سی پیک سیاحت: وادی مسگر، منتاکا پاس اور کلک پاس (پندرہویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
سہ پہر تین بجے ہم پاکستان کے آخری قصبے سُست پہنچے۔ اس وقت سُست کے اطراف میں پہاڑ اپنے جسم کا آدھا حصہ بادلوں میں چھپائے کھڑے تھے۔ فضا میں ایک اداس اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ سڑک کے درمیان ایک رکاوٹی شہتیر لگا ہوا تھا جو اس بات کی نشان دہی کررہا تھا کہ اس جگہ پاکستان کا اختتام اور چین کی مسافتیں شروع ہوتی ہیں۔
سڑک کے کنارے ایستادہ کسٹم و امیگریشن کا بورڈ اس بات کی تصدیق کررہا تھا۔ سڑک کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی عمارتیں اور خیمے بکھرے ہوئے تھے۔ کسٹم اور امیگریشن کے دفاتر بھی یہیں تھے۔ ایک چھوٹی سی کوٹھری میں ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو) کا دفتر تھا جس کے باہر چین کی پہلی سرحدی پوسٹ ’پیر علی‘ تک جانے کے لیے نیٹکو کی کوچ صبح کا انتظار کررہی تھی۔
پتھروں کے ایک ڈھیر کے پیچھے ہوٹل کے بورڈ کے ساتھ چند کوٹھریوں پر مشتمل ایک کچی پکی عمارت کھڑی تھی۔ بس کے رکتے ہی ایک ’کاؤ بوائے‘ نما لڑکا تیزی سے لپکا اور بس کی چھت سے سامان اتارنے میں مسافروں کی مدد کرنے لگا۔ ہم تینوں اپنے تھیلے سنبھالے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ بس کا تمام سامان اتر گیا تو کاؤ بوائے ہماری طرف آیا۔
’ہوٹل چاہیے سر؟‘ وہ اچھی اردو بول رہا تھا۔ ہم نے اثبات میں سر ہلائے۔
’تو پھر آئیے نہ جی‘، اس نے ہم سے تھیلے لے لیے اور قریبی ایک ہوٹل کے مختصر احاطے میں گُھس گیا۔
ہوٹل تین کوٹھریوں پر مشتمل تھا۔ ایک بڑا کمرہ جس کا ایک حصہ باورچی خانہ اور استقبالیہ تھا جبکہ دوسرے حصے میں بستر لگے ہوئے تھے۔ بقیہ دو کمرے بند تھے اور ان سے پرے زیرِتعمیر کمروں کی ایک طویل قطار تھی۔ ہوٹل کے پیچھے ایک طویل ناہموار میدان تھا۔ ہوٹل کی پچھلی دیوار کی کھڑکی سے دور نالے کا پانی بہتا نظر آرہا تھا اور اس سے پرے پہاڑ تھا۔
’جی یہاں پر بستر کا حساب ہے، فی بیڈ پچاس روپے۔ آپ تینوں کے ڈیڑھ سو روپے بنتے ہیں جی‘، یہ کہہ کر کاؤ بوائے نے ایک کمرہ ہمارے حوالے کردیا۔
شام ہوگئی تھی اور آسمان پر بادل بڑھنے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی خاصا اضافہ ہوچکا تھا۔ پھر بارش شروع ہوگئی۔ باہرکھڑے لوگ اندر آگئے اور ان میں ہمارا بس کا ہم سفر نذیر بھی شامل تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ ہنزہ والے ’بروشسکی‘ زبان بولتے ہیں اور سوست والے ’گو جال‘۔ اس لیے یہاں وہ بھی ایک دوسرے سے قومی زبان اردو میں بات چیت کررہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس دوستانہ گپ شپ میں ہوٹل کا مالک زمان بھی شامل ہوگیا۔ زمان ایک پڑھا لکھا اور خوش اخلاق آدمی تھا۔ ہوٹل شروع کرنے سے پہلے وہ علی آباد میں پوسٹ ماسٹر تھا۔
ماحول بھیگ رہا تھا مگر اپنائیت کی گرم فضا میں باہر کی خنکی سرایت نہ کرسکی۔ ہم اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور، نانگا پربت اور پھسوکونز کی ہزاروں فٹ بلندیوں کے پار سوست کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کیر وسین لیمپ کی پیلی روشنی اور اس اجنبی ماحول کی سرد اندھیری رات میں بھی اجنبی نہیں تھے۔ وہ اپنائیت سے بھری رات جون 1987ء کی ایک شب تھی۔
