ججز کو موصول ہونے والا سفید پاؤڈر آخر کیا ہوسکتا ہے؟
گمان ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی جاسوسی فلم کا اسکرپٹ ہو۔ فلم کا منفی کردار سفید پاؤڈر سے بھرا لفافہ کسی کو بھیجتا ہے جو اسے موصول کرنے والے کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایسے خطوط کے پاکستانی میڈیا میں خوب چرچے ہیں کیونکہ اس بار معزز ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں۔
ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام 8 ججز کو مشتبہ سفید پاؤڈر والے خطوط موصول ہوئے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ خطوط پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیجے گئے تھے جن میں پاکستانی عوام کی مشکلات کا ذمہ دار ججز کو ٹھہرایا گیا۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق لفافوں میں سیفد پاؤڈر موجود تھا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کچھ پولیس اہلکار جنہوں نے پاؤڈر کو ہاتھ لگایا انہیں جلن جیسے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اگلے ہی روز اسی طرح کے خطوط سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ آئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو موصول ہونے والے خطوط کی طرح ان میں بھی مشکوک سفید پاؤڈر موجود تھا۔ ایف آئی آر میں اسے ’کیمیکل جیسا سفید پاؤڈر‘ کہا گیا ہے۔ البتہ پولیس نے اب تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھیجے گیے خطوط میں کوئی زہریلا کیمیکل موجود تھا یا نہیں۔
گزشتہ روز بھی لاہور ہائی کورٹ کے ایک اور جج کو مشکوک خط موصول ہوا۔ البتہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ آیا اس میں کوئی کیمیائی مادہ یا دھمکیاں موجود تھیں یا نہیں۔
مجموعی طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 18 ججز کو ایسے مشکوک خطوط موصول ہوچکے ہیں۔
تمام خطوط کو جانچ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے اور حکومت نے بھی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لیکن اس ’پاؤڈر‘ نے ایسا طوفان کیوں برپا کر رکھا ہے، یہ آخر ہو کیا سکتا ہے اور ’پاؤڈر والے خطوط‘ درحقیقت ہیں کیا؟
پاؤڈر کی اقسام
جب تک لیبارٹری سے ٹیسٹ کے نتائج نہیں آتے اور سرکاری بیان جاری نہیں ہوتا تب تک کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاؤڈر کیا ہے۔
زیر بحث پاؤڈر خطرناک کیمیکل ایجنٹس میں سے ایک ہوسکتا ہے جیسے اینتھراکس، ریکن، پاؤڈر سائینائیڈ اور آرسینک ٹرائی آکسائیڈ وغیرہ۔ البتہ کچھ پاؤڈر فطری طور پر بہت کم خطرناک ہوسکتے ہیں جیسے ٹیلکم پاؤڈر یا بیکنگ سوڈا۔
ججز کو موصول ہونے والے کچھ خطوط میں لفظ ’Bacillus Anthracis‘ کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ ایک سنگین متعدی بیماری اینتھراکس (anthrax) کا سبب بنتا ہے۔ امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مطابق جب اینتھراکس کے ذرات جسم میں داخل ہوتے ہیں تو لوگ اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ ’یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب آپ متعلقہ پاؤڈر کو بذریعہ سانس اندر لیتے ہیں، کھا لیتے ہیں یا پاؤڈر ملا پانی پی لیتے ہیں۔ کٹی ہوئی یا کھرچی ہوئی جلد سے بھی یہ ذرات جسم میں داخل ہوسکتے ہیں‘۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اینتھراکس انفیکشن کی مختلف اقسام جیسے کٹینیئس اینتھراکس (جلد کے ذریعے)، سانس کا اینتھراکس، معدے کا اینتھراکس اور انجیکشن اینتھراکس کی علامات مختلف ہوتی ہیں جو انفیکشن ہونے کے پہلے دن سے دو ماہ تک کسی وقت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا ’اینتھراکس کی چاہے کوئی بھی قسم ہو اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ انفیکشن پورے جسم میں پھیلنے یہاں تک کہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے‘۔
سی ڈی سی نے بتایا کہ نقصان پہنچانے کی غرض سے ’مائیکرواسکوپک اسپورز کو پاؤڈر، اسپرے، خوراک اور پانی میں ملایا جا سکتا ہے‘ اور انہیں ’لفافے میں رکھ کر بذریعہ ڈاک بھی بھیجا جا سکتا ہے‘۔
تاہم صرف Bacillus Anthracis واحد مہلک پاؤڈر نہیں ہے۔ ماضی میں ارنڈ کے بیجوں سے بنا ریکن (Ricin) بھی زہر کے طور پر استعمال کیا جا چکا ہے۔
