• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
شائع September 20, 2024

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آپ نے کبھی سرکنڈوں یا کیکر کے تیز ہری پتیوں والے درخت جن پر پیلے رنگ کے کھٹی خوشبو والے جھڑ بیری کے بیر جتنے پھول کھلتے ہیں وہاں ہلکے پیلے رنگ میں ڈوبے ہوئے اور تیز سیاہ چونچ رکھنے والے چڑے کو گھونسلہ بناتے ہوئے دیکھا ہے جو تقریباً ہر روز اپنے گھونسلے کو گھاس کے تنکوں سے بُنتا رہتا ہے؟

مجھے نہیں پتا کہ اس چڑے کو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا کیسے پتا چل گیا ہے کہ یہاں کامل کچھ بھی نہیں ہے اور نہ کبھی کامل ہوگا۔ کاملیت کی دوڑ میں ہم سب میدان میں ہیں مگر ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ جس طرح کسی غریب کے آٹے رکھنے کا برتن کبھی نہیں بھرتا اور ایک بے تحاشا دولت مند کی مزید دولت کے لیے بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی، اسی طرح ایک محقق کی تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یعنی کامل کچھ نہیں اور یہی تسلسل ہے جس نے زندگی کے اس شاندار میلے کو قائم رکھا ہوا ہے۔

کراچی کے قرب و جوار میں جو قبائل آ کر آباد ہوئے ان میں سے سب سے پہلے کون آیا تھا؟ یہ ایک گُتھی ہے جس کو سلجھایا تو جا سکتا ہے مگر اس میں مشکلات بہت ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں جوکھیہ، کلمتی، بُرفت، لاشاری، جاکھرا، جاڑیجا، پنھور، بڑچھ اور رانا رہتے تھے۔

یہ وہ زمانے تھے جب سرحدوں کی کانٹے دار جھاڑیاں ابھی اُگی نہیں تھیں۔ لوگ جہاں چاہتے چلے جاتے اور اگر انہیں اس نئی زمین کی معروضی حالتیں اچھی لگیں اور رہنا مناسب لگتا تو وہ اسے اپنی زمین سمجھ کر آباد ہوجاتے تھے۔ مگر یہاں ایک اور سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آخر نقل مکانی کیوں ہوئی خاص طور پر ایران کے مشرقی حصوں سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی طرف اور دس سے پندرہویں صدی تک یہ نقل مکانیاں زیادہ ہوئیں۔ کوئی بھی نقل مکانی نہیں کرتا جب تک کوئی بڑے اسباب نہ ہوں۔

  بڑے اسباب کے بغیر نقل مکانی نہیں ہوتیں—گیٹی امیجز
بڑے اسباب کے بغیر نقل مکانی نہیں ہوتیں—گیٹی امیجز

چلیے کچھ حد تک سیاسی حالات بھی وجہ ہوسکتے ہیں جبکہ ایک اور وجہ جسے ان سب سے اہم سمجھنا چاہیے وہ ماحولیاتی تبدیلی تھی۔ اس کا مختصر سا ذکر ہم پہلے بھی کسی قسط میں کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر قبائل کی بستیاں دریائے سندھ کے مغربی کنارے ہی بستی تھیں اور یہ پہاڑیاں ہی انہیں تحفظ فراہم کرتی تھیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ہم اس حوالے سے تحقیق کرنے والے محترم گل حسن کلمتی سے کوہستان سے متعلق کچھ باتیں سن لیتے ہیں کہ کوہستان کی بود و باش کیسی تھی؟ ’سندھ میں 20 لاکھ سے زائد کوہستان ہیں۔ ان کوہستان میں دادو، جامشورو، ٹھٹہ، قمبر، شہداد کوٹ اور کراچی کا پہاڑی علاقہ شامل ہے اور یہ تقریباً 45 ہزار چورس میلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لسبیلہ سے ہنگول تک کا علاقہ کوہستان میں شامل ہوتا ہے۔ کنڈ ملیر سے حب ندی تک لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔

  کوہستان کا ایک پُرکشش منظر
کوہستان کا ایک پُرکشش منظر

’دونوں اطراف جو زمینیں ہیں ان کی حدود ریونیو کے ریکارڈ میں تو ضرور موجود ہیں مگر یہاں زمین پر کوئی لکیر نہیں ہے اور یہ تمام لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ کھیرتھر، لاکھان، پب، ارڈی، ایری، سرجانی، تائیسر، سنبک، اُٹھ پلان، ملیر، مھیر، بابریوں، پھنگ، پنھنوارو، مری، مکھتھر، ھاڑھو، ھوتیاری، پاچران، کارو، تسری، کانبھو، پبونی، سنگھر، لاکھان، لسر، نارا تھر، مھیو، للو پڑھ، حب، تھدھو، پورالی، لس، لنگھیجی، سکن، باکران، پپری، مول، گنداکھو، بارن، بولہاڑی، من، اُتھل، لاکھڑو، وندر، گڈانی اور دوسرہ پہاڑیاں، نہریں، جھیلیں، ان کا تاریخی ورثہ اور سرمایہ ہیں۔

’اور اس وسیع علاقے پر جب ساون کی جھڑی لگتی ہے تو پہاڑیوں سے کئی آبشار نکل کر جھیلوں کو بارش کے شیریں پانی سے بھر دیتے ہیں اور دس پندرہ دنوں میں اس کوہستان کی وادیوں میں جہاں جہاں تک نظر جاتی ہے تیز ہرے رنگ کی چادر بچھی نظر آتی ہے۔ اس ماحول میں رات کو محفلیں ہوتی ہیں جن میں پھونک والے ساز جیسے بوڑیندو، چنگ، نڑ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ریگستان میں بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ آپ کو وادیوں میں گھاس چرتے ہوئے ملیں گے۔

  کوہستان اور برساتی پانی کا ذخیرہ—تصویر: شبینہ فراز
کوہستان اور برساتی پانی کا ذخیرہ—تصویر: شبینہ فراز

’ساتھ ہی گائیں بھی پالی جاتی ہیں چونکہ یہ مویشی ضرورت پر اچھی رقم کے عوض فروخت کیے جاسکتے ہیں تو ایک کوہستانی کے لیے یہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں زمین کے چھوٹے ٹکڑوں پر جہاں کھیتی ہوتی ہے انہیں ’کھیٹ‘ کہتے ہیں جس طرح تھر میں بھی جہاں چھوٹے چھوٹے زمینی ٹکڑوں میں کھیتی ہوتی ہے اسے بھی کھیٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں جو کھیتی ہوتی ہے ان میں تل، گوار پھلی، مونگ، باجرہ، ٹنڈے، خربوزہ اور ارنڈی کی کاشت ہوتی ہے۔ یہ پیداوار مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہے اور اس سبزی کو گھروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ سبزیاں خشک کر کے گھروں میں رکھ لی جاتی ہیں جن سے پورا سال سبزی اُگائی جاتی رہتی ہے‘۔

  کوہستان اور مویشیوں کے ریوڑ
کوہستان اور مویشیوں کے ریوڑ

کوہستان کے اس مختصر سے تعارف کے بعد ہم واپس ان قبائل کے ذکر پر آتے ہیں۔ یہاں کراچی کے قرب و جوار میں ایک اور قبیلہ رہتا تھا، گبول قبیلہ۔ یہ قبیلہ سندھ میں کب آیا اور کہاں سے آیا اس کے متعلق بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے میں آپ کو ایک لڑائی کی چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں۔

مٹھو گبول، کَچھ میں انورا جوکھیو کے قریبی عزیز کا ساتھ دے کر وہاں کے ایک قبیلے سے لڑا۔ انورا خود ایک ہمت والا اور بہادر انسان تھا۔ اُس کی بیٹی جام بجار کے گھر میں تھی جس سے چاکر پیدا ہوا۔ مٹھو گبول نے کَچھ میں لڑائی کی اور وہاں کے ایک سردار کو مارا اور انورا جوکھیو کے رشتہ دار کو سندھ لے آیا جسے مٹھو گبول وہاں سے بچا کر لایا تھا اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام مُگر تھا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو تاکید کی کہ میں رہوں نہ رہوں مگر وقت پڑنے پر اگر مٹھو کو مدد کی ضرورت پڑے تو اس کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے۔