اس رات کے 30 سال بعد 14 اگست 2017ء کے دن، جب ہم چند دوست ایک بار پھر شاہراہ قراقرم پر درہ خنجراب کی طرف جارہے تھے تو اُس وقت میرے ذہن میں یہی 30 سال پرانی فلم چل رہی تھی جب میں چین جارہا تھا اور یہاں پاکستان کے آخری قصبے سست میں ہم نے یہ رات اس اکلوتے ہوٹل میں گزاری تھی۔ جب سست پہنچے تو مجھے اندازہ ہوا کہ 30 سال بعد یہاں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ کسٹم و امیگریشن کے دفاتر یہاں سے کہیں اور منتقل ہوچکے ہیں اور اطراف مفلوک الحال عمارتوں کی جگہ جدید تعمیرات نے لے لی ہے۔
اُسی وقت اچانک میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر اسی ہوٹل کا نام تحریر تھا جہاں میں 30 برس قبل ٹھہرا تھا۔ یاالٰہی! میں حیرت سے اچھل پڑا۔ یعنی 30 سال گزر جانے کے باوجود یہ ہوٹل قائم تھا؟ میں نے وقاص سے فوراً گاڑی روکنے کو کہا اور اتر کر دیوانہ وار ہوٹل کی جانب لپکا۔ جب ریسیپشن سے میں نے ہوٹل کے مالک شیر زمان کے بارے میں دریافت کیا تو اندر کچن سے کسی ’نوجوان‘ شیر زمان کے بجائے ایک ’ادھیڑ عمر‘ شیر زمان باہر آیا۔
میں نے کئی سال بعد اپنے اس سفر پر جو کتاب ’قراقرم کے پار‘ لکھی تھی، اس میں نہ صرف اس ہوٹل کا بلکہ اس کے مالک شیر زمان کا ذکر بھی ہے اور میرے فوٹو ریکارڈ میں 30 سال پہلے کے ہوٹل کی تصویر بھی موجود ہے۔ اتفاق سے یہ کتاب اس وقت بھی میرے پاس موجود تھی۔ میں نے شیر زمان سے 30 سال پہلے ملاقات کا ذکر کیا اور اپنی کتاب میں وہ صفحات دکھائے جہاں اس کا اور اس کے ہوٹل کا ذکر تھا۔ بس پھرکیا تھا، ایک محفلِ یارانِ دیرینہ برپا ہوگئی۔
خیر یہ واقعہ تو 30 سال بعد ہونا تھا، اِس وقت تو یہاں بارش تھی جو رات بھر ہوتی رہی، البتہ صبح بڑی روشن اور چمک دار طلوع ہوئی۔ سست کے اطراف پہاڑ جو کل شام تک بادلوں کے الٹے سمندر میں اپنی چوٹیاں چھپائے کھڑے تھے، آج پورے کے پورے آنکھوں کے سامنے تھے۔ نکھری نکھری دھوپ ان کی چوٹیوں میں ٹنکے ہوئے چاندی کے تاروں کو چمکا کر آج کے سفر کو ایک خوشگوار آغاز دے رہی تھی۔
’آج تو دن بہت اچھا ہے جی‘، میرے پیچھے ہوٹل کا کاؤ بوائے ملازم صابر کھڑ ا تھا۔
’ہاں۔۔۔ دن بہت اچھا ہے‘، میں مسکرایا۔
ہماری قسمت اچھی تھی کہ آج سولہ ہزار فٹ بلند درہ خنجراب کی طرف سفر کے آغاز میں موسم خود ہی اچھا ہوگیا تھا۔ میں نے ٹھنڈے یخ پانی سے ہاتھ منہ دھونے کی کوشش کی اور بالآخر کلی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ صابر ہم تینوں کے لیے ناشتہ لےکر آگیا، خمیری پراٹھے اور چائے۔ سست ساری رات بھیگتا رہا تھا اور اس وقت ہوا میں ایک برفیلی ٹھنڈک تھی۔ اس لیے گرم چائے نے بہت لطف دیا۔ چائے پی کر ہم کھڑے ہوگئے۔ صابر حساب لےکر آگیا لیکن بل میں چائے کے پیسے شامل نہیں تھے۔
’صاحب آپ لوگ کراچی سے آئے ہیں، ادھر ہمارے مہمان ہیں۔ ہم پر ایک چائے کا تو حق ہے ناجی۔۔۔۔ سفر بخیر‘۔ وہ رخصت کرتے ہوئے ہم سے گلے لگ گیا۔
’واپسی میں ضرور یاد رکھیے گا‘، اس کے دوست چہرے کے پیچھے ایک برفانی چوٹی مسکرا رہی تھی۔
