• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بابر اینڈ کمپنی کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

شائع June 5, 2024

پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے امریکا میں موجود ہے جہاں وہ اپنا افتتاحی میچ بروز 6 جون امریکا کے خلاف کھیلے گی۔ تو ایسے میں کیوں نہ ہم پاکستانی اسکواڈ کا جائزہ لے لیں جو اس میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرے گا۔

اس جائزے کا آغاز اوپننگ جوڑی سے کرتے ہیں کہ جس کے بارے میں ہر پاکستانی کرکٹ شائق سوچ میں مبتلا ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ کیا صائم ایوب کو مزید مواقع ملیں گے یا پاکستانی ٹیم اپنی تجربہ کار اوپننگ جوڑی کے ساتھ میدان میں اترے گی؟ یا پھر فخر زمان یا عثمان خان میں سے کسی ایک کو بطور اوپنر آزمایا جائے گا؟

اگرچہ محمد رضوان اور بابر اعظم کی شرکت داری تسلسل سے پاکستانی ٹیم کو شاندار آغاز دے رہی تھی لیکن کبھی کبھی پاکستانی ٹیم پاور پلے کا مناسب استعمال نہیں کرپاتی اور کبھی پاور پلے کے بعد رنز بننے کی رفتار بھی کم ہوجاتی ہے۔

پاکستانی شائقین کو دونوں اوپنرز سے ایک گلہ یہ بھی ہے کہ دونوں بیس اوورز کا زیادہ تر حصہ خود کھیلتے ہیں اور دیگر بلے بازوں کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا مناسب موقع نہیں مل پاتا۔ لاتعداد شائقین اور تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ ان دونوں کو ٹیم کی بہتر کارکردگی سے کہیں زیادہ انفرادی اوسط، رنز اور ریکارڈز میں دلچسپی تھی۔

پھر ہم نے دیکھا کہ ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی مناسب نہ رہی اور بابر اعظم کے ہاتھوں سے ٹیم کی کپتانی بھی جارہی تھی تو ٹیم انتظامیہ نے سوچا کہ شاید اب وقت آچکا ہے کہ ان دونوں کی اوپننگ جوڑی سے بڑھ کر کچھ سوچا جائے۔ صائم ایوب ڈومیسٹک کرکٹ اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں عمدہ کارکردگی دکھا ہی چکے تھے تو نیوزی لینڈ میں انہیں محمد رضوان اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں بابر اعظم کے ساتھ بطور اوپنر آزمایا گیا۔ صائم ایوب نے ایک دو بار آغاز تو اچھا دیا لیکن تسلسل سے رنز بنانا تو دور کی بات صائم ایوب ٹیم کو تیز آغاز فراہم کرنے میں بھی اکثر و بیشتر ناکامی کا سامنا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ سے ڈراپ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم ایک بار پھر رضوان اور بابر کو بطور اوپنر بھیجنے لگی۔

کیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اوپننگ بابر اور رضوان کریں گے؟—تصویر: اے ایف پی
کیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اوپننگ بابر اور رضوان کریں گے؟—تصویر: اے ایف پی

تاہم یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران پاکستان ٹیم کیا حکمت عملی اپنائے گی؟

بابر اعظم اور محمد رضوان اگرچہ پاکستانی ٹیم کو تسلسل سے اچھی اوپننگ فراہم کرچکے ہیں لیکن اسٹرائیک ریٹ کے معاملے میں یہ جوڑی کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائی (چند میچز کے علاوہ)۔ 2021ء ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف ابتدائی میچ اور 2022ء ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میچ کے علاوہ ان دو ورلڈ کپ کے 13 میچز میں رضوان اور بابر کی جوڑی صرف نمیبیا کے خلاف ہی ایک بہترین شراکت داری قائم کر پائی۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم انتظامیہ کس اوپننگ جوڑی کے ساتھ ٹورنامنٹ کا آغاز کرتی ہے۔