کچھ وقت کے بعد یہاں کے حسن اور میران جاکھرو نے مل کر محمودانی پیر (آپ اگر گھارو سے جنوب کی طرف کیٹی بندر کی طرف جو راستہ نکلتا ہے اُس پر سفر کریں تو کیٹی بندر سے پہلے میرپور ساکرو کا چھوٹا سا شہر آئے گا، اس شہر سے 10، 12 کلومیٹر مغرب میں محمودانی پیر کی شاندار درگاہ ہے) کے قریب رہنے والے سنگھاروں (سنگھار قبیلے کے اب بھی شاہ بندر اور جھالو کے قریب کچھ گاؤں ہیں) کے مویشی چرائے۔ مویشیوں کی واپسی کے لیے یہ سنگھار مٹھو گبول کے پاس آئے کہ ہمارے مویشی واپس کروا دیں جو جاکھروں کے پاس ہیں۔

  کوہستان کا ایک منظر—تصویر: لکھاری
کوہستان کا ایک منظر—تصویر: لکھاری

مٹھو گبول اپنے ساتھ ھاڑھو احمدانی، للو اور تنگئی نامی شخص کے ساتھ مویشی واپس کرنے کے لیے جاکھروں سے بات چیت کرنے کے لیے نکل پڑے۔ راستے میں انورا کا گاؤں آیا۔ تو مٹھو نے کہا کہ اگر انورا کو نہیں بتائیں گے تو غصہ ہوگا۔ مگر انورا گاؤں میں نہیں تھا مگر مُگر جوکھیو نے مٹھو گبول کا نام سنا تو ان کے ساتھ چل پڑا جبکہ اس رات اس کی شادی تھی۔ یہ وفد جب جاکھروں کے پاس پہنچا تو انہوں نے کچھ مویشی اپنے پاس رکھنے اور دوسرے مویشی واپس کرنے کی بات کی جبکہ مٹھو کے ساتھ آیا وفد تمام مویشی لوٹانے پر بہ ضد تھا۔

کبھی کبھی بات چیت اس مقام تک آ پہنچتی ہے جہاں وہ انا کا روپ دھار لیتی ہے اور پھر اس کا حل باتوں سے نہیں بلکہ جھگڑے یا لڑائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک لڑائی سے انا کی تسکین نہیں ہوئی۔ کبھی کبھی اناؤں کے ریگستان اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ ایک دو لوگوں کے خون سے ان کی پیاس نہیں بُجھتی۔

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ لکھتے ہیں کہ ’اس لڑائی میں مٹھو، ھاڑھو اور مُگر بڑی بہادری سے لڑے اور اپنی زندگی کی قربانی دی۔ اور یہاں سے شمال میں بنبھور تک یہ لڑائی پھیل گئی۔ ان تینوں بہادروں کی یاد میں ملک مرید اور کرمت راج نے پتھر کی ماھیاں [انسائیکلوپیڈ آف سندھیکا کے مطابق، خونریز مقابلے (ماھی) میں مارے گئے نامور بہادروں پر گول پتھروں کی بنائی ہوئی تعمیرات] تعمیر کروائیں جو قدامت میں چھ فٹ اور گول دائرے میں پیلے پتھر سے تعمیر کی ہوئی ہیں، یہ تین ماھیاں بنبھور کے شمال میں دیکھی جا سکتی ہیں، ان تینوں میں دونوں طرف مٹھو اور ھاڑھو کی جبکہ بیچ میں مُنگر کی ماھی ہے‘۔

  ماھیوں بنبھور کے قریب—تصویر: کلیم اللہ لاشاری
ماھیوں بنبھور کے قریب—تصویر: کلیم اللہ لاشاری

اگر آپ غور کریں تو یہ کہانی ہمیں بہت کچھ بتا سکتی ہے۔ ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ جو قبائل باہر سے نقل مکانی کرکے آئے اور یہاں آ کر انہیں لگا کہ یہاں بسنے کے لیے سارے اسباب موجود ہیں۔ کوہستان ہے تو سمندر کا کنارا بھی ہے اور ساتھ ساتھ ڈیلٹا ہونے کی وجہ سے جھیلوں، گھاس اور دھان پیدا کرنے کے لیے زرخیز زمینیں بھی ہیں۔ تو وہ یہاں بس گئے اور پھر دھیرے دھیرے یہاں کے ہی ہوکر رہ گئے۔ ان کی دوسرے قبائل سے دوستیاں یاریاں ہوئیں اور ایسی گہری دوستیاں ہوئیں کہ ایک دوسرے کے لیے اپنی جان بھی ہنستے ہنستے گنوا بیٹھتے تھے۔ انسان ہیں تو معاشی مسائل پر ان کے درمیان دشمنیاں بھی ہوئیں۔