کسٹم ہاؤس کے سامنے نیٹکو کی کوسٹر چین کی پہلی سرحدی پوسٹ ’پیر علی‘ کی طرف جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ابھی کسٹم و امیگریشن کے مرحلے باقی تھے۔ ہوٹل سے ملحق کوٹھری میں نیٹکو کا آفس تھا۔ ہم اس میں داخل ہوگئے۔ اندر بھوری مونچھوں والا ایک شخص بیٹھا ڈالر گن رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سرہلایا، ٹکٹوں کا رسیدی کتابچہ نکالا اور ایک ایک ٹکٹ پھاڑ کر ہماری طرف بڑھادیا۔ ہم نے پیسے دیے اور ٹکٹ لے کر باہر آگئے۔ کسٹم آفس کے سامنے امیگریشن کے لیے چند غیر ملکی سیاحوں کی قطار لگی ہوئی تھی، ہم بھی اس قطار میں لگ گئے۔ کاؤنٹر پر کھڑے ایک شخص نے مجھے اشارے سے بلایا۔
وہ بولا، ’یہ فارینر کاؤنٹر ہے، آپ لوگ ادھر آجائیں‘۔
اس نے دوسری طرف اشارہ کیا، وہاں ’پاکستان‘ لکھا تھا۔
اس نے میرا پاسپورٹ لے کر اس کے کچھ صفحات پلٹے، عقابی نگاہوں سے میرا جائزہ لیا اور پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا، ’پہلی دفعہ جارہے ہیں؟‘
’جی پہلی دفعہ‘، میں نے کہا۔
اس نے پھر میرے چہرے کا جائزہ لیا۔ ایک غیر محسوس ہنکارا بھرا، ایگزٹ کی مہر اٹھائی اور کھٹاک سے پاسپورٹ پر چھاپ دی۔ مجھے اچانک سُست میں موجود ساری چیز یں خوبصورت لگنے لگیں۔ ہم چین جارہے تھے۔
کسٹم کی عمارت کے سامنے ایک قطار میں بھانت بھانت کے تھیلے پڑے تھے اور تھیلوں کے برابر میں ان کے مالکان کی قطار تھی۔ گھنی داڑھی والا کسٹم اہلکار ہاتھ میں رجسٹر لیے سامان چیک کرتے ہوئے مالکان سے باری باری پوچھ گچھ کررہا تھا اور ساتھ ہی رجسٹر میں اندراج بھی کرتا جارہا تھا۔ قطار میں ہمارے علاوہ دو جرمن بوڑھے بھی تھے جو شاید ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی نیک کمائی خرچ کرکے قراقرم کے پار کا دیس دیکھنے چلے آئے تھے۔ ایک بھورے بالوں اور سنہری مونچھوں والا جرمن، ایک لمبی اور خوش شکل یورپی دوشیزہ، ایک امریکی مرد اور ایک معصوم صورت عینک پوش ہانگ کانگ کا لڑکا جو امریکی سے اپنی توتلی انگلش میں بے تکان بولے جارہا تھا جبکہ امریکی اس کے طویل اٹکتے جملے کا جواب اپنے براڈکاسٹر لہجے کے ساتھ ایک ہی جملے میں دے رہا تھا۔
ہماری باری آنے پر اہلکار نے ہمارے سامان کا سرسری جائزہ لیا، رجسٹر میں کچھ اندراجات کیے اور پاسپورٹ ہمارے حوالے کردیا۔ کسٹم چیکنگ کے ساتھ ساتھ نیٹکو کا ایک ملازم ہمارا سامان بس کی چھت پر رکھتا جارہا تھا۔ ہم نے بھی اس کی مدد سے اپنے تھیلے چھت پر محفوظ کروائے اور بس کے اندر داخل ہوگئے۔
جاپانی کوسٹر اپنے آرام و آسائش کے ساتھ مسافروں کی منتظر تھی۔ میں آگے بڑھ کر ونڈ اسکرین کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں سنہری مونچھوں والا جرمن اور پچھلی سیٹ پر اس کی ساتھی سنہرے بالوں والی لڑکی بیٹھی تھی۔ تھے تو یہ دونوں ساتھ ساتھ ہی مگر نہ جانے کیوں الگ الگ بیٹھ گئے تھے۔ ہیلو ہیلو کا سرسری سا تبادلہ ہوا اور پھر خاموشی۔ وہ شاید کم گو تھے۔
