اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
ہم نے گزشتہ اقساط میں کوشش کی کہ ہم قبل مسیح زمانے کی سرحد کو پار کرلیں مگر اس کوشش میں ہم کامیاب نہیں ہوپائے۔ مگر آج کے اس پڑاؤ میں ہماری پوری کوشش ہوگی کہ قبل مسیح زمانے کا ذکر اختتام پذیر ہو۔ قدیم راستوں کا ذکر اس لیے اہم ہوجاتا ہے کیونکہ قدیم زمانے کی کھوج میں راستے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ بلکہ گزرے زمانوں سے آج تک اس دنیا نے جو معاشی ترقی دیکھی ہے اور سماجی روابط کے میلاپ سے جو نخلستان آباد ہوئے ہیں وہ سب ان راستوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔
سرحد کیا ہوتی ہے؟ سرحد کا ہونا راستوں کا بند ہونا ہوتا ہے اور راستوں کا بند ہونا معاشی اور سماجی بہاؤ کو روکنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی بہاؤ کو روکنے کا عمل کبھی بھی مثبت نتائج نہیں دے سکتا۔ ان راستوں کی اہمیت اور افادیت پر تحریر کی گئی ایک کتاب میرے سامنے ہے جو ’ڈی لیسی اولیری‘ کی مشہور کتاب ہے جو اسلام سے پہلے عرب کے معاشی اور سیاسی حالات پر ایک تحقیقی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ اس کتاب میں کچھ ایسے راستوں کا ذکر ہے جو ان زمانوں میں بیوپار کے راستے تھے اور یہ راستے جوڑنے کا کام، ایک دوسرے کو قریب لانے کا کام کرتے تھے۔
یہ خشکی کے راستے بھی تھے اور سمندر کے بھی۔ یہ قدیم شاہراہیں چاہے زمین پر بچھی تھیں یا سمندر کے سینے پر، ان پر قافلے رواں دواں رہتے تھے۔ مشرق کا سامان مغرب، مغرب کا سامان جنوب مغرب تک اور وہاں کا سامان ہمارے گھروں کے آنگن تک پہنچتا تھا۔ سامان کے ساتھ مختلف مروج زبانوں کے الفاظ، ثقافت، ادب اور فنون نے بھی سفر کیا۔ اور ہاں حملہ آور بھی ان راستوں پر سفر کرتے تھے۔ ان حملہ آوروں کے ذکر میں ابھی کچھ وقت ہے۔ لہٰذا فی الوقت ہم بیوپار کے متعلق اولیری سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اولیری لکھتے ہیں، ’606 قبل مسیح (ق-م) میں اشوری سلطنت کے زوال کے بعد بابل کو نئی جان ملی اور ایک بار پھر وہ کوسموپولیٹن قسم کی منڈی بن گیا۔ سندھ کے لوگ اسے Baberu کے نام سے جانتے تھے اور سندھی جہازرانوں کا ایک بیان ہم تک پہنچا ہے۔ یہ کہانی تقریباً تیسری صدی ق-م کی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کے بعد بابل میں مور پالے جانے لگے جو سندھ سے لائے گئے تھے۔ بلاشبہ سندھ اور عربیہ کے درمیان قبل از سکندری بحری راستے کی تفصیل کا ہمیں علم ہونا جزوی طور پر اس امر کا نتیجہ ہے کہ اس راستے کو استعمال کرنے والوں نے اپنی کارروائیوں کو انتہائی خفیہ رکھنے کے ذریعے اجارہ قائم رکھنے کو ترجیح دی۔ ہم جانتے ہیں کہ فنیقیوں نے دیگر مقامات پر بھی یہی طریقہ اپنایا‘۔
اس کے بعد اگر ہم تیسری صدی قبل زمانے کی بات کریں تو لاگاش کے پرنس گوڈیا (2144-2124 ق۔م) کا زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے جب سندھ کی طرف آوت جاوت عام ہوچکی تھی۔ اولیری ہمیں بتاتے ہیں کہ ’نیچے خلیج کے مغربی ساحل پر جانے والے لوگ مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرکے مغربی ہندوستان (سندھو گھاٹی) کے شمال مغرب میں جانے کے قابل بھی ہوں گے۔ درحقیقت یہ ایک نہایت آسان راستہ ہے تاہم گزری ہوئی بابلی سلطنتوں کے عہد میں یہ راستہ فعال ہونے کے ہمیں کوئی خاص ثبوت نہیں ملتے۔ البتہ اس راستے کو ان زمانوں میں بھی استعمال کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہوگی۔ خلیج فارس سے مشرق کی جانب سمندر کا سفر کرتا ہوا مسافر دریائے سندھ کے دہانے اور وہاں سے شمال تک پہنچ جاتا تھا۔