یہاں کے حکمرانوں نے ان دشمنیوں کی چنگاری کو آگ بنایا۔ یہ ذکر تو بعد میں آئے گا کہ کس طرح یہاں کے حاکموں نے ان قبائل کو لڑا کر اپنے سیاسی مقاصد پورے کیے۔ مگر اس وقت ہم اس لڑائی کی کہانی کی بات کررہے ہیں جو ساتھ میں یہ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ احسان کے بدلے میں اگر کبھی جان بھی دینی پڑے تو ہنسی خوشی دینی چاہیے کیونکہ وقت پر مشکل سے نکالنے والا اور مدد کرنے والا محسن ہوتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اُن دنوں کے معاشرے کے یہ اقدار تھے۔

چلیے اب ذرا اس پر بھی بات ہو جائے کہ گبول سندھ میں کب آئے؟ کچھ تحریروں کے مطابق یہ محمد بن قاسم کے اس لشکر کے ساتھ آئے تھے جب محمد نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ کچھ مصنفین کے مختلف خیالات ہیں۔ میں نے محترم عرفان گبول سے پوچھا جنہوں نے گبول قبیلے پر تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مورخین عموماً بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ’مغربی اور مشرقی‘ بلوچستان کا نام دیتے ہیں۔

’ایک حصہ جو اُستان سیستان پر مشتمل ہے اسے مغربی اور جو حصہ پاکستان میں ہے اسے مشرقی بلوچستان کہتے ہیں۔ گبول جب سیستان سے گزرتے ہوئے مکران پہنچے تو گبول قبیلہ دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوا۔ ایک سیوی (سبی) کی طرف گیا اور دوسرا مزید دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے کچھ لسبیلہ گڈانی میں رہے اور دیگر کراچی اور ٹھٹہ میں آباد ہوئے۔ جیکب آباد اور سبی کے گبول کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے گزشتہ آٹھ صدیوں سے ڈومبکی شمار ہوتے ہیں۔ ضلع کچھی (شوران) کے گبول رندوں کے ساتھ جبکہ کراچی اور کشمور کے گبول باالترتیب کلمتی اور بلیدی قبیلے میں شمار ہوتے ہیں‘۔

  سبی کا قدیم قلعہ
سبی کا قدیم قلعہ

1519ء کے زمانے میں ارغونوں اور ترخانوں کے خلاف جو مقامی قبائل نے جنگیں لڑیں، ان میں ہمیں گبولوں کا کردار نظر آتا ہے۔ مغلیہ دور حکومت میں حب سے لے کر کیٹی بندر تک، کلمتی گبولوں سمیت کلمتی قبیلے کے پاس 20 ہزار سے زائد نفری تھی۔ تجارتی قافلے اس وقت سمندری اور خشکی کے راستوں پر ہند اور اندرون سندھ بیوپار کرتے تھے تو ان راستوں پر تجارتی قافلوں کی بہ حفاظت رسد کے عوض مغل حکمران محصول کے طور پر انہیں رقم کی ادائیگی کرتے تھے جوکہ تقریباً 9 ہزار 600 روپے ماہانہ تھی۔

اتنی رقم لینے کے بعد حالات کیسے تھے؟ اس سوال کا جواب ہم الگزینڈر ہملٹن سے پوچھتے ہیں جو 1699ء اورنگزیب کے زمانے میں یہاں بیوپار کے سلسلے میں یہاں آیا تھا۔

اس کی تحریر کی ہوئی مشہور کتاب ’دی نیو اکاؤنٹ آف دا ایسٹ انڈیز‘ جس پر ولیم فوسٹر نے بھی تحقیقاتی نوٹ لکھے تھے۔ 17ویں صدی کا اختتام اور 18ویں صدی کی ابتدا ہورہی تھی۔ ہم ہملٹن کی آنکھوں سے وہ شب و روز دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس زمانے میں یہاں کے امن امان کے حالات کیسی تھے؟

’بہت خراب تھے‘، یہ ہملٹن کہتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ ’اپنے بچاؤ اور تحفظ کا احساس بہت کم تھا، گاؤں ڈاکوؤں کے نرغے میں تھے۔ بیوپاریوں کے قافلے محفوظ نہیں تھے کیونکہ یہ ان پر حملہ کردیتے تھے‘۔

