کیا واقعی آئی ایم ایف پاکستان کو ڈیفالٹ کی جانب دھکیلنا چاہتا ہے؟
میڈیا پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کا یہ بیان گردش کررہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) پاکستان کے ساتھ سیاست کررہا ہے اور فنڈز کی تقسیم میں تاخیر کے لیے اہم لمحات میں اہداف و شرائط تبدیل کررہا ہے۔ وہ لوگ جو اسحٰق ڈار سے واقف ہیں، وہ لمبے عرصے تک بات چیت کرنے کے ان کے رجحان کو بھی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف کبھی کبھار دشمنی کی حد تک عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انہوں نے اگلی قسط کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری حاصل کرنے میں تاخیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’جیو پولیٹکس‘ (جغرافیائی سیاست) کارڈ کا استعمال کیا ہو۔ انہوں نے 1999ء اور پھر 2022ء، 2023ء میں وزیر خزانہ کے طور پر بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا۔
لیکن کیا یہ سچ ہے؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف بورڈ میں جغرافیائی سیاست نہ ہونے کے باعث پریشانی کا سامنا ہے۔ 2001ء سے 2021ء کے درمیان، ملک کو فنڈز باآسانی مل رہے تھے کہ جب پروگرام کی منظوری بھی تیزی سے ہورہی تھی اور جائزے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آرہی تھی اور پاکستان کو چھوٹ بھی خوب دی گئی۔
یہ اندازاہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسا کیوں تھا۔ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد اور مسلسل تعیناتی کی وجہ سے ایسا تھا۔ اگست 2021ء میں جب امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوا تو اسی کے ساتھ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے جانب اپنایا گیا ’خصوصی رویہ‘ بھی ختم ہوگیا۔
اسحٰق ڈار نے لندن میں دیے گئے اپنے ریمارکس میں یہ استدلال کیا کہ آئی ایم ایف نے جغرافیائی سیاست کی وجہ سے آخری قسط کے اجرا کے قبل ’آٹھ ماہ تک‘ جائزوں کی تکمیل کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالیاتی ادارہ پاکستان کو ڈیفالٹ کی جانب دھکیلنا چاہتا تھا۔ ان کا حوالہ ان مہینوں کی طرف تھا جن میں وہ وزیر خزانہ تھے یعنی ستمبر 2022ء سے جون 2023ء تک۔ آئی ایم ایف کا جائزہ درحقیقت ان مہینوں کے دوران رک گیا تھا جبکہ پروگرام اختتام کو پہنچ رہا تھا اور آخری چند جائزے نامکمل تھے۔
لیکن اگر آئی ایم ایف پاکستان کو ڈیفالٹ میں دھکیلنے کی کوشش کررہا تھا تو یہی ادارہ جولائی 2023ء میں اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے لیے اتنا زیادہ متحرک کیوں تھا؟ اور یہ وہ وقت تھا کہ جب مخلوط حکومت کی جانب سے اقتدار عبوری سیٹ اپ کے حوالے کیے چند ہفتے ہی گزرے تھے۔ کیوں بھلا پہلے کسی ملک کو ڈیفالٹ میں دھکیلنے کی کوشش کی جائے اور پھر آخری لمحات میں اسی ملک کو بچانے اور ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف آگے آئے؟
جواب آسان ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو ڈیفالٹ کی جانب نہیں دھکیل رہا ہے یا وہ کوئی جغرافیائی سیاست بھی نہیں کھیل رہا۔ یہ محض کچھ وعدوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا تھا جن کی پاسداری نہیں کی جارہی لیکن جغرافیائی سیاسی اہمیت کم ہونے کی وجہ سے ممالک سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکجز کافی حد تک کم ہوچکے ہیں۔
جولائی 2023ء سے آج تک حالات کیسے تبدیل ہوئے انہیں سمجھنے کے لیے چند اعداد و شمار پر غور کرنا ہوگا۔ آئیے نظر ڈالیں کہ ستمبر 2022ء کے جائزے میں کہ جب اسحٰق ڈار وزیر خزانہ تھے اور جولائی 2023ء میں اقتدار عبوری سیٹ اپ کو منتقل ہوچکا تھا، کے تخمینے کے مطابق پاکستان کے متوقع میکرو اہداف کیا تھے۔
