2005ء سے لاپتا کاروباری شخصیت مسعود جنجوعہ کی اہلیہ انصاف کی منتظر
لاپتا اور جبری گمشدہ افراد صرف غائب ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی گمشدگی ان کے پیاروں کو شدید متاثر کرتی ہے جو ان کی یادیں اپنے دلوں اور ذہنوں میں لیے پھرتے ہیں۔
ان کی یادیں درد ناک ہوتی ہیں جبکہ ساتھ ہی امید کی ایک کرن بھی ہوتی ہے کہ کیا پتا ان کے پیارے کسی دن گھر واپس لوٹ آئیں۔ دوسری جانب مجھے یقین ہے کہ جبری گمشدہ کرنے والے افراد اپنے جرم کے بوجھ تلے رہتے ہوں گے اور اس کی سنگینی سے بھی واقف ہوں گے جو کسی کے پیارے کو ماؤرائے قانون قید میں رکھتے ہیں اور اس حوالے سے تمام معلومات خفیہ رکھتے ہیں۔
میری اپنی کہانی بھی دل دہلا دینے والی ہے۔
30 جولائی 2005ء کو میرے خاوند مسعود جنجوعہ لاپتا ہوئے۔ میں اور ہمارے تین بچے ان کی محبت و شفقت کے زیرِ سایہ پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ایک دن اچانک ہم پر آسمان ٹوٹ پڑا اور ہم پر غم اور مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔ اس کے بعد میں نے جو جدوجہد کی اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کی کوشش کررہی ہوں۔
ان دنوں ہم نے عہد کیا کہ ہم اپنی آوازوں کی شنوائی کے لیے حکام بالا کو ہلا دیں گے۔ ستمبر 2006ء میں ہم اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہوئے۔ میرے چھوٹے بچے، میرے سسر اور دیگر لاپتا افراد کے خاندان جو ملک کے مختلف حصوں سے آئے تھے، دن رات پارلیمنٹ کے سامنے موجود رہے۔
متاثرین کی مشترکہ کوششیں ایک تنظیم کی صورت اختیار کرگئیں جس کا نام ’ڈیفنس آف ہیومن رائٹس‘ (ڈی ایچ آر) ہے۔ یہ پلیٹ فارم سب کا تھا، جو متاثرین نے دیگر متاثرین کے لیے بنایا تھا، جو ہمارے لاپتا پیاروں کے لیے سچائی اور انصاف کی اجتماعی جدوجہد کررہے ہیں۔
ہمارا واحد مقصد ہمارے لاپتا پیاروں کی وکالت کرنا تھا جن کی عدم موجودگی سے ہماری زندگی انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے ہمارے مقصد میں ہمارا ساتھ دیا، بالخصوص اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چوہدری نے معاملے کا نوٹس لیا اور جبری گمشدگیوں کے مقدمات کی سماعت شروع کی۔
’بڑی جدوجہد کا حصہ بنے‘
جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد فوجی حکومت کے ساتھ عدلیہ کی لڑائی سے منسلک تھی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے صاف کہا کہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ لاپتا افراد خفیہ ایجنسیز کی تحویل میں ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے جرنیلوں کو عدالت طلب کرنے پر بھی غور کیا۔
میرے خیال میں یہی وہ لمحہ تھا جس پر اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا اعلان کیا اور پوری عدلیہ کو برطرف کردیا۔ افراتفری کے اس دور میں انسانی حقوق کو پامال کیا گیا، آئین کی موجوگی نہ ہونے کے برابر تھی اور انسانی حقوق کے سرکردہ محافظوں اور وکلا کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدالتوں کے 60 ججز بھی نظر بند کیے گئے۔ بلا شبہ اس زمانے میں اندھیروں کا راج تھا۔
