’ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے‘
امریکا کے شہریوں نے اپنے اگلے صدر کے انتخاب کے لیے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ ان کے ووٹ کا فیصلہ نہ صرف اندرونی پالیسیز کو ترتیب دے گا بلکہ یہ جنگ، تنازعات، مصنوعی ذہانت اور عالمی معلومات تک رسائی کے منظرنامے میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی اپنے اثرات مرتب کرے گا۔
کیا کاملا ہیرس دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کے باوجود عالمی طاقت کے طور پر امریکا کے کردار کو برقرار رکھنے کی ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسی کو آگے بڑھائیں گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کا ’سب سے پہلے امریکا‘ کا مؤقف امریکی رائے دہندگان کو قدامت پسند ری پبلکن سیاست کی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟ پولنگ سے قبل امریکی قوم اور ووٹر بیس یکساں طور پر منقسم دکھائی دیے جس کی بنا پر یقین کے ساتھ نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات تاریخ کے ساتھ منسلک ہیں جوکہ 1980ء کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران اس کا اتحادی بنا اور اسی تاریخ کی بنا پر دنیا کی سب سے بڑی معاشی و سیاسی قوت کسی نہ حد تک پاکستان پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ امریکا کے لیے پاکستانی عوام کے احساسات پیچیدہ ہیں۔ اگرچہ یہاں عوام کی بڑی تعداد امریکا مخالف نظریات کا پرچار کرتی ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم کا حصول ہو یا مستقل رہائش، نوجوانوں کی ترجیحات کی فہرست میں امریکا اولین ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے گھر گھر میں امریکی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ میکڈونلڈز، پیپسی، کوکا کولا، مائیکروسافٹ، گوگل، فیس بُک اور یوٹیوب کے صارفین کی پاکستان میں ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں عوام کی بڑی تعداد ان برینڈز کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ یوں کچھ حلقوں میں امریکا کی ثقافت سے وابستگی اور امریکی سیاست کے حوالے سے عدم اعتماد کا یہ امتزاج ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔
امریکا میں 6 لاکھ 25 ہزار سے زائد پاکستانی نژاد امریکی شہری مقیم ہیں جن کی بھیجی گئی رقوم، پاکستان کی سالانہ ترسیلات زر کا ایک تہائی ہے۔ امریکا پاکستان کا کلیدی تجارتی شرکت دار بھی ہے جس کے ساتھ اس کے گہرے اقتصادی تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کے مختلف شعبہ جات میں درجنوں امریکی کمپنیز فعال ہیں۔
مالی سال 2024ء میں پاک-امریکا تجارت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان کی امریکا کو برآمدات تقریباً 8 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں جس میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا بڑا حصہ تھا۔ یہ برآمدی محصولات میں نمایاں اضافے کا عکاس ہے۔
اگرچہ اس عرصے کی مجموعی درآمدات کے حوالے سے جامع ڈیٹا دستیاب نہیں لیکن درآمدات عموماً برآمدات سے کم ہی رہتی ہیں۔ امریکا سے درآمدات میں مشینری، الیکٹرانکس اور زرعی اشیا شامل ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اپنی اہم صنعتوں کے لیے امریکی ٹیکنالوجی اور آلات پر انحصار کررہا ہے۔
امریکی حکومت کی پالیسیز بشمول امیگریشن پالیسیز کے پاکستان کی سیکیورٹی، تجارت اور معیشت پر براہِ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ تو یہ سمجھنے کے لیے کہ امریکا کے انتخابی نتائج، پاکستان اور دنیا پر کس طرح اثرانداز ہوں گے، ہم نے سفارت کاری، کاروباری اور اقتصادی ماہرین سے رائے طلب کی۔
سفارت کاروں نے امریکا میں کس پارٹی کی جیت ہوتی ہے اس کے قطع نظر، امید کا اظہار کیا ہے کہ پاک-امریکا تعلقات مثبت ڈگر پر چلتے رہیں گے۔ تاہم سفارتی معاملات کے ماہرین نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان کا کاروباری طبقہ امریکا کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی شراکت داری کو وسعت دینے کے لیے پُرامید نظر آتا ہے جبکہ ماہرِ معیشت زور دیتے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی طاقت ہی امریکا سمیت دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اس کے تعلقات کو تشکیل دے گی۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ باہمی تعلقات میں مثبت پیش رفت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مؤقف اپنایا، ’کوئی شک نہیں کہ انتخابات کے بعد بھی پاک-امریکا تعلقات میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے اور باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا دونوں ممالک کے مفادات کے لیے اہم ہے‘۔
سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے کھرا انداز اپناتے ہوئے زور دیا کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان کو اس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ثابت قدم رہنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ’افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد سے واشنگٹن کے لیے پاکستان کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی، اس دوران امریکا نے پاکستان کے اندرونی معاملات کو نظرانداز کیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد امریکی حکمت عملی میں تبدیلی آسکتی ہے۔
’پاکستانی تاریک وطن کی بڑی تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ امریکا اپنی ترجیحات کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ترتیب دے گا جس میں چین ایک اہم عنصر ہے۔ امریکا اور بھارت کی اسٹریٹجک شراکت داری کے تناظر میں ضرورت ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے عوامل جیسے افغانستان اور ایران کے علاوہ غزہ اور لبنان کے تنازعات بھی پاک-امریکا تعلقات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، لیکن ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکا میں اندرونی طور پر کھڑے ہونے والے مسائل، زیادہ نتجہ خیز ثابت ہوں گے۔ کاملا ہیرس کے ساتھ تعلقات مستحکم رہتے اور اسی طرح چلتے جیسے گزشتہ چند سالوں سے چلے آرہے ہیں۔ یہ تعلقات صرف اسی صورت میں نیا رخ اختیار کرتے اگر پاکستان معاشی استحکام حاصل کرلیتا یا خطے میں اپنی اہمیت کو مزید بڑھانے میں کامیاب ہوجاتا۔ جہاں تک قانونی طور پر امیگریشن کا معاملہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد بھی میں اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دیکھتا‘۔
اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے سیکرٹری جنرل عبدالعلیم نے بھی امریکا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی استحکام کی اہمیت پر زور دیا۔
’ایک ڈیموکریٹک امریکی انتظامیہ شاید پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات، علاقائی استحکام اور کثیر جہتی امداد کی حمایت جاری رکھے جبکہ وہ ممکنہ طور پر مالی امداد میں اضافہ بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ری پبلکن قیادت امداد دینے کے بجائے دو طرفہ تجارت کو ترجیح دے سکتی ہے۔ اور ریگولیٹری اصلاحات، ایک ایسا شعبہ ہے جہاں او آئی سی سی آئی زیادہ سے زیادہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چین اور روایتی شعبہ جات کے علاوہ بھی اپنے ایف ڈی آئی کو متنوع بنائے۔ اگر امریکا تجارتی پالیسی کو اپناتا ہے تو یوں سرمایہ کاری کے شعبے میں نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں بالخصوص اگر پاکستان ٹیکنالوجی اور صاف توانائی جیسے شعبہ جات میں عالمی معیار کے مطابق فعال ہوتا ہے تو اس سے امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے۔
’امریکی امیگریشن پالیسیز پاکستانی تارکین وطن پر اثرانداز ہوں گی۔ ایک جمہوری حکومت ہنرمند کارکنان کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے ترسیلات زر میں اضافہ ہوسکتا ہے‘۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر اور ڈائریکٹر سوشیو اکنامک انسائٹس اینڈ اینالیٹکس ڈاکٹر ندیم الحق نے پاکستان کو درپیش چیلنجز کے لیے بیرونی عوامل کو موردِ الزام ٹھہرانے کے رجحان پر تنقید کی۔
انہوں نے دلیل دی کہ بہت سے مسائل ملک کے اپنے پیدا کردہ ہیں، عالمی منڈی کے ساتھ محدود تعاون کی وجہ سے ہماری معیشت بند گلی میں کھڑی ہے، یہ تجارت سے جی ڈی پی کے صرف 30 فیصد کے تناسب سے ظاہر ہے جوکہ دنیا میں سب سے کم ہے۔
ندیم الحق نے آزاد تجارت اور اصلاحات کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی ملک نے صرف اندرونی بیوروکریٹک معاملات تک خود کو محدود کرلیا ہو تو ایسے میں عالمی واقعات اس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ تاہم تنہا اور لاتعلق رہ کر ہم اپنے لیے ترقی کے راستے بند کررہے ہیں‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