’سندھ تک سفر کرنے والے ابتدائی بحر پیماؤں نے محتاط انداز میں (دریائے سندھ کے دہانے کی جانب) خلیج فارس ساحل کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے ایسا کیا۔ چنانچہ یہ راستہ فارسی عہد حکومت سے پرانا بھی تھا بلکہ ایسا بھی لگتا ہے کہ اس سے پہلے کے قدیم زمانے میں بھی کھلے سمندر کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ممکن ہے کہ یہ اِتفاقاً دریافت ہوا اور بعد کی بابلی سلطنت میں دونوں راستے زیرِاستعمال رہے۔ بعدازاں ہم سامانِ تجارت کے ناموں کے ذریعے باہمی تعلق کے دو مختلف انداز دیکھ سکتے ہیں۔ ایک کے نام سنسکرت زبان سے تعلق رکھتے ہیں جس سے سندھو گھاٹی سے تجارت کی شہادت ملتی ہے۔ نیز خریدی جانے والی اشیا بھی مختلف تھیں۔ سندھ سے اشیا سمندری راستے اور خشکی دونوں راستوں سے آتی تھیں‘۔
اولیری کے مطابق، ’مصر کے ٹالمیوں نے سمندر کے راستے سندھو گھاٹی سے تجارت کرنے کی کافی حوصلہ افزائی کی اور اسٹرابو سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کچھ جہازران گاہے بہ گاہے مصری بندرگاہوں سے سندھ کی طرف جاتے رہتے تھے۔ یہ تجارتی خوشحالی انحطاط پذیر ٹالمیوں اور بالخصوص قلوپطرہ کی کمزور حکومت کے عہد میں اختتام پذیر ہوئی۔ شاہراہیں خراب ہوگئیں، قزاقوں اور بربریوں سے عرب کے ساحل بھر گئے۔ 30 صدی ق-م کے قریب مصر ایک رومن صوبہ بنا اور ایک مستعد انتظامیہ کے ماتحت اپنی پرانی خوشحالی بحال کرنے لگا۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے بادشاہ Pandion نے 20 ق۔م میں تحائف دےکر سیزر کی طرف ایک وفد روانہ کیا تھا۔ اس وفد کو زمینی راستے پر سفر کرتے چار برس لگے جبکہ یہ سفر سمندر کے راستے ایک برس میں کیا جاسکتا تھا‘۔
ہم یہاں ایک یونانی ہپالس (Hippalus) کا ذکر کریں گے جو پہلی صدی قبل مسیح کا بحری جہازران اور سوداگر تھا جس کے متعلق پہلی صدی عیسوی میں تحریر کی ہوئی ایک مشہور کتاب Periplus of the Erythraean Sea کے مصنف لکھتے ہیں کہ ’مون سون ہواؤں کی تھیوری ہپالس نے دریافت کی اور جانا کہ ہوا چھ ماہ تک مستحکم انداز میں مشرق سے مغرب اور چھ ماہ تک اُلٹ سمت میں چلتی ہے۔ بحر ہند اور ہندوستانی ساحل کے ساتھ تجارتی بندرگاہوں کے صحیح مقام کے درست راستے بھی اُسی کی محنتوں کا نتیجہ ہے‘۔
پلینی دی ایلڈر اس بات کو مسترد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ ہپالس نے ہند مہا ساگر والا راستہ دریافت نہیں کیا تھا۔ مون سون کی ہوا کو ’ہپالس‘ (جنوب مغربی مون سون کی ہوا) بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ محققین جیسے آندرے ٹیچرنیا (Andre Tcherni) یہ کہتے ہیں کہ ’مون سون ہواؤں کا علم سمندری راستوں پر چلنے کے لیے اہم تھا اس لیے ہمیں Hellenistic Era (یونان کے کلاسک زمانے کے بعد یعنی 323 ق-م، سکندر اعظم کی موت اور قلوپطرہ کی موت 30 ق-م کے درمیان والا زمانہ) میں ان موسمی ہواؤں کے لیے Hypalus نام تحریر کے دائرے میں لایا جاتا تھا‘۔
