• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ڈگری کی منسوخی کا معاملہ: پروفیسر کو حراست میں لینا ’یقینی طور پر‘ اتفاق تھا

شائع September 3, 2024

’ڈیلولو از سلولو‘

اوریجن: جین زی کے نوجوانوں کی طرف سے سامنے آیا۔

مفہوم: اس وقت تک سوچ کی دنیا میں رہو جب تک وہ سچ نہ ہوجائے یا خوابوں میں رہنا ہی حل ہے۔

موجودہ لوکیشن: بومرز (1946ء سے 1964ء کی پیدائش) اور جین ایکس (1965ء سے 1980ء تک کی پیدائش) حکمرانوں کے ذہنوں میں۔

ہفتے کو کراچی کے ایک یونیورسٹی پروفیسر کو اس وقت چند گھنٹوں کے لیے حراست میں لے لیا گیا کہ جب انہوں نے ایک طالب علم کی ڈگری کے معاملے پر یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ پر دباؤ کے حوالے سے ٹوئٹ کیا۔

یہ بہ ظاہر ایک چھوٹا مقامی معاملہ لگتا ہے لیکن یہ ہرگز چھوٹا معاملہ نہیں۔ عموماً طلبہ، ڈگریاں اور یونیورسٹی انتظامیہ اپنی معمول کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن متعلقہ پروفیسر کوحراست میں لےکر گھنٹوں پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا اور ان کی اہلیہ، ساتھی اساتذہ اور دیگر افراد نے سوشل میڈیا پر ٹوئٹس پر ٹوئٹس کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا جبکہ ہم جیسے لوگ جو ایکس فالو کرتے ہیں، اس معاملے کو نظرانداز نہیں کرپائے۔

یہ معاملہ صرف پروفیسر کی اسیری کی وجہ سے اہم نہیں تھا بلکہ اس ’طالب علم‘ کی وجہ سے بھی تھا جس کے حوالے سے انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا۔ طالب علم ہائی کورٹ کے جج ہیں، اسی ہائی کورٹ کے جس کے ججز نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر دباؤ سے متعلق آگاہ کیا تھا اور متعلقہ جج بھی انہیں میں شامل تھے۔

اس کے بعد سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ان کے تمام خفیہ راز ایک ایک کرکے کھل رہے ہیں اور ان کے ’لاقانونیت‘ کے کیسز سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے لائے جارہے ہیں۔ججز پر ایک کیس جعلی ڈگری کا ہے جبکہ دوسرا دوہری شہریت کا۔ اور جب ایس جے سی نے کچھ نہیں کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کی ’جعلی‘ ڈگری کے حوالے سے مطلع کیا گیا اور وہ بھی اب کہ جب بطور وکیل وہ دہائیوں تک کام کرچکے ہیں جبکہ وہ باحیثیت جج بھی سالوں عدلیہ میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

خیر پروفیسر کی جانب واپس آتے ہیں۔

انہوں نے دو تھانوں میں گھنٹوں گزارے اور پھر انہیں جانے دیا گیا جس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اس معاملے کے بارے میں عوامی طور پر بات کی اور بتایا کہ ان کی ’گرفتاری‘ (یا ہم اسے نظربندی کہیں؟) کا مقصد یہ تھا کہ وہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے روبرو اس معاملے پر اپنے رائے نہ دے سکیں۔

دیکھا جائے تو وہ غلط بھی نہیں کیونکہ ان کی ’گرفتاری‘ اور جلد واپسی کے بعد اخبارات نے اگلے روز خبریں لگائیں کہ ’ایک جج‘ کی ڈگری یونیورسٹی انتظامیہ نے منسوخ کردی ہے! کچھ رپورٹس میں جج کا نام نہیں لیا گیا جبکہ دیگر میں کسی سرکاری تصدیق کے بغیر ہی ڈگری کی منسوخی کی خبریں شائع کی گئیں۔

قابلِ بھروسہ ’ذرائع‘ ہمیشہ ان لوگوں کے دفاع میں سامنے آتے ہیں جو ان کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ ’طالب علم‘ کو اپنے دفاع کو حق دیے بغیر ہی ڈگری منسوخ کردی گئی، یہ ایک چھوٹا معاملہ ہے۔ بہت ہی معمولی بات ہے۔

لیکن کسی حد تک یہ حیران کُن نہیں تھا۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ہیرا پھیری اب اتنی واضح ہے جتنا کہ مسٹر بین کے چہرے کے تاثرات ہوتے ہیں یا جان ریورز کی پلاسٹک سرجری نمایاں ہوتی ہے۔

اور پھر بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس کی وضاحت دے سکتے ہیں۔

