• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

ایٹمی ہتھیاروں میں بھارت کو پہلی بار پاکستان پر برتری حاصل

شائع June 20, 2024
فوٹو: ڈان
فوٹو: ڈان

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) نے رپورٹ کیا ہے کہ روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے 1998 میں جوہری تجربات کے بعد پہلی بار بھارت کے پاس صرف 2 وار ہیڈز کے فرق سے پاکستان سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ رپورٹ عید کی تعطیلات کے دوران جاری کی گئی ہے، جو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں پر بڑھتے ہوئے انحصار پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے، جو جغرافیائی سیاسی تناؤ میں شدت پیدا کر رہا ہے۔

تاریخی طور پر ، ایس آئی پی آر آئی اور بین الاقوامی پینل آن فسلائل میٹریلز (آئی پی ایف ایم) سمیت مغربی جائزہ رپورٹس کے مطابق جوہری ہتھیاروں کے حجم کے لحاظ سے، پاکستان 5 سے 10 ہتھیاروں کے فرق سے بھارت پر برتری برقرار رکھتا ہے۔

تاہم، 2023 کے تازہ ترین رپورٹس میں تبدیلی دکھائی گئی ہے جس کے مطابق بھارت اب پاکستان سے آگے ہے۔

بنیادی طور پر، یہ رپورٹس یورینیم کی افزودگی کی سہولیات اور پلوٹونیم پروڈکشن پلانٹس کی سیٹلائٹ تصویروں پر مبنی ہیں، ان سہولیات کی آپریشنل تاریخ اہم اعداد و شمار فراہم کرتی ہے، تاہم ایس آئی پی آر آئی اور آئی پی ایف ایم کے طریقہ کار کے ذریعے حاصل شدہ تفصیلات بڑی حد تک نامعلوم ہیں، جس سے ان تخمینوں کی درستگی سے متعلق سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں اپنے جوہری پروگراموں کے حوالے سے غیرشفافیت برقرار رکھتے ہیں، یعنی وہ اس حوالے سے کھل کر وضاحت نہیں کرتے، اور نہ ہی ان رپورٹس کی توثیق یا تردید کرتے ہیں، جس کی وجہ سے رپورٹ کردہ اعداد و شمار کی درستگی کی تصدیق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں مغربی رپورٹس یا اندازے سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں۔

اس نقطہ نظر کی تائید بھارت کے وسیع تر جوہری پروگرام اور جغرافیائی سیاسی پوزیشن کے تناظر میں ہوتی ہے، 1974 میں اپنے پہلے جوہری تجربے کے بعد بھارت ایک جامع نیوکلیئر ٹرائیڈ رکھتا ہے، جو کسی صورت پاکستان سے پیچھے نہیں رہے گا، ایک ایسا ملک جس کا جوہری پروگرام عمر کے لحاظ سے نسبتاً چھوٹا ہے۔

بھارت وسیع فضائی، زمینی اور سمندر پر مبنی جوہری ترسیل کے نظام سمیت دنیا کا سب سے بڑا مقامی یورینیم کے ذخائر رکھنے کے ساتھ ایک مضبوط جوہری صلاحیت رکھتا ہے۔

2008 کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی چھوٹ نے بھارت کو کافی مقدار میں جوہری ایندھن درآمد کرنے کی اجازت دی اور اس نے ممکنہ ہتھیاروں کی پیداوار کے لیے مقامی یورینیم کو محفوظ رکھا، اس اسٹریٹجک فائدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کی جانب سے کیے گئے حالیہ اندازوں میں بھارت کی اصل جوہری صلاحیتوں کو کم پیش کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کو تعینات کیا ہے، تاہم، بھارت مبینہ طور پر ایک حکمت عملی کی جانب بڑھ رہا ہے، جس میں امن کے وقت کے دوران کچھ جوہر وار ہیڈز کو پہلے سے ہی لانچروں کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔

پاکستانی ذخیرہ

ایس آئی پی آر آئی کے اندازوں کے مطابق، جنوری 2024 تک پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تقریباً 170 وار ہیڈز پر برقرار رکھا، یہ وار ہیڈز، پاکستان کے ابھرتے ہوئے نیوکلیئر ٹرائیڈ میں تقسیم کیے گئے ہیں، جن میں طیارے، زمین سے مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائل اور سمندر سے مار کرنے والے کروز میزائل شامل ہیں۔

