• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

’پاکستان میں آن لائن نگرانی سخت لیکن ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کا کوئی نظام موجود نہیں‘

شائع December 3, 2024

28 نومبر 2024ء کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ویڈیو پوسٹ کی جس میں انہوں نے پاکستان کے پہلے آئی ٹی سٹی کی تشکیل کا اعلان کیا (ایسا کرنے کے لیے انہوں نے یقیناً وی پی این استعمال کیا ہوگا کیونکہ حکومت نے تو ایکس پر پابندی لگا رکھی ہے)۔

ان کا یہ اعلان سن کر یہ خیال آتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں آئی ٹی سٹی بھلا کیا خدمات پیش کرسکتا ہے جہاں انٹرنیٹ، بنیادی پلیٹ فارمز اور ان کے مواد تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ ڈیجیٹل ترقی، عمارتیں بنانے یا سڑکیں بنانے کی طرح نہیں بلکہ یہ لوگوں کو بلاتعطل انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ تمام خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کا نام ہے۔

2024ء کے آغاز سے پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین نے سست رفتاری کا سامنا کیا ہے جس کی لیے مبینہ طور پر سمندر میں انٹرنیٹ کیبلز کو پہنچنے والے نقصان کو وجہ بتایا جاتا رہا۔ اس کے بعد ایکس پر پابندی لگا دی گئی، ویب منیجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کیا گیا، قومی سطح پر فائر وال لگائی گئی، واٹس ایپ میں پیغام رسانی میں رکاوٹیں آئیں اور ورچول پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) بلاک کیے گئے۔

عموماً وی پی این کا استعمال پرائیوسی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں حکومت کی جانب سے پلیٹ فارمز کی بندش کے باعث عوام ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وی پی اینز کا استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں واٹس ایپ کاروباری اور عام افراد کے لیے معمول کے رابطے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ واٹس ایپ پر رکاوٹیں جیسے موبائل ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے آڈیو نوٹس، تصاویر، ویڈیوز، اسٹیکرز بھیجنے اور موصول کرنے میں پریشانیوں نے عوام کو وی پی این کے استعمال پر مجبور کیا ہے۔

حال ہی میں بہت سے صارفین نے شکایات کی ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر چند مخصوص مواد تک رسائی حاصل نہیں جیسے یوٹیوب چینلز کی چند ویڈیوز۔ مثال کے طور پر 26ویں آئینی ترمیم کی وسیع تر کوریج کرنے والے عدالتی رپورٹرز کی ویڈیوز کے نیچے صارفین نے کمنٹس کیے ہیں کہ موبائل ڈیٹا پر وی پی این آن کیے بغیر وہ یہ ویڈیوز نہیں دیکھ پا رہے۔ اور اب تو وی پی اینز بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔

شروع شروع میں جسے تکنیکی خرابی قرار دیا جارہا تھا، جلد ہی پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اعلان کیا کہ وہ وی پی اینز کو رجسٹر کرے گا جس کے لیے انہوں نے دہشتگرد سرگرمیوں اور دیگر ’غیراخلاقی‘ مواد کے روایتی بیانیے کو جواز بنایا۔ اس بار اس نے اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ بھی پیش کیا (جو بعدازاں واپس لے لیا گیا) کہ وی پی این کا استعمال ’غیرشرعی‘ ہے۔

لیکن پی ٹی اے کا رجسٹریشن عمل جس کی ڈیڈلائن بڑھا دی گئی ہے، سب کے لیے نہیں۔ ان کے رجسٹریشن فارم میں دو آپشن ہیں، ایک کمپنی اور دوسرا انفرادی جس کے اہل صرف فری لانسرز ہوں گے۔ اندراج کے لیے سب سے پہلے ایک اکاؤنٹ بنانا ہوگا جس کے لیے کمپنی کا نام، بزنس کی نوعیت، فون نمبر، ایڈریس، فرد کا نام، اس کا ای میل، موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر، کمپنی کے سی ای او یا سربراہ کا ای میل ایڈریس تفصیلات درکار ہوں گی۔

اکاؤنٹ بن جائے تو وی پی این کے رجسٹریشن فارم تک رسائی مل جاتی ہے۔ یہ فارم دیگر معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے جیسے انٹرنیٹ سروس فراہم کنندہ، کسٹومر آئی ڈی، فون نمبر، وی پی این استعمال کرنے کا مقصد، وی پی این کی قسم، مواصلاتی لنک قائم کرنے کی تاریخ، آئی پی ایڈریس اور جامد آئی پی ایڈریس دریافت کرے گا۔

اس سے پرائیویسی اور ٹریک کرنے کی صلاحیت مضبوط ہوگی جبکہ ان کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ رجسٹریشن کے لیے ایک جامد یا مستقل آئی پی ایڈریس درکار ہوگا یعنی جو ایک مقام پر رہے بار بار تبدیل نہ ہو۔ یہ ان ڈائنامک آئی پیز سے مختلف ہوتا ہے جن میں ایڈریس تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جامد آئی پیز کی تعداد محدود ہے جن تک رسائی میں دشواریاں ہوتی ہیں جبکہ یہ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ آئی پی کی تصدیق کے لیے اپنے انٹرنیٹ سروس پرووائڈر سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے صرف کاروبار کرنے والوں کو ہی وی پی این کی ویریفکیشن دی جاسکتی ہے۔

