• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فلسطین میں جاری نسل کشی مذہبی ہے یا صرف زمین پر قبضے کی جنگ؟

ہم سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ نفسیات ڈیتھ ڈرائیو سے تو واقف ہیں جس میں انسان تباہی اور تکالیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے، غزہ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
شائع May 30, 2024

یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ تاریخ کی بدترین جنگیں جن میں سب سے زیادہ خونریزی ہوئی، مذہب کے نام پر لڑی گئیں لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔

تاریخ کے تمام جارحانہ تنازعات کا جنم سیکیولر، جدیدیت پسند اور منطق کے مطابق ہوا۔ یہ سچ ہے کہ صلیبی جنگیں، ہسپانوی جنگیں اور قرون وسطیٰ میں صدیوں تک لڑی گئیں دیگر مذہبی جنگوں میں ہمیشہ سیکیولر مفادات چھپے تھے جیسے معیشت اور اقتدار کی سیاست وغیرہ لیکن اگر ان جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد کو دیکھیں تو حالیہ ادوار میں ہونے والی جنگوں نے صدیوں چلنے والی ان مذہبی جنگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں 4 کروڑ ہلاکتیں ہوئیں، دوسری جنگِ عظیم میں 5 کروڑ افراد لقمہ اجل بنے، جوزف اسٹالن سوویت یونین کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے لاکھوں لوگوں کے قتل کے مرتکب ٹھہرے (اگر 2 کروڑ افراد کی ہلاکت کے امریکی پروپیگنڈا کو تسلیم کریں) جبکہ کمبوڈیا کے آمر پول پوٹ کو 20 لاکھ ساتھی کمبوڈین کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا (اس معاملے میں بھی ہلاکتوں کی تعداد پر اختلافات ہیں)۔

تمام جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے لیکن جب ہم لوگ کچھ لاکھ کم یا کچھ لاکھ زیادہ کے حوالے سے بحث کرنے لگتے ہیں تو ہم ایسے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں کہ جہاں انسانیت کو اعداد کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔

  اسرائیل-فلسطین تنازع سے مذہب کے عنصر کو الگ نہیں کیا جاسکتا—تصویر: رائٹرز
اسرائیل-فلسطین تنازع سے مذہب کے عنصر کو الگ نہیں کیا جاسکتا—تصویر: رائٹرز

’انسانی جانوں کی پیمائش اعداد میں نہیں ہوسکتی‘

اگر آج کے دور میں ہونی والی جنگوں سے پرانے دور کا موازنہ کریں تو حالیہ تاریخ کے نام نہاد مذہبی تنازعات سے مختلف مقاصد جڑے ہوتے ہیں۔ یوگوسلاو جنگیں جو بہ ظاہر نہ ختم ہونے والی کیتھولک/آرتھوڈوکس دشمنی سے وابستہ تھیں، ان میں ایک لاکھ 40 ہزار اموات ہوئیں جبکہ عراق اور شام میں انتہا پسند گروہ داعش کی دہشتگردی سے (اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ) 35 ہزار سے زائد اموات نہیں ہوئیں۔

حتیٰ کہ تقسیمِ ہند کے موقع پر ہونے والے ہندو/مسلم فسادات میں ’صرف‘ 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جوکہ 20ویں صدی میں لڑی جانے والی سیکیولر جنگِ عظیم اول اور دوم کے مقابلے میں ’بہت کم‘ تعداد ہیں۔ لیکن تقسیمِ ہند میں یہ 10 لاکھ ہلاکتیں بھی اذیت ناک تھیں کہ جہاں بھائی اپنے بھائی اور پڑوسی اپنے پڑوسی کے خلاف ہوچکا تھا۔ ان فسادات سے ہونے والے جانی نقصان کا درد اب بھی جس طرح محسوس کیا جاسکتا ہے جس کا مقابلہ عالمی جنگوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔

اب تک کی گئی گفتگو سے دو نکات اخذ کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ تاثر بالکل درست نہیں کہ تاریخ میں ہونے والی جارحانہ جنگیں اور قتل عام، مذہب کی وجہ سے ہوئے۔ کیونکہ حقائق اس کے منافی ہیں اور اس قدر الٹ ہیں کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوگی کہ ان جنگوں سے کس کس نے اور کس کس طرح فائدہ اٹھایا ہے۔

