کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے پانی، سیوریج چارجز میں 23 فیصد اضافہ کردیا
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن (کے ڈبلیو ایس سی) نے پانی اور سیوریج سہولیات کی فراہمی کی قیمتوں میں 23 فیصد (پانی کی فراہمی کے لیے 9 فیصد اور سیوریج کی سہولیات کے لیے 14 فیصد) اضافہ کردیا، اس فیصلے پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہریوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ رواں ہفتے کے اوائل میں میئر کراچی اور بورڈ چیئرمین مرتضٰی وہاب کی زیر صدارت کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پانچویں اجلاس میں کیا گیا۔
حزب اختلاف کی جماعت متحدہ قومی مومنٹ پاکستان نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی جانب سے چارجز میں اضافے پر اس وقت احتجاج کیا جب لوگوں نے اس معاملے پر اپوزیشن جماعتوں اور شہری حقوق کی مہم چلانے والے افراد کی خاموشی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے شہریوں نے کہاکہ پانی اور سیوریج کی نرخوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ پانی فراہم کرنے والا ادارہ پانی کی بلاتعطل فراہمی اور سیوریج کی نکاسی کو یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
میئر کراچی کا قیمتوں میں اضافے کا دفاع
ڈان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ پانی اور سیوریج کے نرخوں میں اضافہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے مالی حالات اور سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی اور سیوریج کے نرخوں میں اضافہ سالانہ مہنگائی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ہر سال کیا جاتا ہے۔
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ واٹر یوٹیلٹی کو اپنے دھانچے اور خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی آمدنی اور ریکوری میں اضافہ کرنا ہوگا۔
قبل ازیں، کارپوریشن نے سالانہ بنیادوں پر سیوریج اور پانی دونوں کے نرخوں میں 9 فیصد اضافہ کیا تھا لیکن رواں برس سیوریج کے چارجز میں 9 فیصد کے بجائے 14 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے افسر سید صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ نئی قیمتیں یکم جولائی سے نافذ العمل ہوئی ہیں۔
نرخوں میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ایکٹ 2023‘ کے تحت سالانہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے سہولیات کی بہتر طور پر فراہمی کے لیے نرخوں میں اضافہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
واٹر یوٹیلٹی چیف نے کہا کہ مہنگائی کے پیش نظر سروسز چارجز میں اضافے کا مطالعہ کرنے کے لیے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی گئی تھی جنہوں نے پانی اور سیوریج کی سہولیات دونوں کے نرخوں میں 75 فیصد تک اضافے کی تجویز دی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نرخوں میں اضافہ کنسلٹنٹ کے تجویز کردہ اضافے کا صرف ایک تہائی ہے۔
سید صلاح الدین احمد نے کہا کہ سیوریج کی سہولیات کے نرخوں میں مزید اضافہ انفراسٹرکچر کی بہتری اور سیوریج کے ٹریٹمنٹ کے لئے مزید فنڈز کی ضرورت کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے اجلاس میں 9 نکاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا تھا جس میں بورڈ کے چوتھے اجلاس کے منٹس کی منظوری بھی شامل ہے۔
واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ بورڈ نے مالی سال 25-2024کے لیے واٹر یوٹیلٹی کے 46.259 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کی منظوری بھی دی ہے۔
اجلاس میں بورڈ نے واٹر کارپوریشن ریگولیشنز 2024 میں ترمیم کی بھی منظوری دی جس میں زیر زمین پانی نکالنے، اضافی 65 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی کے لیے کمیٹی کی تشکیل شامل ہے۔
اجلاس میں بورڈ نے گریڈ 19 کے افسران سید افتخار علی شاہ، احمد راجپوت، محمد اکرم بلوچ، جمیل انصاری اور سیف الدین اعوان کو گریڈ 20 میں ترقی دینے کی بھی منظوری دی۔
اجلاس کے دوران بورڈ کے اراکین نے کراچی کے شہریوں کے لیے بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
اپوزیشن لیڈر کی مخالفت
دوسری جانب، سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی جانب سے پانی اور سیوریج کے نرخوں میں اضافے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت اسمبلیوں سمیت تمام فورمز پر اس اضافے کے خلاف احتجاج کرے گی۔
انہوں نے میئر کراچی کو نرخوں میں اضافہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کے پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز کریں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی زیر زمین پانی کی فراہمi اور نکاسی آب کا ڈھانچہ چار دھائی پہلے بنایا گیا تھا اور اب وہ تباہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے زیادہ تر حصوں میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کی نکاسی نہیں ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہری باقاعدگی سے اپنے بل جمع کراتے ہیں، پھر بھی نلوں میں پانی نہیں آتا۔
رہنما ایم کیو ایم علی خورشیدی نہ کہا کہ میئر اپنی صوبائی حکومت سے صوبائی فنانس کمیشن کا مطالبہ کرنے کے بجائے شہری اداروں کا مالی بوجھ شہر کے عوام پر ڈال رہے ہیں۔