تو فری لانسرز کا کیا؟ یا وہ جو قلیل مدت کے لیے مختلف کمپنیز کے ساتھ کام کرتے ہیں کیونکہ کچھ فری لانسرز رجسٹریشن کے لیے باقاعدہ اپنی معلومات دینے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے؟ یا وہ کلائنٹ جو پرائیویسی کے لیے اپنا ڈیٹا ظاہر نہیں کرنا چاہتے؟

پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل کے پیش نظر، وہ صارفین جو متعدد انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کی خدمات حاصل کرتے ہیں جیسے براڈ بینڈ اور موبائل ڈیٹا، ایسے لوگ سرکاری اور ذاتی وی پی اینز کے استعمال کے لیے اس بات پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ کس وقت کیا کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ محض کارپوریٹ سیکٹر ہی وی پی این استعمال نہیں کرتا۔ اب ایسی صورت میں دیگر وی پی این صارفین کیا کریں؟

ذاتی اور کام کی وجوہات کی بنا پر وی پی اینز پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں کیونکہ اس مواد تک رسائی کے لیے انہیں وی پی اینز کی ضرورت پڑتی ہے جس پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ طلبہ، صحافی، محققین اور گھروں سے ہونے والے چھوٹے کاروبار جس کے لیے لوگ مختلف لوکیشنز سے اپنے طور پر کام کرتے ہیں، وہ تو وی پی اینز رجسٹریشن کے لیے متعین معیار پر پورا نہیں اترتے۔ ایسے تمام لوگ اپنی ضروریات کے مطابق وی پی اینز پر منحصر ہوتے ہیں۔

پاکستان جہاں نگرانی کا عمل سخت ہے لیکن ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کوئی قانون نہیں، سائبرکرائم اور انسداد دہشت گردی کے قوانین توڑ مروڑ کر مطلوبہ افراد کو نقصان پہنچانے، ناقدین کو دبانے اور آن لائن پلیٹ فارمز کی بندش کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں ریگولیٹر احتساب کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں، فیصلے قوانین کے مطابق نہیں بلکہ ایگزیکٹو ذاتی ترجیحی بنیادوں پر لیتی ہے، وہاں لوگوں کی پرائیوسی کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے ڈیٹا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید سخت اقدامات ہونے چاہئیں۔

کیا متعلقہ حکام کو یہ جاننے کی اجازت ہونی چاہیے کہ آپ کب اپنے گھر سے باہر نکلے ہیں، آپ کہاں جارہے ہیں، کس وقت آپ نے کس سے رابطہ کیا ہے؟ کیا انہیں صارفین کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے ان پر مستقل ٹریکر لگانے کی اجازت ہونی چاہیے؟ وی پی اینز پر پابندی لگا کر آن لائن نگرانی کا عمل سخت ہوگا جبکہ اس سے صارفین کے ذاتی ڈیٹا کا تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا۔

آج کے پاکستان میں حکومت اور ریگولیٹر کے ہاتھ میں یہ اختیار ہے کہ ہمیں کب، کیا اور کس حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنا ہے۔ یہاں ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے کوئی قوانین نہیں جبکہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں کہ ہم حکومتی فیصلوں کر چیلنج کرسکیں۔ اتھارٹیز جب چاہیں انٹرنیٹ سروسز بند یا بلاک کردیتی ہیں۔ اور اس معاملے میں عدالتیں بھی مددگار ثابت نہیں ہو رہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک نئی ریت چل پڑی ہے۔

پاکستان کی آن لائن دنیا کی صورت حال بھی ویسی ہی ہے جیسے ہمارے ملک کے حالات ہیں۔ یہاں جس طرح شہروں کو بند کردیا جاتا ہے، علاقوں کی ناکہ بندی کی جاتی ہے، کسی بھی وقت نیٹ ورکس بند کردیے جاتے ہیں، پلیٹ فارمز تک رسائی بند کردی جاتی ہے جوکہ کنٹینرز کی طرح رکاوٹ لگاتے ہیں تاکہ عوام مواد تک رسائی حاصل نہ کرپائیں۔ اس حوالے سے کوئی وقت نہیں دیا گیا کہ آخر انٹرنیٹ میں رکاوٹیں لگانے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وقت دینا ذمہ داری اٹھانے کے مترادف ہے اور اس صورت میں انہیں اپنے اقدامات کا احتساب دینا ہوگا۔

دوسری جانب حکومت کے اراکین ایسے پلیٹ فارم کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر انہوں نے قومی سلامتی اور دہشت گرد سرگرمیوں کے نام پر پابندی لگا رکھی ہے۔ قوم یہ جاننے کی خواہشمند ہے کہ وہ آخر کون سا وی پی این استعمال کررہے ہیں جو بلاک نہیں ہوا۔ کیا ان کا وی پی این رجسٹرڈ ہے؟ کیا ایکس جیسے ممنوعہ پلیٹ فارم تک رسائی اور پوسٹ کرنے کے لیے حکومت کے لیے وی پی اینز کا استعمال ’جائز‘ ہے؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

فریحہ عزیز

لکھاری ڈیجیٹل سیکیورٹی کی ماہر اور ڈیجیٹل حقوق کی وکالت کرنے والے فورم ‘بولو بھی’ کی شریک بانی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024