تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری یا لائن لاسز کا ذمہ دار تمام صارفین کو نہیں ٹھہرا سکتیں، سندھ کابینہ
سندھ کابینہ نے تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کو اجتماعی سزا قرار دے کر وفاقی حکومت سے لوڈ مینجمنٹ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ کابینہ نے تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی یا لائن لاسز کے بہانے علاقے کا پورا فیڈر بند کرنے کو بھی غیر آئینی قرار دیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبے بھر میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر غور کیا گیا اور قرار دیا گیا کہ کچھ صارفین کی جانب سے چوری کی گئی بجلی سے ہونے والے لائن لاسز پر تمام عوام کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ تقسیم کار کمپنیاں عدم ادائیگی اور بجلی چوری کے بہانے پورے علاقے کا فیڈر بند کردیتی ہیں۔
انہوں نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ریونیو جمع کرنے کے نظام میں خامی کو لائن لاسز یا تکنیکی لاسز کی وجہ قرار دیا ۔
انہوں نے کابینہ کو سفارش کی کہ ڈسکوز کو لائن لاسز یا بجلی چوری کے نام پر کسی بھی علاقے کا پورا فیڈر بند کرنے سے روکنے کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے۔
وزیر توانائی سندھ نے کابینہ پر زور دیا کہ لوڈ شیڈنگ کے لیے استعمال کیے جانے والے موجودہ قوانین میں ترامیم کی جائیں اور دلیل دی کہ لوڈ مینجمنٹ کے موجودہ امتیازی قوانین آئین کے آرٹیکل 25 کے منافی ہیں جو کہ مساوات کو یقینی بناتا ہے۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ ایک حالیہ عوامی سماعت میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 2022 میں زیادہ لوڈشیڈنگ کرنے پر کے الیکٹرک اور حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) سمیت 5 ڈسکوز پر 5 کروڑ روپے جرمانے عائد کیے تھے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈسکوز لائن لاسز یا تکنیکی نقصانات کا بوجھ علاقے کے تمام لوگوں پر نہیں ڈال سکتے، چند افراد کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی پر پورے فیڈر کو بند کر نا ناانصافی ہے، بجلی چوری کی روک تھام کے لیے کمپنیاں اپنے طور پر اقدامات کریں۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ توانائی کو ہدایت کی کہ وہ صوبائی کابینہ کی سفارشات وفاقی حکومت کو ارسال کرے۔
کابینہ نے مالی سال 25-2024کے لیے غیر ہنرمند مزدوروں کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کی منظوری دی۔
کابینہ نے صوبے کے 485 تھانوں کے لیے 69.2 ملین روپے کی منظوری دی جس میں کراچی ڈویژن کے 78 تھانوں کے لیے 33.8 ملین روپے شامل ہیں، دیگر ڈویژنز میں 407 تھانوں کیلیے 35.4 ملین روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔
کابینہ نے سندھ پولیس فنانشل پاورز رولز 2019 میں ترمیم کی بھی منظوری دی جس کے تحت گریڈ 16 کے ایس ایچ او کو ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر (ڈی ڈی او) کا اختیار دیا گیا ہے اور ماہانہ 2 لاکھ روپے نکالنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
کابینہ نے محکمہ صحت کی سفارش پر ضلع تھرپار کر میں میٹرنل اور چائلڈ ہیلتھ (ایم سی ایچ) مراکز کی سطح پر اپ گریڈ کی گئی 9 ڈسپنسریز کو غیر سرکاری تنظیم ہیلپ کے حوالے کرنے کی منظوری دی تاکہ انہیں 24گھنٹے چلایا جاسکے۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ کو ہدایت کی کہ تمام اضلاع میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کئے جائیں جس کے لیے محکمہ اپنی تجاویز پیش کرے گا۔
کابینہ نے محکمہ خزانہ کی سفارش پر ڈاکٹر واصف علی میمن کے بطور چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی) کے کنٹریکٹ کی مدت میں نومبر 2024 سے دسمبر 2025 تک توسیع کردی۔