• KHI: Maghrib 6:13pm Isha 7:28pm
  • LHR: Maghrib 5:40pm Isha 7:01pm
  • ISB: Maghrib 5:44pm Isha 7:07pm
  • KHI: Maghrib 6:13pm Isha 7:28pm
  • LHR: Maghrib 5:40pm Isha 7:01pm
  • ISB: Maghrib 5:44pm Isha 7:07pm

’سابق آئی ایس آئی سربراہ کے کورٹ مارشل کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘

شائع August 15, 2024

ایک دور میں انتہائی با اختیار سمجھے جانے والے خفیہ ادارے کے سربراہ اب کورٹ مارشل کا سامنا کررہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات عائد ہیں۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کو گرفتار کیا گیا اور اب سنگین جرم کی پاداش میں ان کا ٹرائل ہوگا۔ ان کے خلاف اس اقدام کا وقت تجسس میں مبتلا کرتا ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم وہ پیغام ہے جو اس اقدام کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی۔

انتہائی متنازع سابق انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اپنی مدتِ ملازمت کے دوران بھی شہ سرخیوں کی زینت رہے۔ لیکن شاید کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا اور وہ کورٹ مارشل کا سامنا کریں گے۔ جہاں وہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل کے سلسلے میں زیرِتفتیش ہیں وہیں ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد مبینہ سنگین سرگرمیوں کے بھی الزامات ہیں۔

یہ قیاس آرائیاں بھی ہورہی ہیں کہ وہ 9 مئی کے واقعے میں بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کی اس گرفتاری کی وجہ سابق وزیراعظم عمران خان سے ان کا قریبی تعلق ہے۔ یہ بھی گمان کیا جارہا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا زیادہ ہے اور یہ ایسا سخت ’ادارہ جاتی احتساب کا معاملہ‘ نہیں جس طرح بتایا جارہا ہے۔

دلچسپ یہ ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی کہ جب فوج کی سرپرستی میں حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اپوزیشن میں ڈیڈ لاک کی صورتحال سنگین رخ اختیار کرچکی ہے۔

پُرتشدد مظاہروں کہ جن میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ایک سابق انٹیلی جنس چیف کے ان میں ملوث ہونے کی قیاس آرائیوں سے نہ صرف سیاسی تناؤ بڑھے گا بلکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ گرفتاری اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں گہری مداخلت اور انٹیلی جنس سربراہان کی طاقت پر سوالات اٹھاتی ہے جن کی نگرانی کی جانی چاہیے تھی۔

فیض حمید تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے دوران 2017ء میں ایک ٹو اسٹار جنرل اور ڈی جی سی آئی ایس آئی کے طور پر بھی سرخیوں میں رہے۔ اس دھرنے نے دارالحکومت کو ہفتوں تک مفلوج کردیا تھا۔ مظاہرے کو منظم کرنے میں انٹیلی جنس کا ہاتھ واضح طور پر نظر آیا۔ دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے ایک غلط فیصلے نے ان الزامات کو تقویت دی، ایک انتہا پسند مذہبی گروپ نے بہ ظاہر شہری انتظامیہ کو کمزور کرنے کے لیے دارالحکومت پر دھاوا بولا تھا۔

لیفٹیننٹ ریٹائرڈ فیض حمید نے دھرنا ختم کرنے کی متنازعہ ڈیل میں بھی اہم کردار کیا تھا۔ ایسی کوئی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے کہ جب سینیئر انٹیلی جنس اہلکار نے حکومتی رٹ چیلنج کرنے والے مظاہرین اور حکومت کے درمیان معاہدہ کروایا ہو۔ بہت سے حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر یہ ڈیل ممکن نہیں تھی۔

یہ حیران کُن نہیں تھا کہ علما اس وقت کے آرمی چیف کو ان کی ثالثی پر بھرپور خراج تحسین پیش کرنے کے بعد فاتحانہ انداز میں گھر واپس چلے گئے تھے۔ فوٹیج نجی ٹی وی چینلز پر بھی چلائی گئی جس میں چیف پنجاب رینجرز کو مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے دیکھا گیا جبکہ یہ ویڈیو تشویش ناک تھی کہ جس میں چیف مظاہرین کے ساتھ سیلفی بھی بنواتے رہے۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت سیاسی ہیرا پھیری کا حصہ تھے جبکہ وہ مبینہ طور پر 2018ء کی انتخابی انجینئرنگ کے بھی مرتکب پائے گئے جس کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار ملا۔ 2017ء میں ہی ان پر ٹاپ سٹی اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان پر ہاؤسنگ اسکیم کے مالک کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے کا الزام تھا۔