تاہم سول سوسائٹی، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، وکلا اور جبری گمشدگیوں کے متاثرین نے اجتماعی طور پر فوجی آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔ دو سال تک پاکستان بھر میں ریلیاں، سیمینارز اور بڑے بڑے اجتماعات نے ہماری شکایات کو اجاگر کیا اور عدلیہ کی آزادی پر زور دیا۔
مایوسی کے گہرے بادل
16 مارچ 2009ء کو ایک ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ عدلیہ بحال ہو گئی، جج اپنے عہدوں پر واپس آگئے اور انصاف ملنے کی امیدیں لوٹ آئیں۔ لاپتا افراد کے اہل خانہ، جن کی تعداد اس وقت 485 کے لگ بھگ تھی، وہ پُرامید تھے کہ اب سپریم کورٹ ان کے مقدمات کو نمٹائے گی۔
بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ نے لاپتا افراد کے مقدمات پر آنکھیں بند کر لیں۔ اس وقت مجھے اپنی آواز کی شنوائی کے لیے نئے راستے اختیار کرنا پڑے۔
دوسرے خاندانوں کے ہمراہ میں 13 دن اور راتوں تک سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایک خیمہ لگا کر بیٹھی رہی۔ مجھے اس وقت بیوروکریٹک عداوتوں اور شدید موسم سے کوئی خوف نہیں تھا۔ یہ نومبر 2009ء کی بات تھی کہ اچانک ہمارے خیمے کو طوفانی بارشوں نے تباہ کردیا۔ پھر بھی ہم استقامت سے ڈٹے رہے اور امید کا دامن نہیں چھوڑا۔
آخر کار 13 نومبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے بتایا کہ جبری گمشدگیوں کے کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کرے گا۔ یہ سن کر ہماری امیدیں ایک بار پھر بڑھ گئیں۔ ہمیں یقین تھا کہ ہماری شکایات سنی جائیں گی اور ہمارے پیاروں کو جلد انصاف مل جائے گا۔
تاہم اس بار بھی مایوسی ہماری منتظر تھی۔
مئی 2010ء میں سپریم کورٹ نے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات اور اس رواج کو ختم کرنے کے لیے سفارشات فراہم کرنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد مارچ 2011ء میں ہمارے مقدمات، وزارت داخلہ کی جانب سے بنائے گئے جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن کو منتقل کردیے گئے۔
شاید یہ فیصلہ اس معاملے کو میڈیا سے دور رکھنے، عوام اور اعلیٰ عدالتوں کی نظروں سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ کمیشن کے ارادہ کبھی بھی متاثرہ خاندانوں کو انصاف، حقائق یا معاوضہ فراہم کرنا نہیں تھا۔
اس وقت سے اب تک اس ناقص کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے 10 ہزار سے زائد کیسز کو دستاویزی شکل دیتے ہوئے ملک بھر میں متاثرہ خاندان کے ہزاروں افراد کے ساتھ کام کیا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی حقیقی نتائج سامنے نہیں لائے گئے۔
کمیشن کے روبرو ہماری تنظیم ڈی ایچ آر بھی پیش ہوئی لیکن ہم اعلیٰ عدالتوں سے انصاف طلب کرتے رہے۔ 2006ء سے 2018ء کے درمیان ہم نے سپریم کورٹ میں 749 کیسز دائر کیے۔ بعدازاں ہم نے اور بھی کئی کیسز دائر کیے لیکن 2023ء کے آخر تک کوئی بھی درخواست سماعت کے لیے قبول نہیں کی گئی۔
اس کے باوجود کچھ ججز معاشرے کے مظلوم طبقے کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم دکھائی دے رہے تھے۔ گنتی کے چند مقدمات میں ہمیں کامیابی ملی جن میں چند خاندانوں کے لاپتا پیارے اپنے گھر لوٹ آئے۔ لیکن مجموعی طور پر جبری گمشدگیوں کے معاملے کا عدلیہ کوئی قابلِ ذکر حل تلاش نہیں کرپائی ہے۔