بہرحال ہپالس کے متعلق ہمارا مددگار، اولیری تحریر کرتا ہے کہ ’اہم ترین پیش رفت 45ء کے قریب ہوئی جب ہپالس نے مون سون ہواؤں کی تھیوری دریافت کی۔ اس کے بعد سے مصر، ہندوستان کے درمیان باقاعدہ سمندری تجارت ہونے لگی اور یونانی-رومن دنیا کو سندھ کے ساتھ قریبی رابطے میں لایا گیا جو اسلام سے قبل کوئی 100 سال تک قائم رہا۔ مشرق اور مغرب کو اسلام نے جُدا نہیں کیا تھا بلکہ بحیرہ احمر میں بازنطینی جہاز رانی کا انحطاط چھٹی صدی میں ہوا جس نے ہند کی تجارت واپس عرب تاجروں کے ہاتھ میں دے دی‘۔
آپ نے تحریر پڑھتے یہ ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ہم قبل مسیح زمانے سے نکل آئے ہیں اور عیسوی کے بعد ہمارے سامنے ہجری کیلنڈر موجود ہے۔ ہم اولیری صاحب سے ابھی اجازت لیتے ہیں اور کچھ وقت سید سلیمان ندوی کے ساتھ بتاتے ہیں جو ہمیں بتا رہے ہیں کہ ’ہندوستان کی زبان کے حوالے سے بندرگاہوں کے صاف نام ہمیں پہلی صدی ہجری (600ء) سے ملنے شروع ہوتے ہیں اور تیسری صدی تک بہت سے نام ہمیں ملتے ہیں جن میں آگے چل کر کوئی زیادہ بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ عربوں کے نزدیک خلیج فارس سے پہلے سندھ کی بندرگاہ دیبل تھی۔ ابن حوقل نے دسویں صدی عیسوی میں دیبل کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ یہ تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے اور یہاں مختلف قسم کی تجارتیں ہوتی ہیں۔
سلیمان تاجر تیسری صدی ہجری میں بحری راستوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’پہلے بصرہ اور عمان سے تمام سامان سیراف بندرگاہ (ایران) آجاتا۔ (14 ہجری میں عربوں کے عراق پر قبضے سے پہلے ایرانیوں کے زمانے میں ہند کے لیے خلیج فارس کی سب سے بڑی اور مشہور بندرگاہ ’اُبلہ‘ تھی جو بصرہ کے قریب واقع تھی۔ اُبلہ سے سندھ کی تجارتی آمد و رفت اس کثرت سے ہوتی تھی کہ عرب اُبلہ کو سندھ کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔ اس کے بعد ہند کے لیے خلیج فارس پر سب سے بڑی بندرگاہ ’سیراف‘ بنی۔ یہ بصرہ سے سات دن کی مسافت پر ایرانی حدود میں واقع تھی۔ تیسری صدی ہجری میں اس کے اقبال کا ستارہ طلوع ہوا) اور یہاں سیراف میں وہ سامان جہازوں پر لادا جاتا ہے۔ یہاں سے لنگر اُٹھایا جاتا تو مسقط میں آکر لنگر ڈالا جاتا۔ یہاں سے پھر جہاز سندھ کی جانب روانہ ہوتے‘۔
ابن خردازبہ (250 ہجری) اپنی مشہور کتاب ’کتاب المسالک و الممالک‘ میں جدہ کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’یہاں سندھ، ہند، زنجبار، حبشہ اور فارس کی چیزیں ملتی ہیں‘۔ ساتھ میں وہ بصرہ سے سندھ کے سمندری راستوں اور مسافتوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ وہ بصرہ سے جزیرہ ہرمز اور ہرمز سے ’ثارا‘ تک سات دن کا سفر بتاتا ہے اور لکھتا ہے، ’یہی ثارا فارس اور سندھ کی حد فاصل ہے۔ یہاں سے جہاز دیبل روانہ ہوتا ہے جو آٹھ دن کا سفر ہے۔ دیبل سے دریائے سندھ کا دھانہ دو فرلانگ، دریائے سندھ سے اوتگین چار دن کا راستہ ہے اور اوتگین سے ہندوستان کی سرحد شروع ہوتی ہے‘۔
