برکس میں شمولیت کا مقصد اسلام آباد کو مضبوط معیشتوں کے ساتھ کھڑا کرنا ہے، مشاہد حسین
پاکستان کا برکس اقتصادی بلاک میں شامل ہونے کا مطالبہ دنیا کی بڑھتی ہوئی اور بااثر معیشتوں کے ساتھ اپنے آپ کو کھڑا کرنے کے ملک کے اہم اسٹریٹیجک ارادے کی نشاندہی کرتا ہے، اس کے علاوہ گلوبل ساؤتھ میں ایک اٹوٹ کھلاڑی بننے کی اس کی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات سابق سینیٹر اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ اور پاکستان افریقہ انسٹیٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ اینڈ ریسرچ کے سربراہ مشاہد حسین سید نے روس کے مشرقی بندرگاہی شہر ولادی ووستوک میں منعقدہ بین الاقوامی برکس فورم کے موقع پر کہی۔
دو روزہ فورم کا اہتمام روس کی حکمران ’یونائیٹڈ رشیا‘ پارٹی نے کیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں، پاکستان نے باضابطہ طور پر ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے اتحاد برکس میں رکنیت کے لیے درخواست دی ہے، اس بلاک نے گزشتہ سال چار نئے ممبران مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات کو شامل کیا اور اس کا نام برکس پلس رکھا گیا ہے۔
پاکستان ان 29 مزید ممالک میں شامل ہے جنہوں نے برکس میں رکنیت کے لیے درخواست دی ہے، یہ گروپ دنیا کی تقریباً نصف آبادی کی نمائندگی کرتا ہے اور عالمی جی ڈی پی کا 30 فیصد ہے، مزید برآں، دنیا کے 50 فیصد تیل اور گیس پیدا کرنے والے اس بلاک کے رکن ہیں۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایک توسیع شدہ برکس بین الاقوامی تعلقات کو تین بڑے طریقوں سے نمایاں طور پر تشکیل دے سکتا ہے، سب سے پہلے، انہوں نے اسے بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے، مساوات اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ریاستوں کے درمیان مکالمے اور تعلقات کو فروغ دینے کا راستہ قررا دیا۔
دوسرا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ برکس بین الاقوامی تعلقات کو غیر فوجی بنانے کا باعث بن سکتا ہے، جو موجودہ مغربی زیر قیادت آرڈر کا مقابلہ کر سکتا ہے، اس میں عسکریت پسندانہ پالیسیاں شامل ہیں جیسے اسرائیل کو مسلح کرنا، ’ایشیائی نیٹو‘ کو فروغ دینا، اور کواڈ اور اوکس جیسے گروپ بنانا جن کا مقصد چین اور روس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
تیسرا، مشاہد حسین سید نے بین الاقوامی مالیاتی نظام کی ڈیڈالرائزیشن پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح امریکا ڈالر کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 68 نے پہلے ہی امریکی ڈالر سے دور ہونا شروع کر دیا ہے، سعودی عرب جیسی اہم ریاستوں نے امریکا کے ساتھ ڈالر میں تیل کی تجارت کرنے کے 50 سال پرانے معاہدے کو ختم کر دیا ہے، اب وہ ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسی کا انتخاب کر رہے ہیں۔
ان تبدیلیوں کے ذریعے سابق سینیٹر نے برکس کو ممکنہ طور پر عالمی سطح پر امریکی اقتصادی اثر و رسوخ کو کم کرنے اور ایک کثیر قطبی عالمی نظام کو آگے بڑھانے کے ایک فورم کے طور پر دیکھا ہے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب کا عالمی اقتصادی اور سیاسی نظام پہلے ہی بے نقاب ہوگیا ہے اور برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) جیسی تنظیمیں اس ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام کے ستون ہوں گی۔
سلامتی کے مسائل کے لیے ایک نئے نقطہ نظر کی ضرورت پر، انہوں نے 14 جون کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے اقوام کی ناقابل تقسیم سلامتی پر مبنی یورو ایشین سیکیورٹی کے نئے نمونے کے لیے اقدام کا خیرمقدم کیا تاکہ کسی ایک ملک کی سلامتی دوسروں کی قیمت پر نہ ہو۔
انہوں نے ’عالمی سلامتی کے اقدام‘ کے لیے چینی صدر شی جن پنگ کی اسی طرح کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