سی ڈی سی نے بتایا کہ اگر کوئی شخص کافی مقدار میں ریکن بذریعہ سانس جسم کے اندر لیتا ہے یا پیتا ہے تو اس میں سانس کی تکلیف سے لے کر قے اور خونی ڈائریا جیسی بہت سی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جوکہ موت کا باعث بن سکتی ہیں۔ تاہم ریکن زہر سے ظاہر ہونے والی علامات زہر کی لی گئی مقدار پر منحصر کرتی ہیں جبکہ سنگین صورتوں میں بہت سے جسمانی اعضا بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سانس کے ذریعے ریکن پوائزننگ کی علامات ابتدائی 4 سے 8 گھنٹوں جبکہ 24 گھنٹے تاخیر سے بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔ یہ زہر جسم میں جانے کے بعد اس کی ابتدائی علامات عام طور پر 10 گھنٹے سے بھی کم وقت میں ظاہر ہوجاتی ہیں‘۔
دوسری جانب آرسینک ٹرائی آکسائیڈ ایک اور پاؤڈر کیمیکل ہے جو سملٹنگ میں استعمال ہوتا ہے، اگر یہ 70 ملی گرام بھی کھا لیا جائے تو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم drugs.com پر ایک طبی جائزے کے مطابق یہ شدید پرومائیلوسائٹک لیوکیمیا کے علاج کے لیے دوائی کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ آرسینک زہر کی قلیل مدتی علامات میں قے، ڈائریا، پیٹ میں درد شامل ہیں جبکہ انتہائی سنگین صورتوں میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ طویل مدتی علامات میں جلد کے زخم اور جسم کے مختلف حصوں میں کینسر کا آغاز شامل ہے۔ تاہم طویل مدتی اثرات تب ہی سامنے آتے ہیں جب آرسینک سے زیادہ طویل عرصے تک سانس لی جائے یا آرسینک ملا پانی استعمال کیا جائے یا سمیلٹرز اور دیگر صنعتی مقامات پر کام کرنے والے اس کا سامنا طویل عرصے تک کرتے رہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کے زیرِزمین پانی میں آرسینک موجود ہے۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ کام کی جگہ پر ایکسپوژر کے ’بہت کم ہوتا ہے‘ بلکہ آرسینک کا استعمال عام طور پر غیر ارادی ادخال، خودکشی یا قتل کے واقعات میں ہوتا ہے’۔
اس کے بعد پوٹاشیم سائینائیڈ ہے جو شکر کے مشابہ دانے دار ہوتا ہے اور ہائیڈروجن سائنائیڈ گیس جاری کرتا ہے جوکہ ’انتہائی زہریلا کیمیکل اسفائیکسینٹ‘ ہے اور اہم جسمانی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔
امریکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم سائینائیڈ کا ایکسپوژر بہت کم وقت میں انسانی جان لے سکتی ہے اور یہ جلد میں لگ کر، سانس یا ادخال کے ذریعے جسم کو شدید متاثر کرسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پاؤڈر مرکیورک کلورائڈ ہو جوکہ پاؤڈر کی شکل میں قدرتی طور پر پایا جانے والے کیمیائی عنصر ہے۔ آسٹریلوی محکمہ موسمیاتی تبدیلی، توانائی، ماحولیات اور پانی کے مطابق، مرکیورک کلورائیڈ ایک ’بُو کے بغیر، سفید پاؤڈر یا کرسٹل‘ ہے اور اکثر جراثیم کش ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے پانی میں بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
مزید کہا کہ ’مرکیوری کی تمام شکلوں سے نروس سسٹم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے‘ جبکہ بہت زیادہ ایکسپوژر کے نتیجے میں دماغ اور گردے بھی ناکارہ ہوسکتے ہیں۔ مرکیوری اور اس کے مرکبات، درج بالا پاؤڈر کی طرح ادخال یا جلد پر لگنے سے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔
بائیو ٹیررازم
لفظ ’بائیو ٹیررازم‘ کو میریم ویبسٹر ڈکشنری نے ’حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال سے دہشت گردی‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ لوگوں کو نقصان پہنچانے اور خوف پھیلانے کے لیے پاؤڈر استعمال کیے جانے کی چند قابل ذکر مثالیں بھی موجود ہیں۔
2001ء میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے فوراً بعد میڈیا کمپنیوں اور کانگریس کے دفاتر میں اینتھراکس لاحق کرنے والے مواد سے بھرے گمنام خطوط پہنچنا شروع ہوئے۔ اگلے چند مہینوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ 17 اس انفیکشن کا شکار ہوئے۔
2012ء میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے سال یعنی اکتوبر 2011ء کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سرکاری رہائش گاہ کو موصول ہونے والے ایک پارسل میں مہلک اینتھراکس کا سبب بننے والا زہریلا مادہ موجود تھا۔
2013ء میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ساتھ ایک امریکی سینیٹر اور ایک جج کو خطوط بھیجے گئے تھے جن میں ریکن موجود تھا۔
صرف گزشتہ سال ہی امریکی ریاست کنساس میں قانون سازوں اور عوامی عہدیداروں کو سفید پاؤڈر والے تقریباً 100 خطوط موصول ہوئے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