اداریہ: ’جنوبی کوریا مارشل لا جیسے آسان عمل میں ناکامی کا سامنا کیسے کرسکتا ہے؟‘
ثابت ہوا کہ آزادی کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں جمہوری طرزِ حکمرانی میں منتقل ہونے والا، دنیا کا اعلیٰ ترین تعلیمی نظام اور کم ترین وقت میں مضبوط معیشت بننے والا جنوبی کوریا، بہ ظاہر بغاوت کو انجام دینے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔
ابھی کچھ لوگ کورین زبان میں کہے گئے ’میرے عزیز ہم وطنو‘ کے جملے کا ترجمہ ہی کررہے تھے کہ منگل کی شب صدر یون سک یول کی جانب سے مارشل لا کا اعلان چند گھنٹوں میں واپس بھی لے لیا گیا۔ ایک نو وارد جمہوریت اتنے آسان عمل میں بھلا ناکامی کا سامنا کیسے کرسکتی ہے؟
جنوبی کوریا میں مارشل لا اور فوجی بغاوت کی ایک تاریخ رہی ہے۔ 15 اگست 1948ء کو جمہوریہ کوریا کے قیام میں آنے کے بعد ملک میں 40 سالوں تک فوجی آمرانہ حکومت تھی جس میں بار بار مارشل لا لگائے گئے۔ تاہم جب جنوبی کوریا کے عوام نے اپنے آخری آمر کو 1987ء میں صدارتی نظام تسلیم کرنے پر مجبور کیا تب اس کے بعد سے لگتا ہے کہ وہاں کے عوام جمہوریت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
مارشل لا کی توثیق کا اختیار جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے پاس ہے جس نے صدر کے فیصلے کے ساتھ بالکل بھی اتفاق نہیں کیا۔ صدر کی جماعت، پی پی پی یا پیپلز پاور پارٹی نے کسی ابہام سے بچنے کے لیے اپنے صدر اور کابینہ سے فوری طور پر ناکام مارشل لا کی ذمہ داری اٹھانے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر وزیر دفاع کا استعفیٰ طلب کیا۔ صدر کے سیکریٹریز پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا پی پی پی، صدر یون سک یول سے پارٹی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی ہے یا نہیں۔
مارشل لا کے انتہائی غیرمقبول اقدام کی وجہ سے صدر کو پہلے ہی مواخذے کا سامنا ہے جبکہ ملک کی سپریم کورٹ جائزہ لے گی کہ مارشل لا کا حکم دینے کے لیے طریقہ کار کو پورا کیا گیا تھا یا نہیں۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کردار بھی عجیب ہے۔ ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کھڑکیاں توڑ کر پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے انہیں مزاحمت کا سامنا تھا لیکن انہوں نے عام شہریوں پر گولیاں نہیں چلائیں۔ یہ کافی غیر معمولی تھا بالخصوص دنیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں، یہ عجیب منظر تھا۔
شاید ہمارے خطے میں زیادہ تر ممالک کو یہ شعور آگیا ہے کہ طاقت کے ذریعے حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ بنگلہ دیش کی ہی مثال لے لیجیے جہاں شیخ حسینہ کی حکومت کا تخت الٹنے کے بعد فوج نے بھی خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وہاں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ بنگلہ دیش کی فوج کے پاس وجوہات یا بہانے نہیں تھے جن کا سہارا لے کر وہ ملک کو اپنے کنٹرول میں لے سکتے تھے لیکن فوجی سربراہ کو ادراک تھا کہ اس وقت جب ملک تاریخ کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے، ایسے میں عوام کو اپنے کنٹرول کرنے کا اقدام سنگین غلطی ہوگی۔ جمہوری چینلجز سے نمٹنے والے دیگر ممالک کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
غیرجمہوری نظام حکومت کو دنیا بھر میں مسترد کیا جارہا ہے حتیٰ کہ وہ ممالک جہاں آمرانہ ادوار کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کے مطابق اسے سماجی ارتقا کے عمل کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