• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

لاہور: طالبہ سے زیادتی کی جھوٹی خبر پھیلانے کا معاملہ، ایف آئی اے نے 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا

شائع October 18, 2024
— فوٹو: ڈان اخبار
— فوٹو: ڈان اخبار

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی جھوٹی خبر پھیلانے کے الزام میں متعدد سینئر صحافیوں، وکلا اور ٹک ٹاکرز کی گرفتاری کے لیے صوبے بھر میں چھاپے مارے اور تین ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر مسلح اور پُرتشدد تحریک چلانے پر اکسانے کے الزام میں قومی اسمبلی کے ملازم راجا احسن نوید، ٹک ٹاکر فیصل جٹ ایڈووکیٹ اور عمر دراز گوندل کو گرفتار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 38 سینئر صحافیوں اور ٹک ٹاکرز کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے، جنہیں مبینہ ریپ سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد کیا گیا ہے۔

جن کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، ان میں نمایاں نام جمیل فاروقی، ایاز امیر، عمران ریاض خان، نعیم بخاری، سمیع ابراہیم، فرح اقرار، پی ٹی آئی کے کارکنان طیبہ راجا، احتشام علی عباسی، مصباح ایڈووکیٹ، فیصل شہزاد، فرید شہزاد، مقدس فاروق اعوان، شاکر محمود اعوان، صدام ترین، احمد بوبک، عبداللہ وڑائچ، میاں عمر ایڈووکیٹ، حسیب احمد، سید خلیق الرحمٰن، چوہدری اخلاص گجر، ملک گل نواز سویا وغیرہ شامل ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ جب ایف آئی اے کی ٹیموں نے ایف آئی آر میں نامزد زیادہ تر سینئر صحافیوں کے مقامات کا پتا لگانے کے بعد چھاپے مارے تو یہ نامزد افراد یا تو چھپ گئے یا خیبر پختونخوا فرار ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے ان صحافیوں کے نئے اور تیزی سے تبدیل ہونے والے مقامات کے بارے میں اپ ڈیٹس حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پنجاب کالج فار ویمن (گلبرگ) کی پرنسپل سعدیہ یوسف کی شکایت پر ایف آئی اے (لاہور) کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے کی گئی انکوائری کی روشنی میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے بیرون ملک سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے والے ملزمان کے ریڈ وارنٹ حاصل کرنے کے لیے دیگر تمام آپشنز بھی استعمال کر رہی ہے، ہم فیس بک اور انسٹاگرام کو بھی خط لکھیں گے تاکہ جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں ملوث اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف مزید کارروائی شروع کی جائے۔

دوسری جانب، پرنسپل سعدیہ یوسف نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ اس فحش سوشل میڈیا مہم نے احتجاج کو بڑھاوا دیا، سوشل میڈیا پر اکسانے کے بعد ایک پرتشدد ہجوم نے گلبرگ میں ہمارے کیمپس پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ گلبرگ کیمپس کے وائس پرنسپل نے کالج کے اوقات کے دوران کچھ طالب علموں کو بغیر اجازت دیگر طلبہ اور عملے کی ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا، پھر جلد ہی ایک پرتشدد ہجوم نے ہمارے عملے پر حملہ کرنا شروع کر دیا اور عمارت کو بُری طرح نقصان پہنچانا شروع کر دیا، مزید کہا کہ سوشل میڈیا مہم کی وجہ سے یہ احتجاج صوبے کے دیگر شہروں میں پھیل گیا۔

ایف آئی اے کے مطابق سائبر کرائم ونگ کی رپورٹس میں 38 سینئر صحافیوں، وکلا اور ٹک ٹاکرز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا، جو پنجاب گروپ آف کالجز کے خلاف مبینہ جعلی پروپیگنڈے کی خبریں شیئر کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ صارفین ادارے کو بدنام کرنے اور لوگوں کو پُر تشدد احتجاج کے لیے اکسانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔

پرنسپل سعدیہ یوسف نے متعدد طالبات کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کی تھی، جس کے دوران مظاہرے میں شامل ایک طالب علم نے جھوٹی خبر پھیلانے میں اپنے کردار پر افسوس کا اظہار کیا۔

طالبہ نے کہا کہ انہوں نے جلد بازی میں غیر مصدقہ معلومات پر مبنی ایک ویڈیو بنائی اور اسٹوڈنٹس کے سوشل میڈیا گروپ میں شیئر کی، ان کا کہنا تھا کہ تمام لڑکیاں ہمارے گروپ میں پوسٹس شیئر کر رہی تھیں اور میرے ہم جماعتوں نے مجھے اس بارے میں ویڈیو بنانے کے لیے کہا، تحقیق کیے بغیر میں نے ایک وی لاگ بنایا اور اسے اپ لوڈ کیا، مجھے اپنے اس عمل پر شدید افسوس ہے اور میں غلط معلومات پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرنے پر معافی مانگنا چاہتی ہوں، میں آج یہاں اپنی مرضی سے اپنی غلطی قبول کرنے آئی ہوں۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اس طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں پُرتشدد ہجوم کے ہاتھوں سرکاری اور نجی انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔

دوسری جانب لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) بلال صدیق کمیانہ نے کہا کہ پولیس نے گزشتہ 2 دنوں میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران 55 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

ڈی آئی جی لاہور آپریشنز کے ہمراہ سی سی پی او نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی اس وقت شروع کی گئی جب مظاہرین نے پولیس پر پٹرول بموں سے حملہ کیا اور پولیس کی 7 موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی۔

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس شواہد موجود ہیں کہ تحریک انصاف کی انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبہ کو پُرتشدد مظاہروں کے لیے اکسایا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ طلبہ کو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ذریعے مشتعل کیا گیا تھا، آئی ایس ایف کے سابق رہنماؤں نے طالب علموں کو مسلسل اکسایا، مزید کہا کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ویڈیوز دستیاب ہیں۔

واقعہ کا پس منظر

واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔

پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024