وہ کہتا ہے کہ ’اگر یہاں یہ حالت ہے تو انگلینڈ، فرانس اور جرمنی میں بھی صدی کے ابتدا میں کوئی اچھی حالتیں نہیں تھیں۔ ایسا وقت تھا جب انگلینڈ کا کوئی بھی آدمی خشکی کے راستے لمبا سفر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر سفر کرتا تھا تو مصیبت کے لیے تیار رہتا تھا جسے آنا ہی ہوتا تھا۔ اس لیے وہ 2 بڑے پستول اپنے ساتھ رکھتا تھا تاکہ وہ اپنے مال و اسباب، ڈاکوؤں سے بچا سکے‘۔

  قدیم چوکنڈی کا ایک منظر—تصویر: لکھاری
قدیم چوکنڈی کا ایک منظر—تصویر: لکھاری

ہملٹن کے زمانے میں سمندر، لاہری بندر سے 18 میل دور تھا، بندر کی آبادی کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ ’یہ 100 گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ہے جو لکڑی اور مٹی سے بنا ہوا ہے۔ اس گاؤں کے گرد ایک بڑا قلعہ ہے۔ دفاع کے لیے اس قلعہ کی دیواروں پر بڑی بڑی توپیں نصب ہیں جو یہاں آئے ہوئے تجارتی سامان کو بلوچوں اور مکرانیوں سے بچانے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ ایک اونٹوں کے قافلے کے تحفظ کے لیے 100 سے 200 تک گھڑ سوار ساتھ ہوتے ہیں یہ جیسے ایک روایت سی بن گئی ہے‘۔

وہ اپنے قافلے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے ہملٹن لکھتا ہے کہ ’میں جو مال لایا تھا اس کی مالیت لگ بھگ 10 ہزار پاؤنڈز تھی۔ بندرگاہ اور شہر کے بیچ عدم تحفظ کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی ہندوستان سے تعلق رکھنے والا بیوپاری تب تک مال نہیں خرید سکتا تھا جب تک وہ مال ٹھٹہ کی مارکیٹ میں نہ پہنچ جائے‘۔

1635ء سے 1662ء تک کمپنی نے خوب بیوپار کیا۔ ٹھٹہ اور لاڑی بندر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے تھے۔ لاڑی بندر سے ٹھٹہ دو راستے آتے تھے۔ ایک سمندری اور دوسرا خشکی کا تھا۔ خشکی کے راستے کے بیچ میں یعنی 28 میل پر ایک کارواں سرائے بنا ہوا تھا جہاں قافلوں کے رہنے اور خوراک کا انتظار ہوتا تھا۔ اس سرائے کے نزدیک 30 سے 40 گھروں کا گاؤں تھا۔ جو مرغیاں، بکریاں اور بھیڑیں فروخت کرتے تھے۔

  لاڑی بندر کا مشہور قلعہ—تصویر: لکھاری
لاڑی بندر کا مشہور قلعہ—تصویر: لکھاری

ہملٹن جس قافلے میں شامل تھا وہ کافی بڑا تھا جس میں 1500 جانور صرف سامان لادنے کے لیے تھے۔ زیادہ تعداد میں مرد و خواتین بھی شامل تھے۔ قافلے کی نگرانی کے لیے 200 شہہ سوار تھے مگر پھر بھی تحفظ کے حوالے سے غیریقینی کی صورت حال تھی۔ کارواں سرائے پہنچنے سے پہلے اس کے قافلے کا کچھ ڈاکوؤں نے گھیراؤ کیا مگر ہملٹن کے پاس اچھے بندوق باز تھے جن کی وجہ سے قافلے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہملٹن لکھتا ہے کہ ’سرائے کو محفوظ بنانے کے لیے کوٹ (قلعہ بند دیواریں) تعمیر کی گئی تھی۔ جہاں خود کو محفوظ محسوس کیا جاتا تھا‘۔

  لاڑی بندر یا لاہری بندر کا ایک اسکیچ
لاڑی بندر یا لاہری بندر کا ایک اسکیچ

یہ ان دنوں کے حالات تھے کہ جب مغل سلطنت اپنے آخری شب و روز گزار رہی تھی۔ ہندوستان پر اورنگزیب کی حکومت جو 1658ء سے اس کی وفات مارچ 1707ء تک چلی مگر اُس کی حکومت میں وہ بات نہیں تھی کہ اکبر جتنے وسیع حکومتی دائرے کار کو قائم رکھ سکتی۔ سندھ مرکز سے بہت دور تھا اس لیے اس پر حکومت کرنا شروع سے ہی مغل بادشاہوں کے لیے انتہائی مشکل رہا تھا۔ تو 17ویں صدی میں یہاں حالات سیاسی حوالے سے بہت ہی الگ کیفیت میں تھے۔