پاکستان کی جانب سے نئے ترسیلی نظام کی ڈیولپمنٹ اور یورینیم مواد کا ذخیرہ اگلی دہائی میں اس کی جوہری صلاحیتوں میں ممکنہ اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایس آئی پی آر آئی رپورٹ کے مطابق پاکستان جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی (این ایف یو) پر عمل نہیں کرتا، خاص طور پر بھارت کے ساتھ روایتی طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے، جو کہ پہلے سے جوہری حملوں کا حق محفوظ رکھتا ہے،

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جوہری قوت کے فضائی جزو میں نیوکلیئر گریوٹی بموں کا ایک چھوٹا ذخیرہ اور رعد (حتف-8) جیسے کروز میزائل تیار کرنا شامل ہے، جو پی اے ایف کی 350 اور 600 کلومیٹر تک ایٹمی اسٹینڈ آف صلاحیت کو بڑھاتا ہے، جنگی طیارے جیسے میراج 3، ایف 16، میراج وی اور جے ایف 17 کو ممکنہ جوہری ترسیل کے پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان کے صحیح کردار کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے زمینی جوہری ہتھیاروں میں ایک اندازے کے مطابق 126 مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹمز شامل ہیں، اس ہتھیاروں میں کئی آپریشنل میزائلوں کی اقسام شامل ہیں جن میں شاہین سیریز اور غوری میزائل شامل ہیں، شاہین 3، ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اسے تعینات نہیں کیا گیا ہے۔

سمندر پر مبنی جوہری صلاحیتوں کے لیے، پاکستان بابر-3 آبدوز سے لانچ کیے جانے والے کروز میزائل (ایس ایل سی ایم) تیار کر رہا ہے، جس کا مقصد اپنی اگوسٹا 90 بی آبدوزوں کو لیس کرنا ہے، اور اس طرح اس کی سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیتوں کو آگے بڑھانا ہے۔

عسکری تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے پاس ابھی تک جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے آبدوز کا پلیٹ فارم نہیں ہے اور وہ یقینی طور پر سیکنڈ اسٹرائیک کی قابلیت رکھنے میں بھارت سے پیچھے ہے۔

انٹرنیشنل کمپین ٹو ابولش نیوکلیئر ویپنز (آئی سی اے این) کی ایک رپورٹ میں 2016 کی پارلیمانی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں پر اپنے کل فوجی اخراجات کا تقریباً 10 فیصد خرچ کرتا ہے، جس سے اندازہ لگایا گیا کہ پاکستان نے 2023 میں اپنے جوہری پروگرام پر تقریباً ایک ارب ڈالر خرچ کیے، جو کہ 1,924 ڈالر فی منٹ کے اخراجات کے برابر ہے۔

ہندوستانی ذخیرہ

ایس آئی پی آر آئی کے مطابق جنوری 2024 تک بھارت کے پاس تقریباً 172 جوہری ہتھیاروں ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں معمولی اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ ہتھیار بھارت کے ترقی پذیر نیوکلیئر ٹرائیڈ کا حصہ ہیں، جس میں ہوائی جہاز، زمین پر مبنی میزائل، اور جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوزیں (ایس ایس بی این ایس) شامل ہیں، روایتی طور پر، بھارت نے امن کے وقت میں جوہری وار ہیڈز اور لانچرز کو الگ رکھا ہے، لیکن حالیہ اقدامات امن کے وقت میں لانچروں کے ساتھ کچھ وار ہیڈز کو ساتھ رکھا گیا ہے۔

بھارت کی جوہری حکمت عملی کا بنیادی مقصد پاکستان اور چین کو روکنا ہے، ابتدائی طور پر بھارت کے کم فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں نے پاکستان کو نشانہ بنایا لیکن طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری سے چین بھی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، بھارت 1999 میں قائم کی گئی این ایف یو پالیسی کو برقرار رکھتا ہے، جس میں 2003 میں ترمیم کی گئی تھی جس میں غیر جوہری حملوں کے ممکنہ جوہری ردعمل شامل ہیں۔

بھارت کی فضائی جوہری صلاحیت میں میراج 2000، رافیل جیسے طیارے شامل ہیں،جن میں تقریباً 48 نیوکلیئر گریوٹی کے بم تفویض کیے گئے ہیں، زمین پر مبنی میزائل ہتھیاروں میں کئی قسم کے بیلسٹک میزائل شامل ہیں، جن میں اگنی پی جیسے نئے ماڈل بھی شامل ہیں، 4 سے 6 ایس ایس بی این ایس کی منصوبہ بندی کے ساتھ ٹرائیڈ کی سمندر پر مبنی وسعت میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے بھارت کی سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بھارت اگنی VI اور سوریا میزائلوں سے دنیا کے کسی بھی ملک کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024