اداریہ: ’اسرائیل کے حامی ٹرمپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ تنازع ختم کرنا امتحان ہوگا‘
آنے والے سال کے پہلے مہینے جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے لیے وائٹ ہاؤس میں واپسی ہوگی جنہوں نے صدارت کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ کا مطلوبہ ہدف عبور کرلیا ہے۔
دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عالمی ممالک اب ٹرمپ کی صدارت سے ڈیل کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اگرچہ ان کے بہت سے سیاسی نظریات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکی طاقت کے سب سے بااثر عہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی بہترین انداز میں واپسی ہوئی ہے۔ فردِ جرم، قاتلانہ حملہ اور مستقبل کے لیے اپنی پالیسیز واضح نہ کرنے جیسے چینلجز، ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس کی جانب پیش قدمی میں رکاوٹ نہیں بنے۔
امریکا میں اندرونی طور پر دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر سب سے بڑا محرک شدید مہنگائی ہے جس نے بہت سے امریکیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب راغب کیا۔ ڈیموکریٹس سے بھی کوتاہیاں سرزد ہوئیں جیسے جو بائیدن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو ’فضلہ‘ کہا، تو ان سب عوامل نے بھی ان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
درحقیقت ڈیموکریٹک پارٹی اور اکثریتی مین اسٹریم میڈیا یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور کیوں عوام کی اتنی بڑی تعداد مرکزی دھارے کے سیاستدانوں سے خائف ہے کیونکہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور سیاسی قوت ابھرنے میں مدد کی۔
خارجی محاذ پر دیکھیں تو جو بائیڈن کی انتظامیہ نے غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی نسل کشی کی مہمات کی غیرمشروط اور مضبوط حمایت کی جس نے زیادہ تر عرب-مسلم امریکی شہریوں کو برہم کیا۔ سوئنگ اسٹیٹس میں عرب-مسلم امریکیوں کا قابلِ ذکر ووٹرز بلاک ہے۔ ان ریاستوں میں بہت سے رائے دہندگان نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کیونکہ وہ ری پبلکنز کے نظریات سے اتفاق رکھتے تھے کیونکہ وہ ڈیموکریٹس سے زیادہ نہیں لیکن ان کے ہی جتنے اسرائیل کے حامی ہیں، بلکہ انہوں نے جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کو سزا دینے کے لیے ایسا کیا۔
بہت سے حلقوں میں ٹرمپ کی واپسی سے متعلق پائے جانے والے ابہام جنوری تک ختم ہوجائیں گے اور انہیں ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے اپنے وعدے کو پورا کرنا ہوگا۔ امریکا میں انہیں مہنگائی کم کرنے اور مینوفیکچرنگ شعبے میں ملازمتوں کو واپس امریکا میں لانے کے لیے مضبوط منصوبے بنانا ہوں گے۔ لیکن دنیا کے لیے ان کا سب سے بڑا امتحان مشرقی وسطیٰ اور یوکرین میں جنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ٹرمپ یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ یوکرین تنازع ’24 گھنٹوں‘ میں ختم کرسکتے ہیں اور انہوں نے یوکرینی صدر کو ’سیلزمین‘ کہا جس نے یہ اشارہ دیا کہ امریکا کی جلد ہی کیف کو ڈالرز کی امداد بند کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک اسرائیل کا معاملہ ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اس کے سب سے بڑے حامی ہیں اور اسرائیل میں دائیں بازو کے حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے لیے پُرجوش تھے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اسرائیل کی جانب اپنے واضح جھکاؤ کے ساتھ وہ کس طرح مشرقِ وسطیٰ میں امن لانے کے عرب-مسلم شہریوں سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نیوکنزرویٹو ونگ کے سپورٹرز ان پر دباؤ ڈالیں گے کہ امریکا عالمی تنازعات میں اپنی فوجی مداخلت کا سلسلہ جاری رکھے جبکہ دوسری جانب ’سب سے پہلے امریکا‘ کے حامی چاہیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی تنازعات کے بجائے اپنے ملکی معاملات پر توجہ دیں۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ کس حلقے کی جیت ہوگی۔
پاکستان کی جانب آئیں تو گزشتہ چند امریکی حکومتوں نے ہمارے ساتھ سرد نہیں تو گرم جوش تعلقات بھی نہیں رکھے ہیں اور اب ٹرمپ کے نئے سیٹ اپ میں بھی تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