گلگت بلتستان کے دلکش رنگ: ’پھول مت توڑنا ورنہ بارش ہوجائے گی‘ (دوسری قسط)
اس سلسلے کی پہلی قسط یہاں پڑھیے۔
کچورا جھیل سے واپسی پر تھکان کے باعث فوراً نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگلی صبح اٹھ کر اپنے منصوبے کے مطابق ہم سدپارہ جھیل اور پھر دیوسائی جانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔
ہم نے 14 ہزار فٹ کی بلندی پر بہ ذریعہ موٹر سائیکل جانے کا منصوبہ بنایا جوکہ توقع کے مطابق پُرخطر ضرور ہوگا لیکن لطف بھی خوب آئے گا۔ سیاح اور مقامی لوگ ہیوی موٹرسائیکلز کا استعمال کرتے ہیں لیکن ایک موٹر سائیکل پر ایک شخص ہی سوار ہوتا ہے تاکہ چڑھائی میں آسانی ہو۔ ہم نے کچھ مختلف کیا اور ڈبل سواری پر جانے کا فیصلہ کیا۔
ویسے تو دیوسائی جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک بہ راستہ اسکردو شہر ہے جس کی مسافت 35 کلومیٹر ہے جبکہ دوسرا راستہ استور کی طرف سے دیوسائی کی طرف جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاح اپنا منصوبہ کچھ یونہی بناتے ہیں کہ وہ ہنزہ گھومتے ہوئے استور سے دیوسائی پھر وہاں سے اسکردو کی سیر کو جاتے ہیں یا پھر پہلے اسکردو گھومنے کے بعد دیوسائی کی سیر کرتے ہوئے استور کی طرف جاتے ہیں تاکہ کم وقت میں ان کا ٹور مکمل ہوسکے۔
ہم نے دیوسائی میں فشنگ کا منصوبہ بھی بنایا تھا جس کے لیے ہم نے مچھلی پکڑنے والا جال اور ساتھ ہی سیلنڈر اور دیگر ضروری اشیا جیسے تیل، چھری، برتن، مصالحہ، نمک اور احتیاطاً لکڑیاں بھی رکھ لیں کیونکہ سطح زمین سے بلندی کی وجہ سے اس مقام پر آکسیجن لیول کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سیلنڈر جلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر سیلنڈر نہ جل پائے تو لکڑی جلا کر بھی ہم مچھلیاں فرائی کر سکیں۔
ہم نے موٹر سائیکل پر اپنے سفر کا آغاز کیا اور سب سے پہلے سدپارہ ڈیم پہنچے۔ سدپارہ جھیل کی بات کی جائے تو یہ سطح سمندر سے 8 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سدپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 7 دروازے ہیں۔ اس کی دونوں جانب پہاڑ ہے۔ ماضی میں اس جھیل کو سدپارہ ’ژھو‘ کہا جاتا تھا۔ ژھو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جھیل کے ہیں۔ اس جھیل میں پانی دیوسائی اور دیگر پہاڑوں سے پگھلنے والی برف سے آتا ہے۔ اس جھیل کا پانی پھر ندی اور نالوں کی ذریعے نیچے بسنے والی آبادیوں کو سیر کرتا ہوا شغرتھنگ اور ہرگیسہ نالہ، نیورنگا اور مقبون ژھر، سندوس کے علاقوں سے گزر کر دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔
آج بھی سردیوں کے موسم میں اس جھیل کا پانی کم ہوجاتا ہے جس سے پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں برف بہت تیزی سے پگھلتی ہے تو پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے جس سے زیادہ پانی کی وجہ سے آس پاس بسنے والے مقامی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے جب مختصراً علاقہ مکینوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بھی ماضی میں پانی کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال اور گھروں کو ہونے والے نقصان کی تصدیق کی۔ ایک علاقہ مکین نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیم بننے سے قبل یہاں کسی بھی وقت اچانک سیلاب کی شکل میں پانی آجاتا تھا جسے روکنا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔
ایک اور علاقہ مکین نے بتایا کہ رات جب وہ سو رہے تھے تو انہیں اپنے گھر میں پانی کی موجودگی کا احساس ہوا، آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ پورا گھر پانی پانی ہورہا تھا۔ انہوں نے فوراً گھر والوں کو جگایا پھر علاقہ مکینوں کی مدد سے اپنے گھر والوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور پھر سیلابی پانی کو روکنے کے لیے بند بنانا شروع کیا۔