اس کے علاوہ جہاں روشن خیال نظریات یا کمیونزم جیسے یوٹوپیائی منصوبوں سے چلنے والی سیکیولر سیاست نے انسانی جانوں کو اعداد سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا اور افراد پر اپنے مفادات کو فوقیت دی، وہیں مذہب ہی ہے جس نے انسان کی روح کو اہمیت دی جوکہ ہر جسم کو دوسرے سے منفرد بناتی ہے۔ مذہب نے موت کے بعد کی زندگی میں روح کو اہمیت دی کہ جہاں وہ اجتماعی مفادات سے آزاد ہوتی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر شہادت کا تصور جس کا سیکیولر نظریات میں کوئی متبادل موجود نہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پُرتشدد تنازعات میں ہونے والی اذیتوں کو اعداد میں نہیں ماپا جاسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اپنے قریبی کو کھونے کا دکھ دیگر جنگوں میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی وجہ سے کم ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ چاہیں دور دراز علاقوں میں لڑی جانے والی جنگوں سے آپ کتنی ہی یکجہتی کا مظاہرہ کیوں نہ کریں، آپ اس طرح کا دکھ کبھی محسوس نہیں کرپائیں گے جوکہ کسی اپنے قریبی شخص کو کھونے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔

  اتوار کی شب اسرائیل نے رفع میں پناہ گزین پر بمباری کی—تصویر: ایکس
اتوار کی شب اسرائیل نے رفع میں پناہ گزین پر بمباری کی—تصویر: ایکس

سیکیولر بامقابلہ مذہبی

میں اب اپنے ان خیالات کو قضیہ فلسطین کے تناظر میں پیش کرتا ہوں جوکہ اس وقت سب سے زیادہ مصائب کا شکار ہے۔ فلسطین جہاں سیکیولر اور مذہبی نظریات کا تصادم پیچیدہ متضاد انداز میں ہوتا ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسرائیل-فلسطین کا تنازع، نوآبادیاتی تنازع ہے۔ یعنی یہ ایک سیکیولر تنازع ہے کہ جس میں فلسطین، غاصب قوت اسرائیل کے خلاف مزاحمت کررہا ہے۔ نوآبادیاتی قوت کا مقابلہ کرنے کا سب سے بڑا جواز ان کے پاس یہ ہے کہ اسرائیل بنیادی انسانی وقار اور انصاف کا انکاری ہے۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ فلسطین پر قبضے کے اس بنیادی ڈھانچے میں دیگر مفادات کے ساتھ ساتھ اہم مذہبی مقاصد بھی شامل ہیں۔

نصف صدی سے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے عالمی رہنماؤں نے ممکنہ عالمی انقلاب کے حوالے سے فلسطین کے انقلاب کو قریب سے دیکھا ہے۔ اسی طرح ایک صدی سے مسلمانوں نے فلسطینیوں کے مصائب کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے مصائب سمجھا ہے جبکہ فلسطین پر یہودی تسلط کو مسلمانوں کی خودمختاری کو کم کرنے کے تسلسل کی کڑی قرار دیا۔

اسرائیلیوں نے بھی نوآبادیات کے نظریات، نسلی برتری سائنسی تصورات کے مطابق نہیں بنائے (جیسے جرمنی میں نازیوں نے کیا) بلکہ انہوں نے یہودی برتری کے نظریات کو بائبل میں ہونے والی پیش گوئیوں سے اخذ کیا ہے۔

ماضی اور جدید ادوار میں سیکیولر یہودی دانشوروں نے کوششیں کیں کہ مذہب سے صہیونیت کو الگ کیا جائے لیکن یہودیوں اور فلسطین کے درمیان بنیادی تعلق کے شواہد توریت، مشناہ اور تلمود سے ملتے ہیں جوکہ یہودیت کی مقدس کتابیں ہیں۔

  یہودیت کی مقدس کتابوں میں فلسطین کی زمین کو یہودیوں سے منسلک کیا گیا ہے—تصویر: انسٹاگرام
یہودیت کی مقدس کتابوں میں فلسطین کی زمین کو یہودیوں سے منسلک کیا گیا ہے—تصویر: انسٹاگرام

اسی طرح وہ اسرائیلی جو اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ان کی نو آبادیاتی رعایا فطری طور پر یہود مخالف نظریات رکھتی ہے، ان سے پوچھا جانا چاہیے، اگر اسرائیل یہودی نہیں بلکہ ہندو یا مسیحی آبادکار ہوتے تو کیا فلسطین تب ان کے خلاف اپنی آزادی کے لیے مزاحمت نہیں کرتا؟ کچھ اسی طرح کا سوال فلسطینیوں کی سلامتی کے لیے دعاگو دنیا بھر کے مسلمانوں سے بھی پوچھا جائے کہ اگر فلسطین میں بسنے والے مسلمان نہیں بلکہ بدھ مت یا سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تو کیا امہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی؟

