’اگر بارش کی انٹری ہوگئی تو قومی ٹیم کو عید اپنوں میں منانی پڑے گی‘
نیویارک کے نساؤ کاؤنٹی کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان دوسری بار میچ کھیلنے اتری تو کپتان بابر اعظم اور کوچنگ اسٹاف کے ذہن میں کئی اہداف تھے جن میں سے سب سے اہم کینیڈا کے خلاف کامیابی کا حصول اور وہ بھی اچھے مارجن کے ساتھ جبکہ ایک ایسی پرفارمنس بھی جو کسی نہ کسی طرح امریکا اور روایتی حریف بھارت کے خلاف شرمسار شکست کا داغ صاف نہ صحیح لیکن دھندلا ضرور کردے۔
ٹاس کے معاملے میں پاک-بھارت میچ کی طرح کینیڈا کے سامنے بھی پاکستان ٹیم خوش قسمت رہی۔ بابرا عظم کے چہرے پر مسکراہٹ اس وقت بھی موجود تھی لیکن اس بار مسکراہٹ میں شادابی کم جبکہ فکر زیادہ نظر آرہی تھی۔
پاکستان کے ٹاپ اسٹرائیک باؤلر شاہین شاہ آفریدی اپنے ابتدائی اوورز میں وہی غلطی کرتے رہے جسے ہر موقع پر کرکٹ پنڈت اور سابق کرکٹرز دہراتے رہتے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ شاہین آفریدی اب بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021ء میں بھارت کے خلاف یادگار پرفارمنس کے خمار سے باہر نہیں آسکے ہیں، اسی لیے ان کی باؤلنگ لینتھ یارکر ہی رہتی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024ء میں نساؤ کاؤنٹی کرکٹ اسٹیڈیم نیویارک میں اب تک کا سب سے بڑا اسکور کینیڈا نے آئرلینڈ کے خلاف 137 رنز کی صورت میں بنایا۔ اس کے علاوہ یہاں جتنے بھی میچز کھیلے گئے وہ تمام ہی بہ مشکل 100 کا ہندسہ عبور کرسکے۔
شاہین شاہ آفریدی کو کینیڈا کے اوپنر ایرون جانسن نے لگاتار دو چوکے لگائے اور یہی بلےباز پاکستانی باؤلرز کے لیے ایک مشکل سوال بھی ثابت ہوا۔ اس صورت حال میں ایک تجربہ کار اور سمجھ دار باؤلر ہی یہ جان سکتا تھا کہ ان کنڈیشنز میں بیک آف دی لینتھ باؤلنگ ہی کارگر ثابت ہوگی ورنہ آگے گرائی گئی گیند کامیابی نہیں دلاسکتی۔
مین آف دی میچ محمد عامر اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات جلد ہی بھانپ گئے۔ انہوں نے اپنے پہلے اوور میں ہی وکٹ لی اور ساتھ ہی وہ پاکستان کے باقی ماندہ فاسٹ باؤلرز کو بھی سمجھا گئے کہ یہاں باؤلنگ کیسے کرنی ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ٹیم منیجمنٹ اور کوچنگ اسٹاف میں موجود اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود اور منیجر وہاب ریاض جو خود سابق فاسٹ باؤلرز ہیں، وہ کیوں یہ بات اپنے باؤلرز کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے؟
ایرون جانسن پاکستان کے گلے کی ہڈی بنتے جارہے تھے لیکن پچ کے برتاؤ نے ان کا بھی کام تمام کردیا جس میں کمال نسیم شاہ کا بھی رہا۔ شارٹ لینتھ میں معمولی سی تبدیلی سے وہ گیند جو ایک باؤنسر بن سکتی تھی، وہ پچ کے غیر متوقع باؤنس کی بدولت زیادہ ہائٹ پر نہ جاسکی اور گیند نے وکٹیں اکھاڑ دیں۔
اب باری تھی پاکستانی بیٹنگ لائن کی جس کا پہلا اور اہم ترین ہدف 107 رنز جلد سے جلد حاصل کرنا تھا۔ بھارت کے خلاف ناکامی کا بوجھ افتخار احمد کے کندھوں پر پڑا اسی لیے وہ پلیئنگ الیون میں جگہ برقرار نہ رکھ سکے لیکن ان کی جگہ جس بلے باز کو موقع ملا، وہ بھی اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہ کرپائے۔ صائم ایوب کو پاکستان ٹیم کا مستقبل قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خوش قسمتی بار بار دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی۔ ان کی ناکامی پھر سسٹم کو موقع دے گی کہ وہ ان پرانے پرزوں کا سہارا لیں جنہوں نے پاکستان کرکٹ کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
محمد رضوان اس مرتبہ بھی نصف سنچری بنا گئے بس فرق صرف اتنا تھا کہ اس مرتبہ وہ میچ فنش کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں کپتان بابر اعظم نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن کپتان اس مرتبہ بھی ایک ہی وار سے دوسری بار ڈسے گئے اور پھر اسی طرح پویلین لوٹے جیسے بھارت کے خلاف آؤٹ ہوئے تھے۔
پاکستان میچ تو 15 گیندوں قبل 7 وکٹوں سے جیت گیا مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ اگر بات صرف پاکستان کی دو کمزور ٹیموں کینیڈا اور آئرلینڈ سے فتح اور امریکا کی دو مسلسل شکست تک محدود ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن معاملہ اب ’ابر‘ کا بھی ہے کیونکہ آئرلینڈ اور امریکا کے میچ میں 91 فیصد بارش کی پیش گوئی ہوچکی ہے۔ میچ کی منسوخی سے امریکا کو ایک پوائنٹ مل جائے گا اور پاکستانی کھلاڑیوں کو عید اپنوں میں منانی پڑے گی۔
جبکہ دوسری جانب ٹیم میں گروپنگ کی خبریں انتہائی عروج پر ہے اور شاید پاکستان کی حالیہ پرفارمنس بھی اسی کا شاخسانہ ہے جس حوالے سے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے چارسدہ میں ایک تقریب کے دوران اشارہ بھی دیا کہ جہاں قومی تشخص کو پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سندھی سے بالاتر ہوکر صرف پاکستانی ہونے پر زور دیتے نظر آئے اور اسی کو جیت کی ضمانت بھی قرار دیا۔
مگر دوسری جانب محسن نقوی کو حالات کے ساتھ بدلتے ہوئے دیکھنا بھی کسی اچنبھے سے کم نہیں۔ بیک وقت ملک میں کئی اہم ذمہ داریاں نبھانے والے محسن رضا نقوی جب چیئرمین پی سی بی تعینات ہوئے تو صرف ایک سے دو ماہ قبل ہٹائے جانے والے بابر اعظم کو پھر کپتانی کی کمان تھما دی۔ کوچز تبدیل کردیے، سلیکشن کمیٹی تحلیل کردی مگر اب وہ ایک بار پھر قومی کرکٹ ٹیم میں بڑی سرجری کی کہانی سنارہے ہیں۔
پاکستان کے سینئر کرکٹرز کے پاس اس ناگہانی آپریشن سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ آئرلینڈ کا میچ بھی جیت جائیں اور اب عوام سے دعا کروانے کے بجائے خود بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں کہ اللہ انہیں آگے گڑھا اور پیچھے کھائی والی کیفیت سے عافیت دلادے۔