تھوڑی دیر میں بقیہ مسافر بھی اندر آگئے۔ بس میں سوار ہوتے ہوئے میں نے ان پاکستانیوں کوبھی دیکھا جو کچھ دیر پہلے باہر نظر آئے تھے۔ ان میں تین لڑکے بھی تھے جو آپس میں بھائی لگ رہے تھے۔ ان کے علاوہ جوان نظر آنے کی کوشش کرتی ایک بڑی بی، ایک دوشیزہ جو شاید اس کی بیٹی تھی، ایک کمسن بچہ اور ایک بچی۔ کچھ دیر بعد ڈرائیور ڈور جھٹکے سے کھلا اور ایک سخت چہرے والا گلگتی ڈرائیور اندر آگیا اور سب مسافروں کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ اس نے سیٹ پر بیٹھنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’آپ لوگ تیار ہیں؟‘ اس کا کرخت چہرہ ایک لمحے کے لیے مسکرایا۔
’ہمارے تیار ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔۔۔ آپ تیار تو ہم بھی تیار‘، ایک مسافر نے ہنس کر کہا تو سب مسکرا اٹھے۔ ڈرائیور نے سر ہلا کر اگنیشن میں چابی گھمائی اور انجن ایک ہلکی سی غراہٹ کے ساتھ اسٹارٹ ہوگیا۔ روڈ پر لگا ہوا رکاوٹی شہتیر ہٹالیا گیا اور ہم چین کی طرف روانہ ہوگئے۔
سڑک دریا کے ساتھ ساتھ ہی چل رہی تھی۔ دریا کا شفاف پانی پتھروں سے ٹکراتا جھاگ اڑاتا سُست کی طرف بہتا چلا جارہا تھا مگر اس کے بہاؤ کی آواز بس کے شیشوں نے روک رکھی تھی، ہم بس ایک تصوراتی سماعت سے اس پانی کا شور سن رہے تھے۔ دریا کے دونوں اطراف والے پہاڑ اب بہت قریب تھے اور ان کی بلندی و قربت نے ہمیں قید سا کردیا تھا۔ ڈرائیور ماہر تھا اور بس کو ایک اطمینان بخش رفتار سے موڑ در موڑ بھگائے جارہا تھا۔ میں اپنا کیمرا آنکھ سے لگائے ونڈ اسکرین کے بالکل سامنے بیٹھنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تصاویر کھینچتا رہا۔
جرمن سیاح میرے ساتھ خاموش بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کچھ بات چیت کی کوشش کی مگر شاید اس کی طبیعت خراب تھی یا شاید وہ زیادہ بے تکلف ہونے والا آدمی نہیں تھا بلکہ میں نے نوٹ کیا کہ بس میں جتنے غیر ملکی سیاح تھے وہ یا تو صرف آپس میں بات چیت کررہے تھے یا خاموش تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پاکستانی مسافروں سے بات نہیں کررہا تھا۔ ہانگ کانگ کے لڑکے اور امریکی نے البتہ اپنی گفتگو جاری رکھی ہوئی تھی جبکہ دونوں جرمن بوڑھے خاموشی سے بیٹھے چیونگم چبارہے تھے۔ میں بھی خاموشی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا۔
سڑک پر ایک رکاوٹی شہتیر نظر آیا۔ بس قریب آ کر رک گئی۔ یہاں ’خنجراب نیشنل پارک‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ سب نیچے اتر آئے۔ شہتیر کے ساتھ وہ تینوں پاکستانی لڑکے باتیں کررہے تھے تو ہم بھی ان کی طرف بڑھ گئے۔
’ہم آپ تینوں کو کافی دیر سے دیکھ رہے ہیں، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘ ان میں سے سب سے چھوٹے نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’اور ہم بھی آپ تینوں کو کافی دیر سے دیکھ رہے ہیں، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘ میں جواباً وہی جملہ بولا تو سب ہنسنے لگے۔
’ہم تو کراچی سے آئے ہیں‘، میں نے کہا۔
’آپ کاشغر سیر کے لیے جارہے ہیں یا بزنس کے لیے؟‘ اس نے پوچھا۔
’ہم تو صرف سیاحت کے لیے جارہے ہیں، میرا نام عبیداللہ ہے‘، میں نے تعارف کی ابتدا کی۔
’میں وسیم مرزا ہوں اور اندر بس میں ہمارا دوست عبدالباسط ہے‘، وسیم بولا۔
’ہم تینوں بھائی ہیں‘، بڑا والا بولا۔
’میں شمس ہوں، یہ قمر اور وہ ارشد‘، اس نے سب کا تعارف کراویا۔