غم اور عوامی کوششیں
اپنی حقوق کی تنظیم کے حوالے سے کام کرتے ہوئے ہم نے ریلیوں کا اہتمام کیا اور پاکستان اور بیرونِ ملک سفر کیا اور میں ذاتی طور پر افسردگی سے دوچار ہوئی۔
میرا درد لامتناہی تھا۔ کبھی کبھی قابل برداشت ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ شدت اختیار کرلیتا۔ اس دوران مسعود کا سایہ کی طرح میرے ساتھ ساتھ تھے، ان کی موجودگی کا احساس میرے غموں اور امیدوں کے جلتے بجھتے دیے میں میرے ساتھ تھا۔
جب ہم ساتھ تھے تو ہم نے اپنے تینوں بچوں کے حوالے سے کئی خواب آنکھوں میں سجائے تھے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا چاہتے تھے۔ اب مجھے اس شخص کی جھلک دیکھے بغیر 19 سال بیت چکے ہیں جس سے میں سب سے زیادہ محبت کرتی تھی۔
میرے تین بچے جن میں سے دو 2005ء میں ٹین ایجر تھے جبکہ ایک بہت چھوٹی تھی، تینوں نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اسکول اور کالج اور پھر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ایسے لوگوں کے اردگرد پلے بڑھے جنہوں نے ہمارے مشترکہ مقصد کی تعظیم کی اور ہماری ہر ممکن مدد کی۔ میرے بچوں نے احتجاج کے دوران پولیس کی سفاکیت کو برداشت کیا اور میرے ساتھ ان پر بھی تشدد ہوا اور گرفتار کیا گیا۔
میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گی کہ جب میری سب سے چھوٹی بیٹی مجھ سے لپٹ کر پولیس سے التجا کررہی تھی کہ اس کے باپ کے بعد وہ اس کے بھائی کو بھی اس سے دور نہ کریں۔ ایسا اس وقت ہوا جب میرا سب سے بڑا بیٹا جو اس وقت 15 سال کا تھا، ایک احتجاجی ریلی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ہمارا غم برقرار ہے لیکن انصاف کے لیے ہماری اٹل کوششیں بھی جاری ہے۔
پوری دنیا کی بازگشت
ستمبر 2014 میں، میں نے فلپائن کے شہر منیلا کا دورہ کیا۔ اس وقت ہماری تنظیم ڈی ایچ آر کو غیر رضاکارانہ گمشدگیوں کے خلاف فعال ایشین فیڈریشن (اے ایف اے ڈی) میں رکنیت دی گئی تھی جو ایشیا میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس اجتماع میں ایشیا کے مختلف ممالک جیسے بنگلہ دیش، بھارت، انڈونیشیا، فلپائن اور لاؤس سے افراد شامل ہیں۔ ہم مل کر جبری گمشدگیوں کے خلاف اجتماعی آواز اٹھاتے ہیں، اس گھناؤنے جرم سے پاک دنیا کے تمنائی ہیں۔
ہمارا نقطہ نظر محض اپنے پیاروں کی وکالت کرنا نہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا کا تصور کرتے ہیں جہاں جبری گمشدگیاں جڑ سے ختم ہوجائیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں متاثرین کو معاوضہ ملے اور جہاں ایسے لوگوں کی یادگاریں بنائ ؤی جائیں جو کبھی اپنے گھر واپس نہیں آئے۔ ہم ایک ایسی جگہ کے متمنی ہیں جہاں خاندان اجتماعی طور پر اپنے پیاروں کو یاد کر سکیں اور اپنے غم اور خوشی ایک دوسرے سے بانٹ سکیں۔ اس سلسلے میں سال 2014ء انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔
