غزہ: ’اسرائیل نے جارحیت میں تمام حدیں پار کر دیں‘، عالمی برادری کی پناہ گزین اسکول حملے کی مذمت
غزہ میں بے گھر لوگوں کو پناہ دینے والے اسکول پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، اس ہولناک واقعے کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میڈیا آفس نے ایک بیان میں کہا کہ حملے اس وقت ہوئے جب اسکول میں پناہ لینے والے لوگ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں بہت سی امواتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ طبی ماہرین ابھی تک تمام لاشوں تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔
امریکی نائب صدر کمالا ہیرس نے ہفتے کو غزہ میں ایک اسکول کی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہری جانوں کے ضیاع کی مذمت کی ہے۔
کاملا ہیریس نے کہا کہ اب تک بہت زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے تبصروں کی بازگشت کرتے ہوئے یرغمالیوں کے معاہدے اور جنگ بندی کے مطالبات کا اعادہ کیا۔
ایریزونا میں ایک مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو حماس کے پیچھے جانے کا حق ہے لیکن ان پر شہری اموات سے بچنے کی ایک اہم ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے اسرائیل کے اتحادی واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ اندھی حمایت کو ختم کرے جو ہزاروں معصوم شہریوں بشمول بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی شہادت کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے اسکول پر حملہ بربریت ہے جس کی کوئی تاریخی نظیر نہیں ملتی۔
پی ایم آفس نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اسرائیل نے اپنی کھلی جارحیت میں تمام حدیں پار کر دی ہیں۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
انہوں نے پاکستان کے اس مطالبے کا اعادہ کیا کہ وہ اسرائیلی قیادت اور اس کی مسلح افواج کو فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کا جوابدہ ٹھہرائے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اس کے بہیمانہ جرائم کی سخت سزا دی جانی چاہیے اور اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے پر عمل درآمد پر زور دیا۔
وزیراعظم نے فلسطینیوں کے لیے پاکستان کی ہرممکن اخلاقی اور سفارتی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
مصر، قطر اور سعودی عرب نے بھی اس حملے کی مذمت کی، جو ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب ثالث جنگ بندی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہے تھے، حماس کے سینئر عہدیدار سامی ابو زہری نے کہا کہ یہ حملہ ان کی کوششوں میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ہوگا۔
مصر کا کہنا تھا کہ غزہ کے شہریوں کی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل تنازع کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا قطر کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو خوفناک قتل عام قرار دے دیا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے حملے پر خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے ایک پناہ گاہ اسکول کی تصاویر سے خوفزدہ ہوگیا جس میں مبینہ طور پر درجنوں فلسطینی متاثر ہوئے ہیں، گزشتہ ہفتوں میں کم از کم 10 اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس قتل عام کا کوئی جواز نہیں ہے۔
مصر، امریکا اور قطر نے جمعرات کو جنگ بندی کے مذاکرات کا ایک نیا دور طے کیا ہے، کیونکہ ایران اور اس کی لبنانی اتحادی حزب اللہ کے ساتھ ایک وسیع تنازع ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 15 اگست کو ہونے والے مذاکرات میں ایک وفد بھیجا جائے گا۔
حماس کے ایک اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ گروپ مذاکرات کے لیے نئی پیشکش کا مطالعہ کر رہا ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی۔
اسرائیل کے مطابق انہوں نے غزہ پر حملہ اس وقت شروع کیا جب 7 اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل میں حملہ کردیا تھا، جس میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے، ان میں زیادہ تر عام شہری تھے شامل تھے اور 250 سے زیادہ یرغمالیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے اب تک غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 40,000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں، اسرائیل کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والے فلسطینیوں میں سے کم از کم ایک تہائی حماس کے افراد شامل ہیں، حماس اپنی امواتوں کے اعداد وشمار شائع نہیں کرتی ہے۔