’ہم راولپنڈی میں رہتے ہیں لیکن ہمارا ننھیال چین میں ہے۔ ہمارے رشتے دار کاشغر، یارقند اور اُرمچی تک پورے سنکیانگ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم کاشغر پہنچ کر اگلے ہی دن یارقند روانہ ہوجائیں گے۔ کاشغر تک آپ کے ساتھ سفر اچھا رہے گا‘، اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔
’ان شااللہ‘، میں بولا۔
پاکستانی خاتون کا نام شمس نے مسز وحید بتایا تھا جس کے دونوں چھوٹے بچے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور بڑی لڑکی شال اوڑھے سڑک کنارے خاموش کھڑی تھی۔ جرمن جوڑا اندر ہی بیٹھا رہا۔ جرمن بڈھے اپنے کیمروں کے لینس سنبھالے ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ ہانگ کانگ والا بدستور امریکی کے کان کھارہا تھا۔ جرمن سیاحوں کے ہاتھ میں کیمرے دیکھ کر ان دونوں نے بھی جوش میں آکر اپنے کیمرے نکال لیے تھے اور اب ان سب میں ہانگ کانگ، امریکا اور جرمنی میں کیمروں کی قیمت پر بحث چھڑ گئی تھی۔ بحث کا ہیرو ہانگ کانگ والا لڑکا بنا کیونکہ وہاں قیمتیں سب سے کم تھیں۔
ہم اس وقت جس جگہ کھڑے تھے یہاں بائیں طرف کے پہاڑوں میں کہیں وادی مسگر (Misgar) پوشیدہ تھی۔ مسگر، جہاں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے چین کا راستہ گزرتا تھا۔
بعدازاں 2021ء میں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ مسگر بھی گیا جو شاہراہِ قراقرم سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کی بلندی میں ایک خاموش اور پُراسرار گاؤں ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے چین جانے کے لیے یہی مسگر والا راستہ استعمال ہوتا تھا۔ مسگر سے آگے چین کے لیے دو پہاڑی درے منتاکا پاس (Mintaka Pass) اور کلک پاس (Kilik Pass) استعمال ہوتے تھے۔ مسگر میں انگریزوں نے 1932ء میں ایک سرحدی حفاظتی قلعہ ’قلمدرچی‘ بھی تعمیر کیا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ یہ قلعہ انگریزوں نے اس علاقے میں خصوصاً چینی اور روسیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔
مسگر ضلع ہنزہ کے شمالی کنارے اس مقام پر واقع ہے جہاں پاکستان کی سرحدیں سنکیانگ اور واخان سے ملتی ہیں۔ واخان افغان سرزمین کی 13 کلومیٹر سے 65 کلومیٹر تک چوڑی ایک پٹی ہے جو سابقہ سوویت یونین اور موجودہ تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتی ہے۔ یہی واخان کی پٹی ایک انگلی کی طرح پاکستان اور تاجکستان کے درمیان سے گزرتی ہوئی افغانستان کو چین سے ملاتی ہے۔ واخان کی پٹی مسگر سے چترال تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان 350 کلومیٹر طویل سرحد بناتی ہے جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان مسگر سے اسکردو تک سرحد کی طوالت 560 کلومیٹر بنتی ہے۔
اس طرح پاکستان، چین، افغانستان اور تاجکستان، چار ممالک کا سنگم جس پاکستانی قصبے کے قریب ہے وہ یہی مسگر ہے۔ 2021ء میں جب میں مسگر گیا تو وہ مجھے ایک چھوٹا سا دور افتادہ اور غیر اہم سا گاؤں لگا۔
حالانکہ یہ علاقہ دنیا میں ایک بہت اہم جغرافیائی محلِ وقوع کا حامل ہے۔ مسگر کے قریب درہ کلک اور درہ منتاکا، قدیم شاہراہ ریشم کے اہم پڑاؤ تھے۔ شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے پہلے یہی گزرگاہیں ماضی میں ہندوستان کو چین سے ملاتی تھیں۔