اسی سال ڈی ایچ آر نے اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنیوا میں لابنگ کی تاکہ اس کے عالمی متواتر جائزے کے دوران پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے بحران کو اجاگر کیا جا سکے۔ جبری گمشدگیوں کے بارے میں ورکنگ گروپ کو فوری اپیلیں لکھی گئیں جس میں فوری کارروائی کی درخواست کی گئی۔ اقوام متحدہ نے بیانات جاری کیے جس میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کرے اور جبری گمشدگیوں کی شکایات کی مناسب تحقیقات کے لیے اپنے ملکی قوانین میں میں ترمیم کرے۔
بار بار وعدوں کے باوجود پاکستان نے ابھی تک ان کی پاسداری نہیں کی۔ جنوری 2023ء میں چوتھے عالمگیر متواتر جائزے میں 19سرکردہ ممالک نے پاکستان سے جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرنے، متاثرین کی شکایات کو دور کرنے اور اس فعل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کے لیے میکانزم بنانے کا مطالبہ کیا۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ تو غیریقینی ہے لیکن ہماری امیدیں قائم ہیں۔
پلازا ڈی میو کی باہمت مائیں
مارچ 2023ء میں، میں نے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں منعقدہ تیسری عالمی فورم میں ڈی ایچ آر کی نمائندگی کی۔ ایک سے زیادہ اسٹاپ اوور اور طویل پرواز کے دوران میرے ذہن میں مختلف خیالات آرہے تھے۔ مسعود کی یادیں، میری طاقت اور امید میرے ساتھ تھیں۔ میں نے پہلی بار مسعود کی موجودگی کو اتنے قریب سے محسوس کیا۔
ارجنٹینا میں 15 روزہ قیام کے دوران میں نے متاثر کن عوامل دیکھے۔ ارجنٹائن کے وکلا، انسانی حقوق کے محافظ، متاثرین، سیاست دان اور سیاسی جماعتیں فوجی آمروں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف متحد ہیں۔ ان بہادر افراد نے مل کر جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تشدد اور غیر قانونی اغوا کے خلاف، جمہوریت اور انصاف کی بحالی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ان کی انتھک جدوجہد انسانیت کے لیے مظہر ہیں۔
اس کے نتیجے میں میرے خوابوں کی تکمیل بھی ہوئی۔ میں نے پلازا ڈی میو کی ماؤں سے ملاقات کی جن کی عمریں اب 90 سے 100 سال ہوچکی ہیں۔ ان قابل ذکر خواتین نے 1970ء کی دہائی میں فوجی آمروں کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ یہ وہ مائیں ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ 1970ء کی دہائی میں تقریباً 8 ہزار500 افراد لاپتا ہو ئے تھے۔ یہ مائیں لاپتا لوگوں کی بازیابی اور مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پلازا ڈی میو کی مائیں اپنی قوم کی لازوال ہیرو ہیں۔ انہوں نے 24 مارچ کو ایک زبردست ریلی کی قیادت کی۔ اس دن ارجنٹینا میں جمہوریت کا جشن منایا جاتا ہے۔
جمہوری اقدار، سچائی اور انصاف کے 40 سال گزرنے پر جشن مناتی پوری قوم کو ہاتھوں میں ہاتھوں لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگیوں سے دوچار ملک سے تعلق رکھنے والے میرے جیسے شخص کے لیے یہ بہت مختلف تھا۔ ہمارا اپنا قومی دن جو صرف ایک دن پہلے 23 مارچ کو منایا گیا تھا جس کا جشن ارجنٹینا سے بالکل منافی تھا۔
تاریک قوتوں کے خلاف متحد قوم کا مشاہدہ کرنا اور ان کے ساتھ 40 سالہ جمہوری حکمرانی کا جشن منانا، ایک منفرد تجربہ تھا۔ ارجنٹینا نے جدوجہد، جذبے اور پلازا ڈی میو کی ماؤں کی انتھک کوششوں کے ذریعے آزادی حاصل کی تھی۔ جب دنیا بھر سے ہزاروں مندوبین سچائی، انصاف اور انسانی حقوق کی تلاش میں جمع ہوئے تو وہ ارجنٹینا کی تبدیلی پر ششدر رہ گئے۔
