• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:05pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:05pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm

موسمیاتی تبدیلی میں مصنوعی ذہانت کا مثبت اور منفی کردار

موجودہ دور میں اے آئی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کا زائد استعمال ماحولیات کو کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے؟
شائع December 11, 2024 اپ ڈیٹ December 11, 2024 03:19pm

ہماری دنیا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نبرد آزما ہے، اسے ایک نئے محرک کا سامنا ہے۔ مصنوعی ذہانت جو ہماری ڈیجیٹل دنیا کی محافظ ہے اور گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ میں ہماری مدد کررہی ہے، اس کی اپنی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ کسی سائنس فکشن کہانی کا منظر معلوم ہوتا ہے جس میں ہم اپنے سیارے کو بچانے کے لیے جو مشینیں تخلیق دے رہے ہیں، وہ اپنے مطابق زیادہ وسائل استعمال کررہی ہیں جس کے ماحولیاتی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ہر بار جب آپ چیٹ جی پی ٹی سے درجن بھر سوالات پوچھتے ہیں تو آپ کے سوالات کا جواب دینے کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹرز گرم ہوجاتے ہیں جنہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے 500 ملی لیٹر (ایم ایل) صاف پانی استعمال ہوتا ہے جوکہ دو گلاس پانی کے براہر ہے۔ یہ درجن بھر سوالات کے لیے دو گلاس پانی استعمال کرتا ہے جبکہ جی پی ٹی-3 جیسا ماڈل جو اوپن اے آئی (OpenAI) کے تازہ ترین o1 ماڈل سے بہت پیچھے ہے، اس کی ٹریننگ کرتے ہوئے لاکھوں لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اس کے لیے یہ معاملہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں گلیشیئرز پگھلنے سے شمالی علاقوں میں مقیم افراد کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غیرمعمولی بارشوں سے جنوبی علاقوں میں سیلاب آتا ہے، یہاں مصنوعی ذہانت موسم سے موافقت اور پیش گوئی کے لیے اہم ٹول کے طور پر کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔

ایسا ملک جہاں ہر موسمِ گرما میں درجہ حرارت کے گزشتہ تمام ریکارڈز ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کی قلت پیدا ہونے کا مستقل خطرہ موجود ہو، وہاں موسمیاتی تبدیلی کے ڈیجیٹل حل تلاش کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر آنے والی لاگت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل جیوگرافک میں اپنی تحریر میں جیکی اسنو کہتے ہیں، ’آج دنیا کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے تمام ممکنہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی جن میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) بھی شامل ہے‘۔

لیکن اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین نے حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم میں اعتراف کیا ہے کہ اے آئی کی توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کی صورت میں ایک نیا چینلج سر اٹھا رہا ہے، ’کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ہم یہ طلب پوری نہیں کرپائیں گے‘۔

موسمیاتی آفات سے نمٹنے میں مثبت کردار

اگر اس کی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لایا جائے تو اے آئی سیارے کے اعصابی نظام کے طور پر کام کرسکتا ہے جس کا کام معلوم کرنا، پیش گوئی کرنا اور ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہوگا۔

گوگل کے فلڈ ہب کی ہی مثال لے لیجیے جو 80 سے زائد ممالک میں 7 دن پہلے ہی سیلاب کی پیش گوئی کردیتا ہے۔ اس سروس کی مدد سے افریقہ، یورپ، جنوبی اور وسطی امریکا اور ایشیا پیسیفک خطے بشمول پاکستان کی آبادیاں محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتی ہیں۔ سال 2023ء تک یہ 46 کروڑ آبادی کے لیے سیلاب کی پیش گوئیاں کرنے لگا۔ اکتوبر 2023ء میں فلڈ ہب کی سروسز کا دائرہ کار امریکا اور کینیڈا تک پھیل گیا جس نے دریا کے کنارے واقع 800 سے زائد علاقوں کا جائزہ لیا اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو مستفید کیا۔