یہ یقیناً اختیارات کا غلط استعمال تھا لیکن اس وقت ان کے خلاف کوئی بھی ’ادارہ جاتی احتساب کا عمل‘ شروع نہیں ہوا۔ اس کے بجائے ترقی کے بعد وہ تھری اسٹار جنرل بنے اور آئی ایس آئی کے چیف بن گئے۔ عمران خان کی حکومت میں وہ انتہائی طاقتور تھے۔ سابق وزیراعظم نے بعدازاں اعتراف کیا کہ وہ ایک کمزور اتحادی حکومت کو تیار کرنے سے لے کر اپوزیشن کو قابو کرنے تک، ہر چیز کے لیے انٹیلی جنس پر منحصر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ فیض حمید یہ عہدہ چھوڑیں۔

لیکن یہ پہلے ایسے جنرل نہیں۔ تاریخی اعتبار سے ہمارے ملک میں جاسوسی ادارے کی سربراہ کی کرسی کسی بھی شخص کو بااختیار اور طاقتور بناتی ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سے سابق چیفس سیاسی انجینئرنگ کے مرتکب پائے گئے۔ درحقیقت آج اپوزیشن کا دباؤ زیادہ سنگین ہوچکا ہے۔

فیض حمید نے جو کچھ کیا اس نے تخت کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کے متحرک کردار کی عکاسی کی۔ ان کا معاملہ تو محض اس سلسلے کی چھوٹی سی کڑی ہے۔

ادارہ جاتی احتساب کے معاملے پر بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ 7 سالوں تک ہاؤسنگ اسکینڈل میں ثبوت ہونے کے باوجود جنرل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان تحقیقات کا آغاز بھی سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی صورت میں ممکن ہوا۔ اس سے قبل آرمی چیف کی دوڑ میں شکست کے بعد انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اگر انہیں یہ عہدہ مل جاتا تو آج حالات انتہائی مختلف ہوتے۔

یہ ظاہر ہے کہ پاک فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان میں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا جو سابق سربراہ آئی ایس آئی کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کا سبب بنیں۔ فوج کو ان سرگرمیوں کی وضاحت کرنی چاہیے کہ جن میں وہ ملوث تھے اور انہوں نے آرمی ایکٹ کی کیا خلاف ورزی کی تاکہ یہ قیاس آرائیاں ختم ہوسکیں کہ موجودہ آرمی قیادت سے اختلافات کی بنیاد پر فوج نے یہ اقدام اٹھایا۔

یقینی طور پر قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کا غلط استعمال قابلِ برداشت نہیں۔ لیکن مساوی بنیادوں پر قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ یہاں بڑا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں مداخلت ہے۔ فیض حمید ایک ایسے نظام کے نتیجے میں سامنے آئے جس نے انہیں طاقت اور اختیارات دیے۔ مثال کے طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ فوجی ترجمان سیاسی بیانات کیوں دیتے ہیں اور میڈیا نمائندگان کو کیوں کہتے ہیں کہ وہ مواد شائع کرسکتے ہیں یا نہیں۔

حالیہ خطاب میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ وہ اس شخص کو پاکستانی نہیں مانتے جو شریعہ اور آئین پر یقین نہیں رکھتا۔ یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ آئین کے مطابق سیاست میں مداخلت سے گریز کرتی ہے؟

آج جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ عوامی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہے۔ حکومتی اتحاد کے وہ رہنما جو آج سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کے عمل کی زورو شور سے حمایت کررہے ہیں، وہ اقتدار میں رہنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لینے سے نہیں کتراتے۔ حالیہ اقدام پر ستائش، مستقبل میں ان کے لیے وبال بن سکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 7 اکتوبر 2024
کارٹون : 6 اکتوبر 2024