اگلے روز کراچی پولیس نے ٹوئٹ (یاد رہے کہ ایکس بند ہے) کرکے ’واقعہ‘ کی ’وضاحت‘ دی۔ بہ ظاہر پولیس کو ایک ’اشتہاری‘ ملزم کی اطلاعات ملیں اور اسی بنا پر پروفیسر کو پوچھ گچھ کے لیے تھانے لایا گیا۔ لیکن ایک بار جب پروفیسر نے بتایا کہ ان کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا تھا اور عدالتوں نے اس مقدمے میں انہیں بری کر دیا تھا تو پروفیسر کو جانے دیا گیا۔

بلاشبہ ایسا ہی ہوا ہوگا! ایک ایسا ملک کہ جہاں عسکریت پسند روزانہ کی بنیاد پر حملے کرتے ہیں، فورتھ شیڈول میں شامل مولویوں اور دیگر افراد آزادی سے ملک چھور دیتے ہیں اور سفر کرکے واپس بھی آجاتے ہیں اور سیاستدانوں کے خلاف مقدمات حیرت انگیز طور پر آسانی سے کھول اور بند کردیے جاتے ہیں، وہاں کے ایک تھانے کی پولیس چند گھنٹوں کے لیے اچانک سے انتہائی متحرک ہوگئی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پروفیسر کے خلاف دائر ایک پرانے مقدمے میں سچائی سامنے آنے تک انہیں زیرِحراست رکھیں گے۔

جیسا کہ جین زی کے نوجوان کہتے ہیں، ڈیلولو از سلولو۔ ایسی طاقتیں ہیں جو جھوٹ کو اس وقت تک سچ بتاتی رہیں گی جب تک سب کو اس پر یقین نہ آجائے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ہم سب سوالات کیے بغیر انہیں قبول کرلیں گے۔

اسلام آباد میں پارلیمانی اجلاس اچانک بلا لیا جاتا ہے جس کے ایجنڈے پر بہت زیادہ قیاس آرائیاں ہوتی ہیں۔ ایک جانب حکومت بہ ظاہر آنکھیں بند کرلیتی ہے تو بہت سے نئے اراکینِ پارلیمنٹ اپنے ذاتی بلوں کی آڑ میں انفرادی طور پر پیچیدہ قانونی بلز پیش کردیتے ہیں۔

حکومتی وزرا ڈزنی فلموں کی معصوم شہزادیوں کی طرح اپنی پلکیں جھکا لیتے ہیں جبکہ حکومتی بینچز کے بیک بینچرز اپنے اتحادیوں کے ہمراہ بل کے لیے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک رکن کی جانب سے پیش کیا جانے والا قانونی بل اتنا شاندار تھا کہ دیگر اراکین اس کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہیں اور اتفاق سے یہ تمام اراکین ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، یوں اس بل کو پوری جماعت کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔

اور اگر یہ بل ایسے مشکل فیصلوں یا ججز سے متعلق ہوں جو انتخابات اور اس سے متعلقہ معاملات پر بعض لوگوں کے لیے دردِ سر بن رہے ہیں تو کیا ہی عجیب اتفاق ہے۔ بالکل رومانوی مزاحیہ فلموں کی طرح کہ جن میں ایک پیارا سا سیٹ اپ ہوتا ہے اور جس کے اختتام پر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں اور دو گھنٹوں کے لیے فلم بین حقیقی دنیا سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ اور کوئی بھی ان فلموں میں خامیاں تلاش نہیں کرتا۔

لہٰذا اگر سپریم کورٹ نے آزاد ارکان کو موقع دیا کہ وہ اگر چاہیں تو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلیں تو پارلیمان میں نیا قانون پیش کردیا جاتا ہے جس کے تحت 3 دن بعد اراکین کو اس حوالے سے فیصلہ لینے کا اختیار نہیں ہوگا۔

ایک اور شوقین رکن نے بل پیش کیا جو قانون کے طور پر ججوں کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرنے کا اختیار حکومت کو دے گا۔ اگر ان ججز میں ’جعلی ڈگری‘ یا ’دہری شہریت‘ رکھنے والا کوئی جج شامل ہوتا ہے تو یہ بھی یقیناً ایک اتفاق ہی ہوگا۔

اور لوگ اس پر یقین کیوں نہیں کریں گے؟ ملک میں طویل عرصے سے ایکس کی بندش تو نہیں، کوئی ’فائبروال‘ یا فائروال انٹرنیٹ کی رفتار سست نہیں کررہا، ہاں ایک دن ایک ویب منیجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کیا جا رہا تھا جس نے انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کیا بلکہ نہیں وی پی اینز کے استعمال نے انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی۔ لیکن پھر سامنے آیا کہ نہیں انٹرنیٹ کی کیبلز کو نقصان پہنچا ہے۔ سست انٹرنیٹ اکتوبر تک ٹھیک ہوجائے گا اور اس معاملے پر مزید اطلاعات بھی سامنے آسکتی ہیں۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کہتی ہے کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور وہ آئین کے دائرہ کار میں رہ کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے۔

بومرز اور جین ایکس خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ باقی ہم لوگ سکون سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں کیونکہ ہم تو جانتے ہیں کہ یوں حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024