ستمبر 2022ء میں حالیہ مالی سال 2025ء-2024ء کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی آمدنی 97 کھرب روپے متوقع تھی۔ جولائی کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں یہ تخمینہ بڑھ کر 110 کھرب تک پہنچ چکا تھا۔ ان اعداد کو دیکھ کر کوئی بھی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ آئی ایم ایف نے ریونیو کے ہدف کو بڑھا کر اہداف کو بھی تبدیل کیا۔
لیکن پھر دوسرا رخ دیکھیں۔ ستمبر 2022ء میں اس سال کے موجودہ اخراجات سال کے آخر تک 111 کھرب روپے پر آنا تھے۔ جائزہ کے دوران اس تخمینہ میں بھی نظرثانی ہوئی اور یہ 123 کھرب روپے ہوگیا جوکہ 10 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہے۔ جون 2023ء میں ختم ہونے والے مالی سال تک کرنٹ اخراجات 144 کھرب روپے پر آگئے اور یوں آئی ایم ایف نے نظر ثانی کرکے اپنے اہداف میں بھی 20 کھرب سے زائد کا اضافہ کیا۔
جولائی 2023ء کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں طے شدہ اہداف پر سختی سے عمل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک تباہ کن ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب رہا تھا۔ لیکن ماضی میں پاکستان ان اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہا یا اس نے انہیں پورا کرنے میں کوتاہی برتی جس کی وجہ سے معاشی غیریقینی صورت حال کو تقویت ملی۔ ایک ایک کرکے اہداف پر نظر ڈالیں۔ مالیاتی سے بیرونی شعبے تک، پچھلے کچھ سالوں کی کہانی ایک جیسی ہے یعنی استحکام لانے والے پروگرام کی تعمیل ہی کمزور انداز میں کی گئی۔
اس میں تعجب کی بات نہیں۔ اپریل 2022ء کے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت کو کرنٹ اکاؤنٹ، مالیاتی خسارے اور معاشی عدم استحکام وراثت میں ملا۔ اس حکومت کو ایک سخت سیاسی مقابلے کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ساتھ ہی اسے تکلیف دہ معاشی ایڈجسٹمنٹ بھی کرنا پڑیں جس سے حکومت لڑکھڑا گئی۔
اس سے قبل بھی پاکستان تحریک انصاف کی برطرف ہونے والی حکومت کو بھی کورونا وبا کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ جیسے جیسے ان پر عدم اعتماد کی تحریک اور دیگر سیاسی چیلنجز کی صورت میں بوجھ بڑھا تو وہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں لاپرواہی سے کام لینے لگے۔
2020ء کے بعد سے تمام حکومتیں (ماسوائے نگران حکومت کے) صحیح معنوں میں ایڈجسٹمنٹ کے راستے پر چلنے سے قاصر رہیں جس کی بڑی وجہ اس وقت سے جاری شدید سیاسی کشیدگی ہے۔
اسحٰق ڈار کو شاید آئی ایم ایف پر الزام لگانا آسان لگ رہا ہو لیکن ان کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اہداف و شرائط پورے نہ کرنے کی حکومتی روش کے نقصانات تو سامنے آئیں گے۔ ملک جتنا زیادہ اپنے میکرو اکنامک استحکام کے لیے شرائط کی تکمیل میں غفلت برتے گا، قرض دہندگان اتنا ہی کم اس ملک پر یقین کریں گے۔ وہ شکوک میں مبتلا رہیں گے کہ آیا یہ ملک قرضوں کی شرائط کو وقت پر پورا کر بھی پائے گا نہیں۔ یہ احساس جتنا بڑھتا جائے گا، اس ملک کی مالی مدد سے قبل ہمیں انہیں کئی بار یقین دہانی کروانا پڑے گی۔
بس اصل بات یہی ہے۔ یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کی جانب دھکیلنے میں کسی بھی ملک کا جغرافیائی سیاسی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ نہ تو کسی بڑی طاقت کی خارجہ پالیسی کے مفادات کو پورا کرتا ہے جس کا پاکستان مقروض ہے اور نہ ہی کسی کو معاشی فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگوں سے زیادہ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکل سے ملنے والے اس استحکام کی حفاظت کرنا اس کی واحد ذمہ داری ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