انہوں نے بتایا کہ علاقہ مکین پوری رات ٹریکٹر کے ذریعے مٹی لاکر گھروں کے اطراف میں ڈالتے رہے تاکہ پانی کے تیز بہاؤ سے گھر نہ بہہ جائیں۔ البتہ اب حکومت نے اس جھیل پر ڈیم بنا دیا ہے جہاں پانی جمع کرکے حسبِ ضرورت اسکردو شہر کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
سدپارہ جھیل پہنچ کر کچھ مقامی افراد سے افواہیں سننے کو ملیں کہ حکومت نے یہ ڈیم بنا تو دیا ہے لیکن یہ پائیدار نہیں جو کسی وقت بھی بڑے حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس سے بڑی تباہی کا خدشہ ہے لیکن دوسری جانب جب ہم نے اس حوالے سے سدپارہ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ایک سرکاری اہلکار سے دریافت کیا تو انہوں نے ان تمام باتوں کی تردید کی اور انہیں من گھڑت قرار دیا۔ اس حوالے سے حکومت کو بھی باقاعدہ مؤقف دینا چاہیے تاکہ اس قسم کی افواہوں کی نفی ہوسکے اور عوام میں موجود خوف دور کیا جاسکے۔
سدپارہ ڈیم میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کی جارہی ہے جس سے علاقے کو بجلی کی فراہم کی جاتی ہے لیکن اس ڈیم میں بجلی کی پیداوار انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے پورے شہر میں بجلی کی طلب پوری نہیں ہوپاتی جوکہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ہم نے جھیل سے متعلق ایک علاقہ مکین سے بات کی تو انہوں نے ایک بزرگ فقیر کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’جھیل کے مقام پر پہلے گاؤں آباد تھا۔ ایک دن ایک بزرگ یہاں لوگوں کو آزمانے آئے تو سوائے ایک بوڑھی خاتون کے گاؤں کے کسی بھی فرد نے ان کی مدد نہیں کی جس پر اس بزرگ نے ناراض ہوکر بددعا دی جس کی وجہ سے پورا گاؤں الٹ گیا اور اس جگہ زمین سے پانی نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک جھیل کی شکل اختیار کرگیا۔ کہا جاتا ہے اس پورے معاملے میں مدد کرنے والی بوڑھی خاتون اور اس کا گھر محفوظ رہا‘۔
سدپارہ جھیل کا پانی ہلکے نیلے آسمانی رنگ کا ہے کہ گویا قدرت نے یہاں جھیل کو الگ ہی رنگ دیا ہو۔
میری جس جس رہائشی سے بات ہوئی، اس نے اس جھیل کے حوالے سے منفرد بات بتائی۔ ایک اور مقامی نے بتایا کہ اس جھیل کے بیچ ایک پہاڑ کی چوٹی بھی ہے جو گرمیوں میں پانی کی سطح میں اضافے کی وجہ سے ڈوب جاتی ہے اور سطح کم ہونے پر ظاہر ہوجاتی ہے۔ ڈیم بننے سے قبل یہاں ہوٹل بھی تھے جوکہ ڈیم کی تعمیر کے بعد پانی کی نذر ہوگئے۔ پانی کی شفافیت کی وجہ سے جھیل کنارے ڈوبنے والے ہوٹل کو پانی کی سطح پر باآسانی دیکھا جاسکتے ہیں لیکن اب کافی زیادہ سال گزرنے کی وجہ سے ہوٹلز کے آثار بھی ختم ہورہے ہیں۔
سدپارہ جھیل کی دوسری طرف سدپارہ گاؤں آباد ہے جہاں سے ہمارے بہت سے قومی ہیروز کا تعلق ہے جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما حسن سدپارہ، علی سدپارہ اور ان جیسے درجنوں کوہ پیما جو اب بھی ملک و قوم کا نام روشن کرنے کے مشن میں مصروف ہیں۔
دیوسائی جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے یہ سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ دیوسائی کو ماضی میں جنوں کی سرزمین بھی کہا جاتا تھا جبکہ بلتی لوگ اسے پھولوں کی سرزمین بھی کہتے ہیں۔ 3 ہزار کلومیٹر پر پھیلا یہ مقام سال میں 6 سے 7 ماہ برف میں ڈھکا رہتا ہے جس کی وجہ سے دیوسائی سیاحوں کے لیے ناقابلِ رسائی ہوتا ہے۔ جب سیاحوں کی آمد کا موسم ہوتا ہے تو یہاں کئی اقسام کی پھول اُگتے ہیں جوس سے یہاں کا منظر منفرد ہوجاتا ہے۔
اتنی اونچائی پر جھیلوں کا وجود بھی انسان کو حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس جھیل کا شمار دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے نایاب نسل کے بھورے ریچھ بھی دیوسائی میں پائے جاتے ہیں جنہیں متعدد بار سیاحوں نے دیکھا بھی ہے اور ویڈیوز بھی بنائی ہیں جو گزشتہ ادوار میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔
