آزاد کشمیر میں فسادات سے نمٹنے کیلئے خصوصی فورس تشکیل دے دی گئی
آزاد جموں و کشمیر میں سستی بجلی اور آٹے کے لیے حالیہ پر تشدد مظاہروں کے بعد آزاد کشمیر پولیس نے مستقبل میں ایسے حالات سے زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ’خصوصی انسداد فسادات فورس‘ تشکیل دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے نئے تعینات ہونے والے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) رانا عبدالجبار نے گزشتہ روز اپنی پہلی پریس بریفنگ کے دوران یہ بات کہی۔
انہوں نے کہا کہ نئی فورس 500 اہلکاروں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہیں، جو پنجاب کے ماسٹر ٹرینرز کے ذریعے خصوصی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
آئی جی پی کا کہنا تھا کہ خصوصی فورس کو بنانے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوامی ہجوم کو ہجوم (پولیس) کے ذریعے کنٹرول نہیں کرنا چاہیے، جب کہ ایسی صورتحال میں طاقت کے استعمال کے بجائے دیگر طریقے اختیار کرنا چاہیے تاکہ دونوں طرف سے کسی کا نقصان نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس فورس کے 100 اہلکار، تینوں ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر تعینات ہوں گے اور ضرورت کے مطابق متعلقہ ڈی آئی جیز ان کو کہیں بھی تعینات کرسکیں گے، جب کہ فورس کے بقیہ 200 اہلکار مظفرآباد میں ڈی آئی جی رینجرز اور ریزرو کے تحت بیک اپ فورس کے طور پر کام کریں گے۔
رانا عبدالجبار کا کہنا تھا کہ ضلعی پولیس سربراہان کے لیے ایک دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ وہ اس بات سے واقف ہوں کہ انہیں اس خصوصی فورس کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پولیس اور سول انتظامیہ کی حمایت کے لیے سول آرمڈ فورسز اور یہاں تک کہ فوج کے جوانوں کی تعیناتی آزاد جموں و کشمیر سمیت ملک کے کسی حصے میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں، سول آرمڈ فورسزکو کسی بھی شورش زدہ علاقے میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور معمول کی بحالی کے بعد واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
آئی جی پی نے نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ مظاہروں کے دوران چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے اشتعال انگیزی کو ہوا دی گئی۔
آزاد جموں وکشمیر میں بدامنی کے حالیہ واقعات کے پیچھے غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، لیکن آپ کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں دھواں ہو وہاں دشمن ضرور آگ بھڑکانے کی کوشش کرے گا۔
سائبر قوانین میں ابہام
آئی جی پی نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کے حوالے سے سائبر قوانین میں موجود ابہام پر بات کرتے ہوئئے کہا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ضروری قانون سازی کے لیے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایک لکیر کھینچنی ہوگی کہ جو چیز حقائق پر مبنی نہ ہو اور وہ افراتفری، بدامنی کا باعث بنتی ہو تو اسے جرم قرار دینا چاہیے، اور اس میں ملوث عناصر کو سزا ملنی چاہیے۔
آزاد جموں و کشمیر میں سیف سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے انہوں نے انکشاف کیا کہ محکمہ پولیس نے علاقے کی مخصوص ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے مرحلے میں تین بڑے شہروں مظفرآباد، راولاکوٹ اور میرپور میں اس پر کام شروع کر دیا ہے۔
رانا عبدالجبار کا کہنا تھا کہ اسی طرح کا ایک منصوبہ پرائیویٹ سیکٹر میں مظفرآباد میں پہلے سے کام کر رہا ہے، لیکن محکمہ پولیس اسے پبلک سیکٹر میں قائم کرے گا تاکہ تمام انٹری پوائنٹس، چیک پوسٹوں اور دیگر اسٹریٹجک تنصیبات کو ڈیجیٹل نگرانی کے تحت لایا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، شکایت کرنے والوں کے لیے میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