یہاں پہنچ کر محققین دیبل، کراچی اور بنبھور کے مقام کے حوالے سے آپس میں تقریباً لڑ پڑتے ہیں۔ مگر یہ شاید وقت سے پہلے ہے کیونکہ ابھی تک بنبھور کی مکمل کھدائی بھی نہیں ہوئی ہے۔ کراچی کی قدامت کے حوالے سے ہم آپ کو مسلسل حقائق سے باخبر رکھتے ہوئے آئے ہیں۔ یہاں آرکیالاجی حوالے سے جو کھدائیاں ہوئیں ان پر سیمنٹ اور لوہے کی عمارتیں کب کی کھڑی ہوچکی ہیں اور کچھ سائٹس پر اگر عمارتیں نہیں بنیں تو کم سے کم سبزی اور دوسری فصلیں ضرور اُگ چکی ہیں۔ اور تو اور یہ کل کی بات ہے جس کے متعلق گل حسن کلمتی صاحب حوالہ لےکر لکھتے ہیں کہ ’کیماڑی بندر کے نزدیک باتھ آئی لینڈ کا ایریا جہاں ہے، اسی جگہ پر 1859ء تک پرانے شہر کے آثار موجود تھے۔
سیٹھ ناؤنمل نے آثارِقدیمہ کے متعلق اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ ’آج سے (1850ء) 400 یا 500 برس پہلے کلفٹن اور کیمپ (صدر کیمپ والا علاقہ) کے درمیان ایک خوشحال شہر آباد تھا جس کے آثار بہت واضع ہیں۔ ناؤنمل نے اس قدیم شہر کے آثار جن میں شہر اور محلوں کی گلیاں تھیں‘۔ یہ اس وقت کے سندھ کے کمشنر بارٹل فریئر کو بھی دکھائے گئےاور ساتھ ساتھ ناؤنمل نے فریئر کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں واگھو ڈر (ریڑھی میان کے قریب) اور وہاں قدیم شہر کے آثار کا بھی ذکر کیا تھا۔ اگر آپ اس سفر میں ابتدا سے ہمارے ساتھ ہیں تو یہ باتیں آپ کے لیے یقیناً حیران کُن نہیں ہوں گی۔
اب کراچی کے ابتدائی اور قدیمی نام کے لیے ہمیں محمد بن قاسم کے حملے کے زمانے میں جانا ہوگا کیونکہ اب تک کراچی کے نام کے حوالے سے ہم جو نام سُنتے آئے ہیں اُن میں کروکولا، مورنتوبار، سکندری جنت یا آرابتائی شامل ہیں۔ مگر ایک اور نام ’عورتوں کا بندر‘ جس سے عام فہم یہ مطلب یا معنیٰ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں عورتوں کی حکومت تھی یا یہاں ایک عورت حکمران تھی۔ چونکہ ہم نے یہ باتیں جہاں جہاں پڑھی ہیں وہ ہندوستان کی سرحدوں سے دور بسنے والوں نے یہاں آکر تحریر کیں۔ چونکہ وہ مقامی زبانوں سے واقف نہیں تھے تو جو سنا اور اشاروں سے وہ جو سمجھ سکے وہ اپنی زبان میں تحریر کیا۔
اس طرح وہ تحریریں جب صدیوں کے بعد ہمارے پاس آئیں تو وہ یونانی، عربی، فارسی اور انگریزی تراجم کی صورت میں کم از کم تین زبانوں میں تھیں۔ تو یہ حقائق جب ایسی صورتوں میں ہمارے ذہن تک پہنچے تو ہر ایک نے اپنی وسعت و وقعت کے مطابق انہیں پڑھا، سمجھا اور اپنی زبان میں تحریر کردیا۔ پھر حوالہ جات کی صورت میں وہ اتنی پھیلیں اور اتنی بار پڑھی گئیں کہ ذہن کی زمین پر انہوں نے جڑ پکڑ لی۔ جب کوئی بھی چیز چاہے جنون ہو، لایانی بات ہو یا کچھ بھی ہو، اسے جڑ سے اُکھاڑنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
مگر وقت جس کے ساتھ ہم چلتے رہتے ہیں اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ایک سا کبھی نہیں رہتا۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ سورج روز کی طرح اُگے گا۔ دوپہر بھی ہوگی پھر شام اور پھر سورج غروب ہوجائے گا۔ پھر رات آئے گی جس میں کتنی راتیں چاندنی اور بے نور ہوں گی۔ مگر ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ آج جیسا کل کبھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ جیسے بہتی ندی سے پانی اور شب و روز کی دُھند میں کھوئی ہوئی جوانی کبھی نہیں لوٹتی۔ اور پھر زمانے بدلے بلکہ زمانے نے جو پلٹ کھائی تو بہت کچھ بدل گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد سے معلومات کا بہتا بہاؤ آپ کے مطالعے کے چھوٹے سے کمرے تک آ پہنچتا ہے۔ آپ کی علمی تشنگی مٹانے کے لیے معلومات کا ایک سمندر موجود ہے۔ یہ آپ پر ہے کہ اس سمندر میں غوطے لگا کر آپ کیا حاصل کرتے ہیں۔