یہاں ریچھ کے علاوہ مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل)، تبتی بھیڑیے، لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے پائے جاتے ہیں جبکہ یہاں گولڈن ایگل اور داڑھی والے عقاب سمیت سیکڑوں منفرد پرندے بھی پائے جاتے ہیں اور چونکہ یہاں درخت نہیں ہیں اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں 150 سے زائد قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی موجود ہیں۔
اس مقام پر سردیوں میں کئی کئی فٹ برف جمع ہوجاتی ہے اور جب یہ برف پگھلتی ہے تو اس کا پانی ندی نالوں کی شکل میں مختلف راستوں سے گزرتا ہوا سدپارہ جھیل اور پھر دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔
دیوسائی جانے کے لیے چیک پوسٹ پر مختص فیس ادا کرنی پڑتی ہے جو تقریباً 30 روپے ہے اور اس فیس کا مقصد یہاں پر پائے جانے والے جانوروں کا تحفظ اور دیوسائی کی دیکھ بھال کے اخراجات میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ہم نے بھی چیک پوسٹ پر فیس ادا کی اور آگے بڑھ گئے۔
دیوسائی کی طرف جاتا راستہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل پر سفر کو دشوار بنا رہا تھا۔ راستہ کہیں مشکل تو کہیں سہل تھا مگر چاروں طرف قدرت کے نظاروں کو دیکھتے ہوئے سفر کا لطف بھی خوب آرہا تھا۔
میں پہلی دفعہ ایسے راستے پر بائیک چلا رہا تھا تو یقیناً خوفزدہ تھا مگر ایڈونچر کرنے کا شوق بھی بہت تھا۔ ایک مقام پر میں نے بائیک روکی تو دوست نے کہا، ’یہاں بائیک نہیں روکو بلکہ تھوڑا آگے چل کر روکنا‘۔
میں حیران ہوا اور پوچھا، ’کیوں؟‘
جس پر اس نے ایک جانب اشارہ کرکے پتھر کے اوپر پتھر رکھ کر بنائی گئی نشانی دکھائی اور بتایا کہ یہ لینڈ سلائیڈنگ ایریا ہے اس لیے یہاں رکنا مناسب نہیں ہوگا’۔
یہ سن کر ہم سب نے بائیک آگے ایک مقام پر روکی۔ 10 منٹ کے وقفے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ جیسے جیسے ہم اونچائی پر جارہے تھے، خوف میں اضافہ ہوتا جارہا تھا کیونکہ جس سڑک پر ہم گامزن تھے وہ اتنی خوفناک تھی کہ ایک جانب پہاڑ تو دوسری جانب کھائی۔ راستہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی گزر پائے اگر دوسری جانب سے کوئی گاڑی آجائے تو پھر ڈرائیور کی مہارت کا امتحان ہوجاتا ہے۔
بالآخر ہم دنیا کی چھت یعنی دیوسائی پہنچ گئے۔ آخری چڑھائی چڑھتے ہی ایک خوبصورت ترین میدان ہمارا منتظر تھا جہاں قدرت کا بے مثال حسن دل موہ رہا تھا۔ ہر طرف ہریالی، نگاہوں کے سامنے قد برابر پہاڑ کی چوٹیاں موجود تھیں۔ جیسے آپ ہاتھ اٹھائیں تو بادلوں کو چھو لیں۔ اس وقت ہم سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر تھے۔ ہر طرف قدرت کا نظارہ دیکھ کر کچھ لمحوں کے لیے ان مناظر میں کھو گئے۔
دیوسائی کی ہری بھری زمین پر ہر طرف رنگ برنگے خوبصورت پھول، سیکڑوں قسم کی جڑی بوٹیوں کے پودے موجود تھے۔ میں نظارے میں کھو سا گیا کہ میرے دوست نے ایک دلچسپ بات بتا کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا، ’یہاں اگر پھول توڑتے ہیں تو بارش ہوجائے گی‘۔
یہ سن کر ہم سب ہنس پڑے لیکن اب یہ اتفاق تھا یا حقیقت معلوم نہیں کیونکہ پھول توڑنے کے واقعی کچھ دیر بعد بادل کا کالا ٹکڑا سامنے سے آتا دکھائی دیا اور بارش برسا کر گزر گیا۔ پہلے تو مجھے یہ اتفاق لگا لیکن گاہے بگاہے ہم پھول توڑتے رہے اور بادل یونہی پانی برساتے رہے۔ پھر مجھے دوست کی باتوں پر تھوڑا تھوڑا یقین آنے لگا۔ کبھی آپ اس علاقے کی سیر کو جائیں تو اس عمل کو کرکے دیکھیے گا ہوسکتا ہے کہ یہ اتفاق ہو لیکن اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ واقعی قدرت کا عجب کرشمہ ہے۔