لیکن کیا پاکستانی بیٹنگ کا مسئلہ صرف اوپننگ تک ہی محدود ہے؟ رضوان اور بابر کی اوپننگ جوڑی کے بارے میں یہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں باقی بلے بازوں کو زیادہ کھیلنے کا موقع فراہم نہیں کرتے لیکن جب کبھی یہ دونوں بلے باز جلدی پویلین لوٹ جائیں تو اکثر پاکستانی ٹیم کے لیے بیس اوورز ہی مکمل کھیل پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کے آؤٹ ہونے کے بعد ساتھی بلے باز یوں یکے بعد دیگرے پویلین لوٹتے ہیں جیسے میدان میں ان کا دل ہی نہ لگ رہا ہو۔

عثمان خان کو ابھی تک مناسب مواقع نہیں مل سکے لیکن عثمان انگلینڈ کے خلاف ایک اچھی اننگ کھیل کر ورلڈ کپ میں شرکت کررہے ہیں۔ عثمان کی تکنیک میں کچھ مسائل ضرور ہیں پر پاکستانی اسکواڈ میں شاید عثمان خان واحد بلے باز ہیں جو پہلی گیند سے ہی جارحانہ انداز میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں کس پوزیشن پر بیٹنگ کا موقع ملتا ہے، اس کی حکمت عملی بھی ابھی واضح نہیں۔

عثمان خان پہلی گیند سے جارحانہ بلے بازی کرتے ہیں—تصویر: ایکس
عثمان خان پہلی گیند سے جارحانہ بلے بازی کرتے ہیں—تصویر: ایکس

مڈل اور لیٹ آرڈر میں فخرزمان کی کارکردگی کافی بہتر ہے۔ فخر اس سال نمبر چار پر تسلسل سے رنز اسکور کرہے ہیں اور وہ رنز بنانے میں جارحانہ انداز اپنا رہے ہیں۔ فخر کو صرف اس وقت کچھ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جب ان سے مناسب ہٹنگ نہ ہو رہی ہو۔ ایسے میں شاید فخر کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کچھ وقت نان اسٹرائیک اینڈ پر گزاریں کیونکہ اسٹرائیک پر رہتے ہوئے وہ باؤلرز کو آؤٹ کرنے کے مسلسل مواقع فراہم کرنے لگتے ہیں اور کوئی بھی اچھی ٹیم ایسے مواقع ضائع نہیں کرتی۔ البتہ پاکستانی بیٹنگ کے اصل مسائل فخر زمان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

شاداب خان پی ایس ایل میں نمبر تین اور چار پر کچھ اچھی اننگز کھیل چکے ہیں اور کافی عرصے سے وہ پاکستانی ٹیم میں ٹاپ اور مڈل آرڈر میں کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔ انہیں نمبر پانچ پر کئی مواقع بھی دیے گئے لیکن ایک یا دو اننگز کے علاوہ شاداب ان مواقع سے کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ شاید شاداب خان کی خراب باؤلنگ کارکردگی ان کی بیٹنگ پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔ یا وہ بیٹنگ پر اپنی توجہ اس حد تک مرکوز کر چکے ہیں کہ اس سے ان کی باؤلنگ متاثر ہورہی ہے۔ دیکھا جائے تو انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں شاداب خان بیٹنگ میں زیادہ کامیابی چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہی حاصل کر پائے ہیں اور شاید یہی بیٹنگ پوزیشن ان کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔

شاداب خان اور فخر زمان کی بیٹنگ آرڈر میں کیا پوزیشن ہوگی؟
شاداب خان اور فخر زمان کی بیٹنگ آرڈر میں کیا پوزیشن ہوگی؟

اعظم خان لیگ کرکٹ میں اپنے شاندار اسٹرائیک ریٹ اور اسپنرز کو لمبے چھکے لگانے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں لیکن وہ اب تک انٹرنیشنل کرکٹ میں ایسی کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ انگلینڈ کے خلاف میچز میں تیز باؤلنگ پر اعظم خان کی بوکھلاہٹ صرف بیٹنگ ہی نہیں بلکہ وکٹ کیپنگ کے دوران بھی دیکھی گئی۔ کیا محمد رضوان کی موجودگی میں اعظم خان کو کیپنگ کی ذمہ داری دی جانی چاہیے؟ ڈراپ کیچز اور اسٹمپ کرنے کے مواقع ضائع کرنے کے علاوہ اعظم خان کی کیپنگ میں کوششوں کی کمی بھی نظر آئی کہ جب گیند ان کے پاس سے گزر گئی اور وہ گیند کو پکڑنے کی کوشش کرتے بھی دکھائی نہیں دیے۔

