’غیر قانونی مہاجرین کی بے دخلی‘ امریکی معیشت کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن کے لیے سخت تجاویز اور بڑے پیمانے پر امریکا میں بسنے والے غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا منصوبہ امریکا کے لیے اقتصادی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اقتصادی اور معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا میں تعمیرات اور زراعت کے شعبے سے غیر ملکی ورکرز کی بہت بڑی تعداد منسلک ہے، نئے صدر کے منصوبوں پر عمل درآمد سے یہ دونوں شعبے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے تخمینہ لگایا ہے کہ پورے امریکا میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد میکسیکو سے آنے والے لوگوں کی ہے۔
سال 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق غیر قانونی مقیم لوگوں میں سے 83 لاکھ افراد لیبر فورس کے شعبہ جات میں کام کر رہے ہیں، پیو ریسرچ سینٹر کے حالیہ تخمینے کے مطابق یہ تعداد امریکا میں مجموعی ورک فورس کے 5 فیصد سے بھی کم ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے اس سال کے آغاز میں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ’ہمارے شہر غیر قانونی ایلینز سے بھرے ہوئے ہیں، امریکیوں کو لیبر فورس سے نکالا جارہا ہے اور ان کی ملازمتیں چھینی جارہی ہیں‘۔
امریکا میں معیشت کے حوالے سے حقائق بہرحال پیچیدہ ہیں، مشکل سمجھے جانے والے کئی شعبہ جات نے امریکی ورکرز کو لبھانے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔
امریکا کی غیر سرکاری تنظیم، امریکن امیگریشن کونسل (اے آئی سی ) نے ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن منصوبے کے حوالے سے کہا کہ زراعت اور تعمیرات کے شعبہ جات ہر 8 میں سے ایک ورکر کو کھو دیں گے، قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ہر 14 میں سے ایک ورکر کو ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔
ٹرمپ کی نئی مدت میں معاشی ترقی کا کوئی امکان نہیں!
رپورٹ کے مطابق امریکا سے بڑے پیمانے پر بے دخلیوں کے نتیجے میں 30 فیصد سے زائد مستری، مزدور (پلستر کرنے والے، چھتوں کی شیٹرنگ کرنے والے) اور رنگ ساز ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے، جب کہ صفائی ستھرائی کرنے والے 25 فیصد ملازمین کو بھی ڈی پورٹ ہونا پڑے گا۔
امریکن انٹر پرائزز، بروکنگز انسٹی ٹیوٹ اور نسکانن سینٹر کے مشترکہ مطالعے (اسٹڈی ) میں کہا گیا کہ ٹرمپ کا ’امیگریشن منصوبہ‘ 2025 میں امریکا کی جی ڈی پی نمو کو 0.4 فیصد تک دھچکا پہنچا سکتا ہے۔ معاشی شرح نمو پر منفی اثر ابتدائی طور پر پیداواری اور خدمات کے شعبے سے منسلک غیر ملکی ورکرز کی وجہ سے آئے گا۔
اس حوالے سے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’اس وقت قانونی ہجرت اس سطح سے کچھ کم ہے، جو ٹرمپ کے گزشتہ دور میں کورونا وبا سے قبل کی سطح پر تھی جبکہ غیر قانونی مقیم لوگوں کو بے دخل کرنے کی سخت کوششیں حالیہ دہائیوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی شروع ہونے والی مدت کے دوران، ان کے منصوبے کے مطابق مجموعی طور پر 32 لاکھ لوگوں کو امریکا سے بے دخل کر دیا جائے گا، امریکا سے رضاکارانہ ہجرت کرنے والوں میں اضافے کی وجہ سے 2025 میں امیگرنٹس کی تعداد 7 لاکھ 40 ہزار کی منفی سطح تک محدود رہ سکتی ہے جو کہ 2024 میں 33 لاکھ لوگوں پر مشتمل تھی۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی اقتصادیات کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام 83 لاکھ غیر قانونی مقیم لوگوں کو امریکا سے نکالنے کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں، انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے 2028 تک معاشی ترقی بیس لائن تخمینوں سے 7.4 فیصد کم ہوسکتی ہے، اس کا مطلب ہے ٹرمپ کی نئی مدت میں امریکی شرح نمو میں کوئی اضافہ نہیں ہونے والا، یہ سب صرف اس ایک پالیسی کی وجہ سے ممکن ہے۔
اسی دوران امریکا میں 2026 تک مہنگائی کی شرح میں 3.6 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے، بصورت دیگر امریکا میں آجروں کو امریکی ورکرز کو لبھانے کے لیے اجرتوں میں اضافہ بھی کرنا پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر غیرملکیوں کی بے دخلی سے قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
اے ای آئی کے ڈائریکٹر برائے اکنامک پالیسی اسٹڈیز مائیکل اسٹرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ’امیگریشن منصوبہ‘ متعدد شعبہ جات میں قیمتوں میں اضافے کا سبب تو بنے گا ہی لیکن ساتھ ہی مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