفرنس میں موجود پی ٹی آئی کے ارکان نے یہ بھی اضافہ کیا کہ پاکستان کے سب سے ممتاز انقلابی اور نوجوان نیوکلیئر فزکسٹ؛ زوہیرطورو، اینٹی-ڈرون میزائل تیار کر رہے ہیں-
طورو نے، جو کہ خود بھی اس کانفرنس میں موجود تھے، لیموں کے ذائقے والی قلفی چاٹتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی- انکا کہنا تھا کہ آج بہت گرمی ہے اور قلفی سے انھیں توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے-
بہرحال جلد ہی حالات نے ایک نیا موڑ لیا، جب یہ پتا چلا کہ سعودیوں نے جرارہ کو پکڑا اور امریکیوں کے حوالے کر دیا-
امریکی جنہوں نے جرارہ پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا تھا، اب اسے شامی حکومت کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس پر امریکا نے الزام لگایا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے-
یہ سنتے ہی جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام اور فرقہ پرست پارٹیوں نے ایک بار پھر اپنا موقف تبدیل کر لیا- ایک اور مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ جرارہ یقیناً ایک عظیم مسلمان مجاہد تھا- پھر وہ ایک دوسرے سے گلے ملے اور اجتماع میں موجود میڈیا اہلکاروں کے درمیان سعودی کھجوریں تقسیم کیں اور ان سے شیطانی شامی حکومت کے خلاف جرارہ کی کامیابی کی دعا کرنےکے لئے کہا-
لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ جرارہ کا امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے کیوں کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے-
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ نماز کے بعد اس سوال کا جواب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ تب تک وہ سب سعودی عرب حج ادا کرنے کے لئے روانہ ہو چکے ہونگے-


چھاپہ:
ایک فوجی ترجمان نے بھی پریس کانفرنس کا انقعاد کیا تاکہ چھاپے کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا جا سکے- انہوں نے بتایا کہ یہ چھاپہ سعودی اسپیشل فورسز کی کارروائی تھی جو سعودی ملٹری بیس سے چار ہیلی کاپٹروں پر رائیونڈ آۓ-
ہیلی کاپٹر، مرگلہ ہلز اسلام آباد پر اترے- سعودی فوجی، سرسبز پہاڑیوں پر ہیلی کاپٹر سے اترے، اونٹوں پر سوار ہوۓ اور دن کے اجالے میں مری کی طرف روانہ ہو گۓ-
پاکستانی پولیس نے انہیں دو مرتبہ چیک پوائنٹس پر روکا، لیکن جب کچھ فوجیوں نے انہیں سعودیہ میں پولیس کی نوکری اور سال بھر تک آب زمزم فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی-
ایک عینی شاہد کا دعویٰ ہے کہ اس نے پولیس والوں کو مسکراتے اور جاتے ہوے اونٹوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہتے اور خوشی سے 'مرحبا! مرحبا!' کہتے سنا-

اونٹوں کی فوج صبح گیارہ بجے مری پنہچی اور فوراً ہی وسیح و عریض احاطے میں داخل ہو گئی-
وہ اونٹ بڑے بڑے 'دبئی ڈیوٹی فری' شاپنگ بیگز میں راکٹ لانچر، سب مشین گنز، پستول، گرینیڈ اور پاپ کارن چھپا کر لاۓ تھے-