کیلی فورنیا میں مشین لرننگ الگورتھمز، فائر فائٹرز کی مدد کرتے ہیں جن کا استعمال کرکے وہ جنگلات میں لگنے والی آگ کو ٹریک کرتے ہیں۔ زراعت میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے کاشت کاری کی تکنیک میں جدت آرہی ہے اور پانی کا استعمال کم اور فصلوں کی پیداوار زیادہ ہورہی ہے۔

اے آئی کا یہ استعمال نہ صرف متاثر کُن ہے بلکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ وارننگ کے نظام کو بہتر بنانے سے موسمیاتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو 30 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل سے نمٹنے میں مؤثر کردار ادا کررہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر گلوبل فاریسٹ واچ ریئل ٹائم میں جنگلات کی کٹائی کی نگرانی اور ان سے لڑنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور سیٹلائٹ امیجز کا استعمال کرتی ہے۔

گوگل کا اے آئی گرین لائٹ پروجیکٹ، مانچسٹر، ریو ڈی جنیرو، جکارتا اور ابوظبی سمیت 12 شہروں کے تعاون سے کام کرتا ہے جہاں وہ ٹریفک لائٹس کے اسٹاپ اینڈ گو (یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں گاڑیاں بار بار سڑکوں اور ٹریفک لائٹس پر رک کر بند ہوجاتی ہیں جنہیں دوبارہ اسٹارٹ کیا ہے جس سے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے) منیجمنٹ نظام کو کم کرنے کے لیے اے آئی کا استعمال کرتے ہیں۔ ابتدائی نتائج میں سڑکوں بشمول ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں رکنے میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جس سے چوراہوں پر کاربن اخراج میں 10 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔

فیوژن انرجی کے شعبے میں گوگل ڈیپ مائنڈ نے ایک اے آئی سسٹم تیار کیا ہے جو محققین کو نیوکلیئر فیوژن پلازما کو زیادہ مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے اخراج سے پاک توانائی کی تحقیق کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔

لیکن ان طاقتور اے آئی سسٹمز کو چلانے کے لیے بھاری کمپیوٹنگ توانائی درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جی پی ٹی-3 کی ٹریننگ کے لیے تقریباً ایک ہزار 287 میگاواٹ ہاور کی بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اگر اس اندازے کو درست مان لیا جائے کہ پاکستان میں ایک اوسط گھرانہ 643 کلو واٹ ہاور کی بجلی استعمال کرتا ہے تو جی پی ٹی-3 کی ٹریننگ میں جتنی توانائی صرف ہوتی ہے، اس سے ایک اوسط پاکستانی خاندان کی 2 ہزار سال کی توانائی کی طلب پوری ہوسکتی ہیں۔ رواں سال جنوری میں بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) نے پیش گوئی کی کہ عالمی ڈیٹا سینٹر کی بجلی کی طلب 2022ء کے مقابلے میں 2026ء میں دگنی ہو جائے گی اور اس میں اضافے کی وجہ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔

اے آئی سسٹم سے ہونے والا کاربن کا اخراج بھی قابلِ ذکر ہے۔ ایک بڑے لینگویج ماڈل کی ٹریننگ کے لیے 3 لاکھ کلوگرام کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ نیو یارک سے بیجنگ اور بیجنگ سے واپس نیویارک 125 پروازیں بھیجی جائیں تو اتنی کاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوگی جو لینگویج ماڈل خارج کررہا ہے۔

یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ کے محققین کے مطابق ایسے اے آئی ماڈل کو تربیت دینے میں خارج ہونے والی کاربن، پانچ اوسط امریکی گاڑیوں کی جانب سے پورے لائف اسپین میں خارج ہونے والے کاربن کے برابر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید اے آئی سسٹم کو تیار کرنے کے لیے ماحولیات کو کتنی لاگت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ پانی کی کھپت بھی تشویش ناک ہے۔ جدید ڈیٹا سینٹرز اپنے سسٹمز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بہت زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں یعنی ایک بڑی فیسیلیٹی میں ایک دن میں 5 لاکھ گیلن پانی استعمال ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین امکان ظاہر کرتے ہیں کہ 2027ء تک اے آئی کی پانی کی طلب پورے برطانیہ کے سالانہ پانی کی کھپت کا کے نصف فیصد ہوجائے گی۔