کچھ دیر بعد ہم نے آف روڈ سفر شروع کردیا۔ جہاں اونچے نیچے راستے سے گزرتے ہوئے ندی کے قریب بائیک روکی اور پھر اپنا سامان نکالنا شروع کیا۔ منصوبے کے مطابق تمام سامان نکال کر ترتیب دیا اور پھر ندی سے مچھلیوں کا شکار شروع کیا۔ ہم نے کچھ ہی وقت میں کافی مچھلیاں پکڑ لیں جو ہمارے لیے کافی تھیں۔
ابھی مچھلیاں پکڑی ہی تھیں کہ دیوسائی پولیس وہاں پہنچ گئی اور کہا کہ مچھلیوں کے شکار کے لیے آپ کو اجازت نامہ لینا ہوگا جس کے تحت آپ کتنی مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں، بتایا جاتا ہے۔ اجازت نامے کی فیس بھی لی جاتی ہے جس کا مقصد مچھلیوں کو خوراک فراہم کرنا اور انہیں معدوم ہونے سے بچانا ہے۔ مچھلی کے شکار کی حد کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شکار کرنے والوں کا شوق بھی پورا ہو اور تیزی سے ان کی تعداد میں کمی بھی واقع نہ ہو۔
ہم نے پکڑی ہوئی مچھلیاں رکھنے کی اجازت طلب کی تو پولیس نے مزید مچھلیاں نہ پکڑنے کی شرط پر اجازت دے دی۔ ہم نے وہیں مچھلیاں کاٹ کر صاف کیں اور پھر مصالحہ لگا کر تلنے لگے۔ جیسے جیسے مچھلیاں پکتی جارہی تھیں ہماری بھوک مزید کھلتی جارہی تھی۔ سرد موسم، ندی کے کنارے، بادلوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر گرما گرم تازہ مچھلی پکا کر کھانا خوب پُرلطف تھا۔
شام ہورہی تھی تو اب ہم نے جلدی جلدی مچھلی کھا کر اپنا سامان سمیٹا اور پھر اگلی جھیل کی جانب چل پڑے۔
اس جھیل کا نام شاؤسر جھیل ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 2.3 کلومیٹر ، چوڑائی 1.8 کلومیٹر ہے جبکہ گہرائی تقریباً 130 فٹ ہے۔
شاؤسر جھیل میں پانی کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے، معلوم نہیں ہوسکا اس لیے لوگ اسے ’اندھی جھیل‘ کہتے ہیں۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پانی کم یا زیادہ نہیں ہوتا بلکہ یکساں رہتا ہے۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ کے علاوہ دیگر اقسام کی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
ہم نے شاؤسر جھیل کے کنارے چائے بنا کر پی اور پھر جھیل کے اطراف چہل قدمی کرکے قدرت کے نظارے کا لطف اٹھایا۔
رات ہوئی تو ہم مزید آگے نہیں جاسکے لیکن میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ شاؤسر جھیل سے آگے کالا پانی نامی دریا عبور کرکے بڑا پانی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے اس لیے اس کا نام بڑا پانی ہے۔ دریا کو کالا پانی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ دریا کی تہہ میں پائے جانے والے پتھر سیاہ ہیں۔ اور اس دریا کو عبور کرنے کے لیے گاڑیاں اس کے اندر سے گزرتی ہیں۔
تھوڑا آگے جائیں تو دیوسائی کا پُل آتا ہے جوکہ لکڑیوں اور تاروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس پُل کے آگے کے علاقے میں داخلہ ممنوع ہے جبکہ وہاں محکمہ وائلڈ لائف کی ٹیمیں موجود ہوتی ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھورے ریچھوں کا علاقہ ہے۔ اگر آپ بھورے ریچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔
میرے نزدیک اگر آپ کو دیوسائی کا مکمل لطف اٹھانا ہے تو آپ کو یہاں کم از کم دو دن ضرور رکنا چاہیے جہاں آپ کیمپ لگا کر رات گزار سکتے ہیں۔ متعدد سیاح کیمپ لگاتے ہیں اور رات آگ کے گرد بیٹھ کر محفلِ موسیقی سجاتے ہیں اور اپنے سفر کو یادگار بناتے ہیں۔
واپسی پر کیونکہ اندھیرا ہوگیا تھا اور سردی کی شدت میں بھی کافی اضافہ ہوگیا تھا اس لیے مجھ سے بائیک نہیں چلائی جارہی رہی تھی جس کے بعد میرے دوست نے بائیک چلائی۔
اپنی رہائش تک پہنچتے پہنچتے ہمیں کافی دیر ہوچکی تھی۔ سونے سے قبل ہم نے اگلے روز کھرمنگ گاؤں، منٹھوکھا اور خموش آبشار جانے کا منصوبہ بنایا۔ اب اگلے روز کی روداد اگلی قسط میں سناؤں گا۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر بھی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر اور انسٹاگرام imuntazirayub@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