کراچی کو عورتوں کا بندر یا شہر ثابت کرنے کے لیے اکثر مصنفین ساتویں صدی میں یہاں آنے والے ’ہیون سیانگ‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ ایک بودھی سیاح تھا جو وسط ایشیا سے ہندوستان کے سفر پر (1646ء) میں نکلا اور 16 برس تک یہاں رہا۔ اس کے سفرنامے کا انگریزی اور اردو ترجمہ میرے سامنے موجود ہے جس میں اس قسم کی بات کہیں بھی تحریر نہیں۔ وہ تھانیشور اور قنوج کے بادشاہ ہرش وردھن کا چہیتا مہمان تھا کیونکہ ہرش نے چندر گپت موریہ کی سی فوجی قابلیت حاصل کی تھی۔ سندھ کے مشرق میں جو ریگستانی پٹی ہے اس کے مشرق میں اس کی زبردست حکمرانی تھی۔
رما شنکر ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ ہرش چرتر میں ہرش وردھن کے لیے تحریر ہے کہ ’ہونوں کے ہرن کے لیے شیر، ملک سندھ کے راجا کے لیے تیز بخار، گجرات (گرجروں) کی نیند حرام کردینے والا ایک مست ہاتھی، گندھارا کے راجا کے لیے مہلک طاعون، لاٹوں کی لاقانونیت کا رہزن اور مالوہ کی عظمت کی بیل کے لیے کلہاڑی ہے‘۔ لیکن اس سے ہمیں یک لخت یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ جن ریاستوں کے نام اس عبارت میں آئے ہیں انہیں وردھن نے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ مگر یہ ضرور ہوا کہ ہرش نے سندھ پر حملہ کیا تھا اور وہاں کے حاکم کی پوری دولت لوٹ لی تھی اور اپنا باج گزار بنایا تھا۔ مگر جب ہیون سیانگ یہاں آیا تھا تب سندھ ہرش کا خراج دینے والا ملک نہیں تھا۔ چونکہ ہیون سیانگ، راجا ہرش وردھن کا قریبی دوست رہا اس لیے ان دنوں کی بہت سی معلومات پہلی بار ہم تک پہنچیں’۔
میں ہیون سیانگ کی تحریر سے کُچھ پریشان بھی ہوں کہ اس نے بہت سی سنی سنائی باتیں تحریر کردی ہیں مگر پھر بھی وہ ساتویں صدی کا انتہائی اہم اور بنیادی ماخذ ہے کیونکہ اس بودھی سیاح کے واپس جانے کے تقریباً 60 برس کے بعد محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوا تھا۔ 60 یا 70 برس کوئی اتنا بڑا عرصہ نہیں کہ معروضی حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہو۔
اس لیے سیاسی اُتھل پُتھل کے سوا معروضی منظرنامہ وہی رہا ہوگا جیسا اس بودھی سیاح نے دیکھا تھا تو ہیون سیانگ کا سندھ کے متعلق تحریر کیا ہوا بیان پڑھ لیتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ سندھ کو ’سِن-تیو‘ بلاتا ہے اور لکھتا ہے کہ ’اس ملک کا رقبہ 7 ہزار لی (30 لی برابر ہوتے ہیں پانچ میلوں کے) اور اس کے دارالحکومت کا رقبہ 30 لی ہے۔ یہاں کی مٹی اناج اُگانے کے لیے انتہائی زرخیز ہے اور یہاں گندم اور باجرہ اُگتا ہے۔ یہاں بیل، اونٹ، بھیڑیں، خچر اور دیگر حیوانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مقامی طور پر حکیم جڑی بوٹیوں سے بیماروں کے لیے ادویات بناتے ہیں۔ لوگ سخت مزاج اور جوشیلے مگر ایماندار اور راست گو ہیں۔ لڑنا جھگڑنا اُن کی عادت ہے۔ وہ امتیاز حاصل کرنے کے لیے کتابیں نہیں پڑھتے۔ ان کا بدھ کے دھرم پر پکا یقین ہے۔