اے آئی کی توانائی کی طلب میں تیز ترین اضافہ

امریکی ریاست آئیووا کا شہر ویسٹ دی موین میں ڈیٹا سینٹر کے قرب و جوار میں رہائش پذیر لوگ یہ جان کر حیران ہوگئے کہ جی پی ٹی-4 جیسے جدید اے آئی ماڈلز کی ٹریننگ کے لیے علاقے کے پانی کے زیادہ ذخائر استعمال ہورہے ہیں۔ مقامی باشندوں کی جانب سے دائر ایک مقدمے سے پتا چلتا ہے کہ جولائی 2022ء میں اوپن اے آئی کے ماڈل کی ٹریننگ مکمل ہونے سے پہلے ڈیٹا سینٹر نے ضلع کے لیے مختص پانی کی فراہمی کا تقریباً 6 فیصد استعمال کیا۔

کرافورڈ نے خبردار کیا ہے کہ محض چند سالوں میں بڑے اے آئی سسٹمز اتنی توانائی استعمال کرسکتے ہیں کہ جس سے کسی ملک کی مجموعی طلب پوری ہوسکتی ہے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اے آئی سسٹمز کی ٹریننگ کے لیے درکار کمپیوٹنگ پاور 2012ء کے بعد سے ہر 3 عشاریہ 4 ماہ بعد دگنی ہورہی ہے۔ مور کے قانون نے واضح کیا تھا کہ کمپیوٹر پاور معمول کے مطابق 18 ماہ بعد دگنی ہوتی ہے لیکن اس میں اضافہ تیزی سے ہورہا ہے۔

لیکن یہ صرف مشین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ماحولیات کے وسائل کو استعمال کرنے کا معاملہ نہیں۔ اے آئی سسٹمز کے ہر حصے کو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اے آئی مشینوں میں استعمال ہونے والی خصوصی چپس کو صاف پانی اور نایاب معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سسٹمز کو چلانے والے سرورز کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی لازمی ہوتی ہے جبکہ اس کی پاور کو اسٹور کرنے کے لیے جو بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں وہ ایسے مواد سے بنتی ہیں جن کی کان کنی کرنے سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مختلف ممالک میں اے آئی کے مختلف ماحولیاتی اثرات

اگرچہ اے آئی کے کچھ فوائد ہیں جیسے یہ بہتر انداز میں موسمیاتی پیش گوئیاں کرسکتا ہے، یہ توانائی کے نظام کو بہتر بناتا ہے جبکہ آفات سے نمٹنے میں مثبت ردعمل دیتا ہے لیکن ان فوائد کے باوجود اے آئی سسٹمز بعض علاقوں اور آبادیوں کو مختلف انداز میں فائدہ پہنچاتے ہیں۔

اور یہ فرق بہت واضح ہے۔ 2022ء میں فن لینڈ میں گوگل کا ڈیٹا سینٹر 97 فیصد کاربن فری توانائی پر چلتا تھا لیکن ایشیا میں اس کے ڈیٹا سینٹرز نے 4 فیصد اور 18 فیصد کے درمیان کاربن فری توانائی کا استعمال کیا۔ اس بڑے فرق کا مطلب ہے کہ کچھ آبادیاں دوسروں کی نسبت فوسل فیول کے استعمال اور فضائی آلودگی کا زیادہ شکار ہیں۔

شاولی رین اور ایڈم ویرمین نے ہارورڈ بزنس ریویو میں نشاندہی کی کہ ’مختلف خطے اور آبادیاں اے آئی کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کا کس طرح سامنا کررہے ہیں، اس میں فرق نمایاں حد تک بڑھ رہا ہے‘۔