یہ سوالات مشکل ہیں لیکن موجودہ دور بھی تو دشوار ہے۔ غزہ میں نسل کشی کے دوران اسرائیلی افواج یہودیوں کے مذہبی نشان کے ساتھ نظر آئیں، چاہے وہ بمباری سے تباہ کیے گئے محلوں میں منورے (یہودیت کی مذہبی رسومات میں شمع جلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے) رکھنا ہو یا پھر یہودیوں کی تعطیلات میں نسل کشی کے حوالے سے خفیہ متن کو شامل کرنا ہو۔

  تباہ شدہ گھر میں رکھا گیا منورا—تصویر: ایکس
تباہ شدہ گھر میں رکھا گیا منورا—تصویر: ایکس

یہ درست ہے کہ یہ خیالات یہود مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے بالکل ویسے ہی جیسے دہشت گرد تنظیمیں یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ اسلام ان پُرتشدد نظریات کی اجازت دیتا ہے لیکن محض تجسس کے لیے اسرائیل کی جنگ میں مذہبی پہلو کو ایک جانب نہیں رکھا جاسکتا۔

غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کی ویڈیوز دیکھیں تو داعش کی یاد آجاتی ہے۔ خاص طور پر بزرگ فلسطینی کو گولی مارنے کی اسرائیلی فوجی کی ویڈیو ذہن کے پردوں پر آجاتی ہے۔ وہ فلسطینی یہود مذہب قبول کرچکا تھا لیکن فوجی نے اسے گولی ماردی کیونکہ اس کے نزدیک وہ مکمل یہودی نہیں تھا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ فوجی بزرگ شخص سے مذہب کے حوالے سے پوچھ گچھ کررہا ہے اور پھر کچھ پیچھے جاکر وہ اس شخص کو کچھ اس طرح گولی مارتا ہے کہ گویا دیکھ رہا ہو کہ کتنی دوری سے وہ کتنی مہارت سے گولی مار سکتا ہے۔ اس ظلم نے ایک دہائی قبل رقہ اور سنجار سے سامنے آنے والی ویڈیوز کی یاد تازہ کردی۔ تو اب سوال کچھ یہ بنتا ہے کہ ’کیا غزہ میں جاری نسل کشی مذہبی بنیادوں پر ہورہی ہے یا پھر سیکیولر؟ اور اگر یہ دونوں ہے (غالباً ایسا ہی ہے) تو وہ کون سا موقع ہوگا کہ جب یہ دونوں بنیادیں ایک دوسرے میں ضم ہوں گی؟

صہیونیت کا ارتقا

صہیونیت ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس میں نظریات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائی سے ہم دیکھ رہے کہ صہیونیت عالمی جذبات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے اور وہ کسی ایک پر قائم نہیں رہتی۔ عرب کی بنجر زمین پر یوٹوپیائی ریاست قائم کرنے کا یورپی یہودیوں کا بیانیہ اب جارحانہ صورت اختیار کرچکا ہے جس پر عرب اور یہودیوں میں جنگیں بھی ہوئیں جن میں یہودی فاتح بن کر ابھرے اور ان کے مطابق یہ زمین انہوں نے جیتی ہے۔

حالیہ چند سالوں میں ہم نے ترکِ نوآبادیات اور مقامیت کے حوالے سے نئی زبان کو استعمال ہوتے دیکھا ہے کہ جس میں یہودی شور کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ زمین ان کے آباؤ اجداد کی ہے لیکن کوئی ان کے اس دعوے پر توجہ نہیں دیتا۔

ان کے بیانات میں تبدیلی سے واضح ہے کہ عالمی جذبات اسرائیل پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور ان سے موافق ہونے کے لیے محنت اور مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب چونکہ فلسطین کی کہانی سے دنیا واقف ہے اور جو بھی اس کہانی کو سنتا ہے وہ بھی ان سے ہمدردی کرنے لگتا ہے، اسرائیل کو تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا سے موافق ہونے کے لیے نئی حکمتِ عملی تلاش کرنا ہوگی۔

7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ایک نئی قسم کا بیانیہ سامنے آیا۔ اس بیانیے نے اسرائیلی تاریخ کے تاریک پہلوؤں کو تسلیم کیا جن میں 1947ء اور 1948ء میں فلسطینی دیہات میں قتلِ عام، برطانیہ، سوویت یونین اور امریکا جیسی کامیاب سامراجی طاقتوں کے ساتھ اتحاد، مغربی دارالحکومت میں امن معاہدے طے کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

