پاکستان میں 2050 تک بچوں کی آبادی 12 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے، یونیسیف
اقوام متحدہ کے عالمی ہنگامی امدادی فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) کی جانب سے بدھ کو جاری کی گئی ’2024 میں دنیا کے بچوں کی حالت‘ رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2050 تک پاکستان میں بچوں کی آبادی 12 کروڑ 90 لاکھ جبکہ بھارت اور چین میں بالترتیب 35 کروڑ اور 14 کروڑ 10 تک پہنچ سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق بچوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائیجیریا میں بچوں کی آبادی 13 کروڑ 20 لاکھ ہوگی۔
یونیسف نے اپنی اہم رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر بدلتی ہوئی دنیا میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں کیے گئے تو بچپنے کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین بنیادی عالمی قوتیں یا بڑے رجحانات 2050 اور اس کے بعد بچوں کی زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہوں گے، آبادی میں تبدیلی، آب و ہوا، ماحولیاتی بحران اور بدلتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے بڑے رجحانات مستقبل میں بچوں کو درپیش مشکلات اور مواقع کے لیے کلیدی عوامل مہیا کرتے ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ ’ بچے آب و ہوا کے دھچکوں سے لے کر آن لائن خطرات تک بے شمار بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور آئندہ سالوں میں ان میں مزید اضافہ ہوگا’۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی بحران پہلے ہی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے جس میں 2023 ریکارڈ پر گرم ترین سال رہا ہے، خدشہ ہے کہ 2050 سے 2059 کی دہائی میں آب و ہوا اور ماحولیاتی بحران مزید سنگین صورت اختیار کرچکا ہوگا جس میں سن 2000 کے مقابلے میں 8 گناہ زیادہ بچےگرمی کی شدید لہروں، 3 گنا زیادہ بچے شدید سیلابوں اور تقریباً دو گنا زیادہ بچے جنگلات میں لگنے والی شدید آگ کا سامنا کریں گے۔
آب و ہوا کے یہ خطرات بچوں پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے اس کا انحصار ان کی عمر، صحت، سماجی و اقتصافی ترتیب اور وسائل تک رسائی پر ہوگا، مثال کے طور پر آب و ہوا کے لیے سازگار پناہ گاہ، کولنگ انفرااسٹرکچر، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور صاف پانی تک رسائی رکھنے والے بچے کے لیے ان سہولتوں تک رسائی نہ رکھنے والے بچوں کے مقابلے آب و ہوا کے دھچکوں سے بچنے کا امکان زیادہ ہوگا۔
رپورٹ میں تمام بچوں کے تحفظ اور انہیں درپیش خطرات کو کم کرنے کے لیے ٹارگٹڈ ماحولیاتی اقدامات کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق آج یہاں پیدا ہونے والے نوجوان بچے اپنی ترقی کی صلاحیت کا صرف 47 فیصد حاصل کرپارہے ہیں، ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسی فرنٹیئر ٹیکنالوجیز بچوں کو وعدے اور اندیشے دونوں مہیا کرتی ہیں، جو پہلے سے ہی مصنوعی ذہانت کی حامل ایپلی کیشنز ، کھلونوں، ورچوئل اسسٹنٹس، گیمز اور سیکھنے کے سافٹ ویئر کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں لیکن ڈیجیٹل تقسیم واضح ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ اچھی خبریں بھی ہیں، رپورٹ کے مطابق گزشتہ 100 سالوں کے مقابلوں میں بچوں کی تعلیم تک رسائی میں اضافے کا بھی امکان ہے، توقع ہے کہ 2050 کی دہائی میں عالمی سطح پر تقریباً 96 فیصد بچے کم از کم پرائمری تعلیم حاصل کررہے ہوں گے، 2000 کی دہائی میں یہ شرح 80 فیصد تھی۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ تعلیم اور صحت عامہ پر سرمایہ کاری میں اضافے اور سخت ماحولیاتی تحفظ کے بچوں پر بہتر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