ڈائیلاسز کے مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص، ’ہمارا صحت عامہ کا شعبہ بیمار ہے‘
جنوبی پنجاب میں واقع صوبے کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سے ایک، ملتان نشتر ہسپتال کا نام آپ سب نے سنا ہی ہوگا جہاں ہر سال ہزاروں مریض علاج کی غرض سے جاتے ہیں۔
اگر آپ اس ہسپتال سے واقف نہیں ہیں تب بھی آپ کو 2022ء میں پیش آنے والے واقعے کا علم ہوگا کہ جب ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں اسی ہسپتال کی چھت پر متعدد لاشیں موجود تھیں جنہیں یونہی گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چھت پر 200 سے 500 لاشیں موجود تھیں (جبکہ وہاں صرف چار لاشیں موجود تھیں) اور یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ یہ لاپتا افراد کی لاشیں ہیں جنہیں ہسپتال انتظامیہ ٹھکانے لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن جب حقائق سامنے آئے وہ اتنے سنسنی خیز نہیں تھے بلکہ یہ تو پاکستانی معاشرے کے تلخ حقائق تھے جن پر حیرانی کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ان افراد کی لاشیں تھیں جن کی شناخت نہیں ہوئی تھی یا جن کے ورثا کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں جبکہ ان لاشوں کو خصوصی کمروں میں منتقل کیا جانا تھا۔ اس کے بجائے ہسپتال کے عملے نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں چھت میں کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا۔ یہ ایک غیرانسانی فعل تھا جس پر اس وقت کی حکومت خوب متحرک ہوئی کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے گی۔ پاکستانی روایات کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
اب سال 2024ء میں نشتر ہسپتال ایک اور بار اپنی غفلت کے باعث خبروں میں ہے۔
نشتر ہسپتال میں معمول کی بنیاد پر ڈائیلاسز کروانے والے گردے کے ایک مریض کی ایچ آئی وی کے باعث موت کے بعد یہ سامنے آیا کہ ایچ آئی وی مریضوں کے لیے مختص تین ڈائیلاسز مشینوں کو گردوں کے ان مریضوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جنہیں ایچ آئی وی کا مرض لاحق نہیں۔ اس کا نتیجہ کیا سامنے آیا؟ گزشتہ ہفتے ڈان اخبار میں آصف چوہدری کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 30 مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
26 اکتوبر کو ہسپتال کو ادراک ہوا کہ ان سے کیا غفلت سرزد ہوئی ہے لیکن انہوں نے مبینہ طور پر روایت کے مطابق اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ ایک مریض کی موت کے بعد یہ خبر منظرعام پر آئی۔
اس سے بھی شرم ناک یہ بات تھی کہ جب خبر پھیلنے پر مریضوں نے نشتر ہسپتال سے ہی ایچ آئی وی ٹیسٹ کروایا تو وہ منفی آیا۔ مریضوں نے نجی لیبارٹریز سے دوبارہ ٹیسٹ کروایا جن کے نتائج مثبت آئے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ یا تو ہسپتال کی لیبارٹری اپنا کام ٹھیک نہیں کررہی یا پھر انہوں نے نتائج تبدیل کیے۔ وہ لوگ جو پاکستان کے صحت عامہ کے شعبے سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ دونوں امکان قابلِ تصور ہیں۔
چونکہ میری فیملی کے فرد معمول کی بنیادوں پر ڈائیلاسز کرواتے ہیں تو اپنے تجربے کی بنیاد پر اُن لوگوں کو بتاتا چلوں کہ ڈائیلاسز کیسے ہوتا ہے جنہیں اس عمل کا علم نہیں۔ ہر سیشن سے قبل بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ مریض کو کوئی ایسا موذی مرض لاحق تو نہیں جیسے ہیپاٹائٹس وغیرہ جس سے ڈائیلاسز کی مشین میں جراثیم یا وائرس منتقل ہونے کا خدشہ ہو۔ نشتر ہسپتال کے حالیہ واقعے کے حوالے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یا تو مریضوں کے بلڈ ٹیسٹ نہیں کیے گئے یا پھر بلڈ ٹیسٹ غیرپیشہ ورانہ طریقے سے کیے گئے جن کے نتائج درست نہیں آئے۔
اس کے علاوہ گردے کے مریضوں کے ہفتے میں کئی ٹیسٹس کیے جاتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ان کے یورین اور کریٹائن لیولز کنٹرول میں ہیں یا نہیں۔
اب یہ تصور کریں کہ اگرچہ ہسپتال کو اپنی غفلت کا علم اکتوبر میں ہوا لیکن ہمارے پاس اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے مختص ڈائیلاسز مشینوں پر کتنے عرصے سے عام مریضوں کا بھی ڈائیلاسز کیا جارہا تھا اور ممکن ہے کہ ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 30 سے کئی زیادہ ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جن مریضوں میں اب تک ایچ آئی وی کی تشخیص نہیں ہوپائی، کیا پتا ان کے زوجین میں بھی یہ مرض منتقل ہوگیا ہو، یعنی شاید یہ مہلک مرض بڑی تعداد میں لوگوں میں پھیل چکا ہو۔ اب ہسپتال کوشش کررہا ہے کہ ان لوگوں کو سراغ لگائے کہ جن میں ایچ آئی وی وائرس پائے جانے کا امکان موجود ہے لیکن اب کافی دیر ہوچکی ہے۔
2016ء میں لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جہاں ڈائیلاسز کے 50 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ یہ معاملہ اس وقت خبروں میں آیا کہ جب بہت سے مریضوں نے ایس آئی یو ٹی سے علاج کروایا جنہوں نے پروٹوکول کے مطابق ٹیسٹ کیے اور ان میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔ جہاں تک نشتر ہسپتال کا معاملہ ہے، وہاں ڈائیلاسز کے مریضوں کے لیے مقرر کردہ ضوابط کی پیروی نہیں کی گئی۔
یقیناً آپ سب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ 2019ء میں رتوڈیرو میں کیا ہوا تھا جہاں ایک مقامی ڈاکٹر جس کے مریضوں کی بڑی تعداد کا تعلق غریب طبقے سے تھا، اس پر الزام لگایا گیا کہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نے انفیکٹڈ سیرنجز کا استعمال دیگر مریضوں پر کیا اور خون چڑھانے میں صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث 282 بچوں اور بالغ افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی (ڈاکٹر خود ایچ آئی وی کا مریض تھا جسے ایک کار حادثے کے بعد خون چڑھایا گیا تھا جس کے بعد اسے یہ موذی مرض لاحق ہوا)۔
جن رپورٹرز نے اس خبر پر کام کیا، وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ واقعہ ڈاکٹر کی غفلت کا نتیجہ تھا لیکن ایک ڈاکٹر کو نظام کی خرابی چھپانے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ ممکن ہے کہ اس ڈاکٹر نے جتنے مریضوں کا علاج کیا ہو، ڈاکٹر کے پاس آنے سے پہلے ہی شاید ان میں سے کئی افراد ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہوں۔
ہمارا صحت عامہ کا شعبہ خود بیمار ہے اور بڑی تعداد میں کمیٹیاں تشکیل دینے سے اس کا علاج ممکن نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