انگلینڈ کے خلاف اعظم خان بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے
انگلینڈ کے خلاف اعظم خان بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے

گزشتہ سال نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں افتخار احمد نے کچھ اچھی اننگز کھیلیں تو لگا تھا کہ اب ان کی مڈل آرڈر میں جگہ پکی ہوچکی۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی تھا کہ اب جلدی وکٹیں گر جانے کی صورت میں افتخار احمد کی صورت میں ایک ایسا بلے باز موجود ہے جو لمبی اننگ بھی کھیل سکتا ہے اور بڑے شوٹس بھی لگا سکتا ہے۔ لیکن آج ڈیڑھ سال بعد بھی افتخار نے کچھ خاص کارکردگی دکھائی نہ ہی پاکستانی ٹیم انتظامیہ نے افتخار احمد کو کسی ایک بیٹنگ پوزیشن کے قابل سمجھا ہے۔ 7ویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیج کر جانے بابر اعظم اور کوچنگ اسٹاف افتخار احمد سے کس کارکردگی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

   افتخار احمد کے لیے 7ویں نمبر کی پوزیشن موزوں نہیں؟—تصویر: ایکس
افتخار احمد کے لیے 7ویں نمبر کی پوزیشن موزوں نہیں؟—تصویر: ایکس

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے عماد وسیم کی باؤلنگ تو مناسب ہے پر جس نمبر پر وہ بیٹنگ کرتے ہیں، وہاں کھیلتے ہوئے انہیں کچھ بہتر شوٹس لگانے کی ضرورت ہے۔ عماد وسیم خاص طور پر اسپنرز کو کھیلنے میں مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ باؤلنگ میں عماد کو پاور پلے میں زیادہ استعمال نہ کیا جانا بھی پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی پلاننگ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

پاکستانی اسکواڈ میں شامل تیسرے اسپنر ابرار احمد جوکہ شاید اسکواڈ میں موجود واحد اسپنر بھی ہیں جن کی گیند کچھ حد تک گھومتی ہے۔ لیکن آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دورے پر ٹیم کے ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود ابرار احمد کو پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ابرار احمد جنہیں ’مسٹری اسپنر‘ بھی کہا جاتا ہے، انہیں اپنی مسٹریز دکھانے کے موقع سے محروم رکھا جارہا ہے۔

پاکستانی پیس اٹیک جو گزشتہ سال ایشیا کپ تک دنیا کا بہترین پیس اٹیک تھا، ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف میچ کے بعد سے شاید پاکستانی فاسٹ باؤلرز باؤلنگ کرنا ہی بھول چکے ہیں۔ کسی کی سوئنگ غائب ہوگئی تو کوئی اپنی کھوئی ہوئی رفتار ڈھونڈتا پھر رہا ہے، اسی دوران مخالف بلے باز رنز کا پہاڑ کھڑا کرچکے ہوتے ہیں۔

پچھلے چند میچز میں شاہین آفریدی نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے لیکن اگر وہ ہر گیند پر وکٹ لینے کی کوشش ترک کردیں تو ان کی کارکردگی مزید بہتر ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی شاہین آفریدی کو کپتانی سے محروم ہوجانے کا افسوس چھوڑ کر اپنی پوری توجہ کھیل بالخصوص اپنی باؤلنگ پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتدائی اسپیل میں شاہین آفریدی کی جانب سے لی گئیں وکٹس، پاکستانی ٹیم کے لیے جیت کی راہ ہموار کرتی ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب شاہین مکمل فٹ اور فارم میں ہو۔

دوسری جانب چھوٹے شاہ جی ہیں جو ایک بار ان فٹ ہونے کے بعد اپنی سوئنگ ہی کہیں چھوڑ آئے ہیں اور اپنی لینتھ بھی بھولے بیٹھے ہیں۔ نسیم شاہ کا 2022ء ورلڈ کپ فائنل میں شاندار اسپیل سوئنگ اور شاندار باؤلنگ لینتھ کی عمدہ مثال تھا۔ لیکن کیا نسیم شاہ اس ٹورنامنٹ میں وہی کارکردگی دکھا پائیں گے؟