’کئی سو وہاروں (انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق، وہار سے مراد بدھ بھکشوؤں کی خانقاہ ہے۔ وہار بدھ مت کی خانقاہوں کی قدیمی شکل ہے جس میں ایک طرف کھلا صحن ہوتا جس کے ارد گرد کھلی کوٹھریاں ہوتیں۔ ابتدا میں وہار بدھ راہبوں کو بارش سے بچانے کے لیے بنایا جاتا تھا۔ پھر زمانہ تبدیل ہوا تو اس کی شکل بھی بدلی اوراس نے چھوٹے اسٹوپا کی شکل لے لی جس میں مذہبی تبرکات رکھے جاتے۔ اس طرح اس کی شکل مذہبی ہوتی چلی گئی۔) میں دس ہزار بھکشُو رہتے ہیں۔
’وہ سنمتیا مکتبہ کے مطابق ہنایان (بدھ مت کا ایک مکتبہ فکر) کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہاں تقریباً تیس کے قریب دیو مندر ہیں جن میں مختلف فرقہ پرست اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں کا راجا شودر ذات کا ہے۔ وہ فطرتاً نیک، مخلص اور بدھ دھرم کا احترام کرنے والا ہے۔ جب تتھاگت (گوتم بدھ) اس دنیا میں تھا تو متعدد بار اس ملک سے گزرا، اس لیے راجا اشوک نے اُس کے نقوش والے مقامات پر بیسیوں استوپ بنوائے۔ یہ عمارات ہر کہیں نظر آتی ہیں۔
’دریائے سندھ کے کنارے، ہموار دلدلی زمینوں کے ساتھ ساتھ چند ہزار لی فاصلے تک لاکھوں خاندان آباد ہیں۔ وہ بخیل طبیعت اور خون خرابے کے عادی ہیں۔ وہ مویشی پالنا ان کا ذریعہ روزگار ہے۔ اُن کے ہاں کوئی حکمران نہیں اور مرد و خواتین میں کوئی بھی امیر یا غریب نہیں۔ وہ اپنا سر مونڈتے اور بھکشوؤں والا لباس پہنتے ہیں‘۔
ہیون سیانگ فارس سے جنوب مغرب میں ایک جزیرے پر عورتوں کی سلطنت کا ذکر کرتا ہے جو اس نے لوگوں سے سنا تھا مگر وہ خود وہاں نہیں گیا تھا۔ اس جزیرے کا ذکر مارکو پولو بھی کرتا ہے جبکہ مارکو پولو بھی سندھ نہیں آیا تھا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کراچی کا ذکر بالکل بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ ہم اس بات پر تھوڑا بہت سوچ سکتے ہیں کہ آخر کراچی کو ’مورنتو بار‘ کیوں کہتے تھے؟ جس کا مطلب ’عورتوں‘ کا بندر بنتا ہے۔ آخر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا کہ محققین نے اپنی تحقیقات میں ان پر بہت سی باتیں کی ہیں۔
آج ہم نے انتہائی تیز رفتاری سے سفر طے کیا ہے۔ دن گرم تھا مگر مغرب اور جنوب سے آتی ہوئی سمندری ہوا نے ہمیں گرمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ ہم آنے والی اقساط میں کوشش کریں گے کہ آخر کراچی کے اس سمندری کنارے کو دور دراز ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں، محققین اور بیوپاریوں نے آخر عورتوں کا بندر کیوں کہا۔ تو تحقیق کے اس سفر میں ہم جلد ہی ملتے ہیں۔
حوالہ جات
- تاریخ قدیم ہندوستان۔ رما شنکر ترپاٹھی۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی۔ 2020۔
- ’کراچی سندھ جی مارئی‘۔ گل حسن کلمتی۔ نئوں نیاپو پبلیکیشن، کراچی
- The Ancient Geography of India. Alexander Cunningham. London.1871.
- Arabia before Islam. De. Lecy O’leary. New York, 1927.
- On Yuan Chwang’s Travels in India. Vol:ii. Thomas Waters. London, 1905.