شاید انٹرنیٹ کے دور میں اب حقائق چھپانا ممکن نہیں رہا، وہ پہلوؤں جن پر اسرائیلی معاشرے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اب ان پر قانونی مباحثے ہورہے ہیں۔

  رفع میں قائم پناہ گزین کیمپ—تصویر: رائٹرز
رفع میں قائم پناہ گزین کیمپ—تصویر: رائٹرز

اس تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب فلسطینی بدل چکے ہیں۔ وہ جو پہلے دوریاستی ڈھانچے کو اسرائیل-فلسطین تنازع کا حل سمجھتے تھے، نوجوان فلسطینی اب الجیریا کے انقلابی ماڈل کو ماننے لگے ہیں کہ نوآبادیاتی قوت کو اپنی سرزمین سے بےدخل کرنا ہی قضیہ فلسطین کا واحد حل ہے۔ یہ کام سب فلسطینیوں کو مل کر کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کو بھی آزادی کے لیے کوشاں رہنا ہے۔ اس سے ناخوش نئی اسرائیلی آواز یہ ہے، ’ہم پناہ گزین ہیں، فلسطینی مزاحمت جیت جاتی ہے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا‘۔

اس آواز میں ایک المناک سچائی پوشیدہ ہے۔ لیکن جب میں غزہ سے سامنے آنے والی ویڈیوز دیکھتا ہوں تو ایسی اسرائیلی قوم سے ہمدردی محسوس کرنا مشکل ہوجاتا ہے جو اپنی زمین کو مستقل طور پر محفوظ کرنے کا واحد حل فلسطینیوں کی نسل کشی کو سمجھتی ہے۔ ہم سگمنڈ فرائڈ کی نفسیات کے نظریہ ڈیتھ ڈرائیو سے تو واقف ہیں جس میں انسان تباہی اور تکالیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ غزہ میں یہی کچھ ہورہا ہے اور افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

کیا اسرائیلی نوجوان تبدیلی لاسکتے ہیں؟

  کیا بڑی تعداد میں اسرائیلی نوجوان نسل کشی کے خلاف کھڑے ہوں گے؟—تصویر: ایکس
کیا بڑی تعداد میں اسرائیلی نوجوان نسل کشی کے خلاف کھڑے ہوں گے؟—تصویر: ایکس

نسل کشی پر اپنی حالیہ کتاب میں ماہر نفسیات رچرڈ ریچ مین نے فرانس میں پناہ کی طلب کرنے والوں پر سالوں تک تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور عراق سے تعلق رکھنے والے پناہ کے طالب لوگوں نے گزشتہ ایک دہائی میں بڑی تعداد میں یورپ کا رخ کیا ہے۔ جبکہ بہت سے معاملات میں تو انہوں نے ممالک کی حکومتوں سے پناہ بھی نہیں مانگی کیونکہ وہ اپنی جان کے لیے خوفزدہ ہیں۔

یہ لوگ اکثر ایک ہی مذہب اور کبھی کبھی ایک ہی جہادی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن سے فرار میں انہیں پناہ چاہیے ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی ہلاکت کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں، خاندان اور اپنی بسی بسائی دنیا چھوڑ کر آتے ہیں کیونکہ وہ جہادی گروہوں کا حصہ نہیں بننا چاہتے جو ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمانا چاہتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے ممالک سے اسی لیے فرار ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی کا قتل نہیں کرنا چاہتے۔ تو ایسے لوگوں کو مہاجر کہنا ان قربانیوں کا ثمر نہیں جو انہوں نے دی ہے۔

دنیا کے نظریات میں آتی اس تبدیلی کے تناظر میں یہ سوال ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے کہ کیا ہی ہو اگر اسرائیل کی ریزرو فوج اور فوج میں نئے نئے بھرتی ہونے والے نوجوان ایک صبح اٹھیں اور فیصلہ کریں کہ اب وہ کسی کو نہیں ماریں گے اور اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔

اگر ایسا ہوجاتا ہے تو انہیں بھی اسرائیل چھوڑنا ہوگا لیکن وہ شکست خوردہ نوآبادیاتی قوت کے طور پر نہیں بلکہ ایک پناہ کے متلاشی افراد کی طرح یہ زمین چھوڑیں گے، جرمنی، آسٹریا، سویڈن اور دیگر یورپی ممالک میں نئی زندگی بسانے والے دیگر ہزاروں یہودی نوجوانوں کی طرح جنہوں نے مذہب کے نام پر تاریخ کی بدترین نسل کشی میں حصہ لینے سے انکار کردیا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ارپن رائے
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