فٹ ہوکر ٹیم میں واپسی کے بعد حارث رؤف نے اب تک صرف دو ہی میچز کھیلے ہیں لیکن اس دوران حارث کی باؤلنگ بہتر رہی۔ خاص طور پر انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ایک معمولی ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کے دھواں دھار آغاز کے بعد حارث نے ایک متاثرکُن اسپیل کیا تھا۔ حارث رؤف کو اسپیڈ کے ساتھ ساتھ اپنی لینتھ پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ جس تیزی سے گیند بلے باز کی جانب جاتی ہے، اکثر اس سے زیادہ رفتار سے باؤنڈری لائن عبور کرجاتی ہے۔

کیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پیس اٹیک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرپائے گا؟
کیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پیس اٹیک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرپائے گا؟

محمد عامر نے ریٹائرمنٹ تو واپس لے لی پر اب شاید پانی سر سے گزر چکا۔ شاید انٹرنیشنل کرکٹ سے طویل دوری نے عامر کی کارکردگی کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ صرف ٹی ٹوئنٹی لیگز اور وہ بھی ایسی ٹی ٹوئنٹی لیگز کہ جہاں مقابلے میں گنتی کے بڑے کھلاڑی ہوں، اچھے کھلاڑی کے کھیل کو بھی کم تر معیار پر لے آتی ہیں۔ لیکن کیا اب بھی محمد عامر میں اتنا دم خم ضرور ہے کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک یا دو یادگار اسپیل کروانے میں کامیاب ہوپائیں؟

عباس آفریدی کو زمان خان پر ترجیح تو دے دی گئی تھی پر ابتدائی میچز میں عباس آفریدی کی شرکت کا امکان کم ہے۔ عباس اچھی رفتار کے ساتھ عمدہ یارکرز کرتے ہیں جبکہ وہ اچھی سلو گیند اور عمدہ باؤنسرز بھی کرواتے ہیں لیکن دیگر فاسٹ باؤلرز کی نسبت تجربے کی کمی کے باعث ٹیم میں جگہ کے لیے شاید انہیں کسی باؤلر کی جانب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیے جانے کا انتظار کرنا پڑے گا۔

عباس آفریدی عمدہ یارکرز کرواتے ہیں—تصویر: ایکس
عباس آفریدی عمدہ یارکرز کرواتے ہیں—تصویر: ایکس

اگرچہ پاکستانی ٹیم کا ورلڈ کپ میں ابتدائی میچ امریکا کے خلاف ہے لیکن دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی نظریں پاکستان بھارت میچ پر جمی ہیں۔ بھارت پاکستان کا میچ اکثر بڑے ٹورنامنٹس میں دونوں ٹیموں کا مومنٹم سیٹ کردیتا ہے۔ کسی بھی ٹیم کی بڑی شکست اعتماد کو ایسا دھچکا پہنچا سکتی ہے کہ پھر ٹورنامنٹ میں واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔ بھارت کے خلاف میچ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن پاکستانی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے تمام گروپ میچز ہی اہم اور خطرناک لگ رہے ہیں۔

ایک جانب آئرلینڈ کی ٹیم ہے جس نے پاکستان کو 2007ء کے ون ڈے ورلڈ کپ میں اپ سیٹ شکست دی تھی اور حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے ہی میچ میں ہمیں شکست سے دوچار کیا تو دوسری جانب امریکا کی ٹیم ہے جس نے بنگلہ دیش کو ٹی ٹوئنٹی سیریز اور کینیڈا کو پہلے میچ میں زبردست شکست دےکر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا شاندار آغاز کیا ہے۔ ایسے میں پاکستانی ٹیم انتظامیہ کو اوپننگ جوڑی سے لےکر مڈل آرڈر تک، اسپن کروانے میں ناکام اسپنرز سے لےکر سوئنگ اور رفتار ڈھونڈتے پیسرز تک، سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

کل پاکستان کا افتتاحی میچ ہے، دیکھتے ہیں بابر اینڈ کمپنی ان مسائل کا سامنا کیسے کرتی ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024