اسی زمانے میں سندھ میں ایک سیاسی قوت پنپ رہی تھی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سیاسی طاقت حاصل کی۔ میں مختصر اُس طاقت کے متعلق بتاتا ہوں۔ وہ سیاسی قوت کلہوڑا تھے۔ کلہوڑوں کی حکومت کی ابتدا ہمیں آدم شاہ سے ملتی ہے جو سید میراں محمد جون پوری (وفات 1550ء) کی مذہبی تحریک کے زیرِاثر رہے۔

رچرڈ برٹن لکھتے ہیں کہ ’روحانی شہرت ہی کلہوڑوں کے عروج کا سبب بنی۔ سمہ سرداروں کی حکومت میں آدم شاہ، محمد مہدی کا خلیفہ اور جانشین مقرر ہوا۔ اس نے اپنے خاندان کی ایسی بنیاد رکھی کہ جلد ہی اس نے سیاسی طاقت اور اقتدار حاصل کرلیا جبکہ بکھر سرکار کے ناظم نے 1600ء میں میاں آدم شاہ کو موت کی سزا دے دی۔ اس کے بعد اس سلسلے کو میاں داؤد، میاں الیاس اور میاں علی شاہ نے جاری رکھا‘۔

  روہڑی میں میاں آدم شاہ کا مقبرہ
روہڑی میں میاں آدم شاہ کا مقبرہ

میر علی شیر قانع تحریر کرتے ہیں کہ ’نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کلہوڑوں نے ابڑوؤں اور دیگر کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ مقامی زمینداروں نے ان قبضوں پر بکھر کے نواب سے شکایات کیں اور اس حوالے سے کچھ جنگیں بھی ہوئیں۔ آخرکار 1657ء میں بکھر کے نواب کے ہاتھوں میاں علی شاہ قتل ہوئے‘۔

1657ء کے بعد ہمیں میاں علی شاہ کے بھائی کے بیٹے میاں نصیر محمد کلہوڑو کا نام نظر آتا ہے جو ایک طاقتور اور ذہین حاکم لگتا ہے اور ساتھ ہی اپنی طاقت کو بڑھانے میں بھی مصروف نظر آتا ہے۔ اس وجہ سے وہ مغل شاہی قید میں بھی رہا اور رہائی کے بعد 1692ء میں وفات پائی۔ اس کے بعد اس کی مسند پر اُس کا بیٹا میاں دین محمد بیٹھا۔

کلہوڑا دور حکومت نے کوہستان میں بسنے والے ان قبائل کو اپنے مفادات کے لیے ایک شاندار طریقے سے استعمال کیا۔ آپ اگر تاریخ کے اوراق پڑھیں تو مقامی طور پر زیادہ جنگوں کے میدان اس دور حکومت میں سجے۔

یہ تاریخ کے منظرنامے ہیں جنہیں ہم فقط دیکھ سکتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ ان جنگوں میں کیا استعمال کیا گیا۔ یہ اناؤں کی تسکین کی جنگیں تھیں۔ اور انا کے جنگل انتہائی سوکھے ہوتے ہیں، اُن پر نہ کوئی ثمر لگتا ہے نہ کوئی پرندہ اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور نہ کبھی ان پر ساون کی جھڑی لگتی ہے۔

یہ بس ایک معمولی سی چنگاری کے انتظار میں ہوتے ہیں اور جیسے ہی چنگاری لگتی ہے، یہ بھڑک اٹھتے ہیں۔ کمال ان کے جلنے کا نہیں کمال اُس بالکل معمولی سی چنگاری کا ہے جو وہاں تک کسی نے پہنچائی ہوتی ہے۔

چلیے جلد ہی ملتے ہیں اناؤں کے ان جنگ کے میدانوں میں۔

حوالہ جات

  • کراچی سندھ جی مارئی’۔ گل حسن کلمتی۔ نئوں نیاپو پبلیکیشن، کراچی
  • ’گبول قبیلہ‘۔ محمد عرفان خان گبول۔ ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور
  • ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’جنگناما‘۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