فوجی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ حالانکہ پاکستان آرمی کو اس حملے کا کوئی اندازہ نہیں تھا پھر بھی وہاں تقریباً ایک درجن پاکستانی سیکورٹی اہلکار اس وقت موجود تھے-
جب پوچھا گیا کہ آیا ان لوگوں نے اونٹ سواروں سے پوچھ گچھ کی؟ تو ترجمان نے کہا کہ انہوں نے اونٹ سواروں کو ہوٹل میں داخل ہوتے ہوۓ تو دیکھا لیکن اس وقت وہ ایک ستتر سالہ سفید فام بوڑھے سے تفتیش کر رہے تھے جسے نان سموکنگ ایریا میں سموکنگ کرتے ہوۓ گرفتار کیا گیا تھا-
"ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد سے ہم یورپین اور امریکیوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں"، ترجمان نے بتایا-
حالانکہ بعد میں پتا چلا کہ وہ سفید فام شخص ایک پولش ٹورسٹ تھا، ترجمان نے سیکورٹی اہلکاروں کی ہوشیاری کو سراہتے ہوئے کہا، "ہماری ریاستی خودمختاری سب سے مقدّس ہے"، "اور ظاہر ہے ، تمباکو نوشی صحت کے لئے نقصان دہ ہے"-
پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق، سعودی اونٹوں پر سوار ہوٹل کے کچن میں داخل ہو گۓ اور وہاں آنسو گیس کے شیل فائر کیے-
اس طرح شیف، باورچی، اور کچن کا دیگر اسٹاف باہر نکل آیا، ایک سعودی کمانڈر نے ان میں سے ایک موٹے، بے ترتیب داڑھی والے شیف کو دبوچ لیا-
سعودی کمانڈر نے شیف کو دیکھا اور اپنے ساتھ لائی تصویر سے اس کے چہرے کا موازنہ کیا اور پوچھا: "الجرارہ؟"
رپورٹ کے مطابق شیف نے جواب دیا، "نہیں الچکن جلفریزی- بہت مزیدار مٹن کباب بھی بناتا ہوں"-
کمانڈر نے پھر پوچھا، "الیمنی؟"- جس پر شیف نے جوب دیا، "جی ہاں، یمنی تکّے بھی بناتا ہوں، آپ لیں گے؟"
ایک رپورٹر نے فوجی ترجمان سے پوچھا کیا ہوٹل میں موجود پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں نے آپریشن ہوتے دیکھا؟ ترجمان نے اس کا جواب اثبات میں دیا، لیکن کہا کہ اس بات کی تصدیق ہونے کے بعد کہ پاکستان کی خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا-
اس بیان سے پریس کانفرنس میں موجود میڈیا اہلکار بہت خوش ہوۓ انہوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں، اور ساتھ ہی پاکستان، ضیاء الحق اور کھجور کے درختوں کی تعریف میں نہایت جذباتی نعرے لگانے لگے-
سعودی فورسز کے ہاتھوں الجرارہ کی گرفتاری کے اعلان کے فوراً بعد پرائیویٹ ٹی وی چینل حرکت میں آگۓ- ایک مشہور ٹی وی ٹاک شو کے میزبان نے اپنا پروگرام کی میزبانی ایک عربی خیمے میں کرنے کا فیصلہ کیا اور کرسی کے بجاۓ اونٹ پر بیٹھے-

حالانکہ زیادہ تر مہمانوں نے، جن میں ممتاز سابقہ جنرل، مذہبی علماء اور تجزیہ نگار شامل تھے، آپریشن کو سراہا اور نفرت کا اظہار کیا اور پھر الجرارہ کی تعریف کی، لیکن ان میں سے ایک مہمان، جو ایک چھوٹے قصبے کا صحافی تھا، پروگرام کے شرکاء سے متفق نہیں تھا-
اس نے سوال کیا کہ آخر کیسے جرارہ جیسا مطلوب شخص پاکستان میں اتنے لمبے عرصے سے بنا پکڑے گۓ رہ سکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں ایک ہوٹل میں شیف کی حیثیت سے کام بھی کرتا رہا ہے- اس نے یہ بھی کہا کہ جرارہ، کھانوں کے چینل پر مختلف کوکنگ شوز میں بحیثیت شیف بھی آتا رہا ہے-

اس پر میزبان نے یہ کہہ کر صحافی کو چپ کرا دیا کہ وہ غیر متعلقہ سوالات کر رہا ہے-
"لیکن اس چھاپے سے پہلے، ہر کوئی امریکا کو الزام دے رہا تھا!"، صحافی نے احتجاج کیا-
یہ سن کر میزبان چراغ پا ہو گیا اور صحافی کو ایک تھپڑ جڑ دیا- اس نے صحافی کی دھمکی دی کہ اسلامی حدود آرڈیننس کے تحت وہ اس پرمقدمہ کر دیگا-
صحافی نے جواب میں کہا کہ سعودیوں نے پاکستان کی خودمختاری پامال کی ہے- یہ سن کر، میزبان نے صحافی کو ایک اور تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ وہ اس پر توہین رسالت کا مقدمہ درج کرواۓ گا-
شو کے اختتام پر، میزبان اور شرکاء نے گوئٹے مالا کا جھنڈا نذر آتش کیا اور پاکستان کا قومی ترانہ عربی میں گایا- اور پھر اس غدار صحافی کو حکام کے حوالے کرنے کے بعد، وہ سب حج ادا کرنے سعودی عرب چلے گۓ- بہرحال، جلد ہی انہیں سعودی عرب کی خودمختاری پامال کرنے پر سعودی حکومت نے نکال باہر کیا-

ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (9) بند ہیں