لاپتا پیاروں کی یادیں
بیونس آئرس میں ایک زمانے میں بدنام زمانہ فوجی کیمپ موجود تھا جوکہ وحشت، اذیت اور موت کی علامت تھا لیک اب اس جگہ کو ای ایس ایم اے میوزیم اور سائٹ آف میموری کے نام سے یادگاری جگہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہاں دنیا بھر سے کمیونٹیز اپنی مشترکہ جدوجہد کو بانٹنے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے جمع ہوتی ہیں۔
جب میں نے پارک ڈی لا میموریا (یادگاری پارک) میں قدم رکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یہاں desaparecidos یا غائب ہونے والے تقریباً 9 ہزار افراد کے نام درج ہیں۔ زائرین خاندانوں اور بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے لاپتا پیاروں کے ناموں پر پھول چڑھاتے ہیں۔
ہمارے وفد میں ارجنٹینا کے ساتھ پاکستان، فلپائن، لاؤس، بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ہمارا مشترکہ دکھ اور لاپتا پیاروں کے لیے ہماری جدوجہد سرحدوں سے بالاتر ہے۔ وہاں ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، روئے اور اپنی کہانیاں سنائیں۔ اس موقع پر میں میں مسعود کا پوسٹر تھامے ہوئے تھی پکڑا جو 2004ء میں فیملی کے ساتھ ان کی تصویر تھی۔
چلتے اور باتیں کرتے ہوئے ہم نے ایک حیرت انگیز یادگار دیکھی۔ یہ سمندر کے بیچ میں کھڑا ایک 14 سالہ لڑکے کا مجسمہ ہے۔ اس لڑکے کو بھی مار کر اسی جگہ پھینک دیا گیا تھا، لیکن مجسمہ ساز نے اس لڑکے کو اپنے فن سے امر کردیا۔
سمندر کے کنارے کتبے پر کندہ لڑکے کی کہانی پڑھتے ہوئے اچانک ایک تیز ہوا کے جھونکے سے مسعود کا پوسٹر میرے ہاتھ سے اڑتا ہوا دور چلا گیا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا لیکن یہ لڑکے کے مجسمے کے قریب سمندر میں کہیں بہہ گیا۔
اس پر مجھے شدید رنج ہوا۔ ساتھی متاثرہ خاندانوں نے مجھے تسلی دی۔ ان کے الفاظ اب بھی میرے ذہن میں گونجتے ہیں کہ’غم نہ کرو۔ آپ ارجنٹینا میں ہیں جو سچائی، انصاف اور انسانی حقوق کی سرزمین ہے۔ تم نے اسے کھویا نہیں ہے، تم نے اسے حقیقت میں ڈھونڈ لیا ہے’۔
مجھے ابھی تک میرے خاوند کا سراغ نہیں ملا ہے لیکن ایک ایسا نسخہ مل گیا ہے کہ میں زندگی بھر اپنی جدوجہد ترک نہیں کروں گی۔ میری کوششیں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کامیابی نہ مل جائے۔
رواں سال جنوری میں چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف کے لیے میری طویل جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف میرے شوہر بلکہ دیگر لاپتا افراد کے حوالے سے مجھ سے دریافت کیا کہ مجھے سپریم کورٹ سے کیا امید ہے۔ میرا جواب تھا، مجھے سچ کی امید ہے۔ میں اور میری فیملی جاننا چاہتے ہیں کہ مسعود کہاں ہے۔
لاتعداد خاندانوں کا بھی یہی مطالبہ ہے جو اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے تڑپتے ہیں۔ 19 سال گزر جانے کے باوجود میں آج تک اس امید پر قائم ہوں کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔
میں جانتی ہوں کہ یہ ایک بہت طویل وقت ہے لیکن یہ وقت اتنا طویل نہیں کہ میں امید کا دامن چھوڑ دوں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