انگریزوں نے 1892ء میں جب اس علاقے پر قبضہ جمایا تو مسگر کی اسی اہم گزرگاہ کو کنٹرول کرنے کے لیے قلعہ قلمدرچی تعمیر کیا گیا۔
قدیم زمانے میں منتاکا پاس اور کلک پاس ہندوستان سے سنکیانگ کے لیے سب سے مختصر راستے تھے جو عموماً سارا سال کھلے رہتے تھے لیکن یہ راستے انتہائی خطرناک اور صرف پیدل سفر کے لیے ہی موزوں تھے۔ یہاں سے چین کا پہلا قصبہ تاشقرغان تقریباً 150 کلومیٹر دور تھا۔
1966ء میں جب پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم تعمیر کی جارہی تھی، پاکستان نے ابتدائی طور پر منتاکا پاس ہی کے راستے تعمیر کی حمایت کی لیکن چین نے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر خنجراب پاس کی سفارش کی۔ چنانچہ نئی شاہراہ قراقرم درہ خنجراب سے ہوتی ہوئی بنائی گئی تو مسگر ویران ہوگیا۔
ارشاد پاس سطح سمندر سے 16 ہزار 300 فٹ بلندی پر واقع قدیم گزرگاہ ہے جو صدیوں سے پاکستان کو افغانستان کے علاقے واخان سے ملاتی ہے۔ افغانستان کے علاقے غند سے ہجرت کرکے آئے ہوئے معروف بزرگ بابا غندی کا مزار بھی یہیں ارشاد پاس کے قریب وادی چپورسن میں ہے۔
لیکن یہ تمام معلومات تو مجھے بہت سالوں بعد حاصل ہوئیں۔ اس وقت تو ہم سُست سے چین جارہے تھے اور کچھ دیر کے لیے شاہراہ قراقرم پر رکے تھے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور نے ہارن بجا دیا۔ سب پھر بس میں بیٹھ گئے۔ میں بھی اگلی سیٹ چھوڑ کرپیچھے آگیا۔ شمس نے اپنے بیگ میں سے کچھ کیسٹ نکالے اور ڈرائیور کو تھما دیے اور ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں کے درمیان اس ویرانی میں ہماری بس ساز و آواز سے گونجنے لگی۔
خنجراب نیشنل پارک کی حدود میں یاک چررہے تھے۔ ان کے کالے کالے بال زمین تک لٹک کر گھسٹ رہے تھے۔ سڑک کی سطح دھلی ہوئی لگ رہی تھی۔ یہ کل رات کی بارش کا اثر تھا۔ دریا کا پاٹ جو پہلے تنگ تھا، اب چوڑا ہوتا جارہا تھا۔ بالآخر ایک جگہ دریا کا رخ بھی بدل گیا اور وہ دائیں طرف کے پہاڑوں میں دور برف سے ڈھکی ہوئی دو سفید مثلث جڑواں چوٹیوں کی طرف چلا گیا۔ وہ جڑواں چوٹیاں اپنی سفید براق نوکیں آسمان میں چبھوئے کھڑی دھواں دے رہی تھیں اور ان کا حسن خیرہ کن تھا۔ سیاح بے تاب ہوگئے اور سب کے کیمرے باہر نکل آئے تھے۔ سخت سرد ہوا کے باوجود سب نے کھڑکیاں کھول کر اپنے کیمروں کا رخ ان حسین چوٹیوں کی طرف کردیا تھا۔
ڈرائیور نے ہمارا اشتیاق دیکھا تو گاڑی کچھ دیرکے لیے روک دی۔ سیاحوں کو یہ بے تابی دیکھ کر شمس برادران ہنسنے لگے۔ ’ہم اس راستے سے اتنی بار گزرے ہیں کہ اب یہ منظر ہمارے لیے خاص اہمیت نہیں رکھتے، ہم تو بس اسی فکر میں رہتے ہیں کہ یہ سفر جلدی سے ختم ہوجائے‘، شمس بولا اور مجھے اس کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔
کچھ دیر میں ڈرائیور نے گاڑی دوبارہ چلادی تھی۔ اب سڑک لحظہ بہ لحظہ بلندی کی طرف مائل تھی۔ جون کا مہینہ تھا مگر اس بلندی پر درجہ حرارت منفی کی طرف مائل تھا۔ اس وقت ملک کا غالب حصہ گرمی میں جل رہا تھا اور وطن کا یہ گوشہ سردی سے جم رہا تھا۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