یہ مسئلہ مزید سنگینی اختیار کرسکتا ہے۔ 2026ء تک اے آئی کے لیے عالمی توانائی کے استعمال میں 10 گنا اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو بیلجیئم کی بجلی کی کُل کھپت سے زائد ہے۔ امریکا میں اے آئی سے آپریٹ ہونے والے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی 2026ء تک ملک کی کُل بجلی کے استعمال کا تقریباً 6 فیصد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

پاکستان جیسے ممالک جہاں پانی کی قلت ہے اور بوند بوند پانی کی اہمیت ہے، وہاں زراعت اور پینے کا پانی اے آئی سسٹمز میں استعمال ہوسکتا ہے۔

یہ فرق وسائل تک محدود نہیں بلکہ اس میں مہارت کا عنصر بھی شامل ہے۔ او ای سی ڈی کے ذریعے شائع کردہ اسٹیک اوور فلو کے سروے میں سامنے آتا ہے کہ شمالی امریکا میں دنیا کے 30 فیصد اے آئی ماہرین آن لائن طور پر فعال ہیں جبکہ پاکستان میں ان کا تناسب صرف 0.67 فیصد ہے۔ دولت مند ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلنٹ اور کمپیوٹنگ کو زیادہ توجہ دی جائے گی تو ان ممالک کی جانب سے نکالے جانے والے موسمیاتی حل، ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا نہیں کریں گے نہ ہی ان کے مسائل کو حل کریں گے جن کا ترقی پذیر ممالک کا سامنا ہے۔

اے آئی سسٹمز میں توانائی کی بچت کیسے ہوگی؟

ماحول دوست اے آئی بنانے کے لیے سمجھوتے نہیں کرنا ہوں گے بلکہ اس کے لیے ان سسٹمز کو کس طرح ڈیزائن اور استعمال کیا جائے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کی کمپنیز قابلِ تجدید توانائی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ سولر مینز بزنس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ایمازون، مائیکروسافٹ، میٹا اور گوگل جیسی بڑی کمپنیز نے قابل تجدید توانائی کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جو تقریباً 50 گیگا واٹ صاف توانائی کا اضافہ کرتے ہیں جوکہ سویڈن کی بجلی کی کُل پیداوار کے برابر ہے۔

لیکن حقیقی اختراعات تو کارکردگی اور ڈیزائن کے سنگم پر ہورہی ہیں۔

گوگل اے آئی کے جسٹن بر نے کہا کہ ’بہتر ماڈلز کی ٹریننگ سے دراصل زیادہ توانائی کی بچت کی جاسکتی ہے۔ چونکہ یہ ماڈلز روزانہ کی بنیاد پر کئی بار استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے وہ پرانے ورژن کے مقابلے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں زیادہ توانائی بچاتے ہیں‘۔

گوگل کی مشین لرننگ آپٹمائزڈ ٹینسر پروسیسنگ یونٹس (ٹی پی یوز) اس اصول کو عملی شکل میں دکھاتے ہیں۔ ان کا ورژن 4 روایتی سرورز کے مقابلے میں 93 فیصد کم اخراج پیدا کرتا ہے۔

اے آئی سسٹمز کی ٹریننگ کے دوران پیدا ہونے والی کاربن کی مقدار اس بات پر بھی منحصر ہوسکتی ہے کہ ڈیٹا سینٹرز کس ملک میں کہاں واقع ہیں۔ مثال کے طور پر ناروے کا بجلی کا گرڈ کلو واٹ فی گھنٹہ میں صرف 29 گرام جبکہ جنوبی افریقہ میں یہ 709 گرام کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا کرتا ہے۔

کچھ خطے اپنے جغرافیہ کو اپنے فائدے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈین شہر کیوبیک میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور سرد موسم کا امتزاج اچھا موقع فراہم کرتا ہے کہ جس میں ڈیٹا سینٹرز بجلی کے لیے صاف توانائی استعمال کر سکتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی گرمائش کو قریبی گھرانوں کو گرمائش فراہم کی جاسکتی ہے۔

برطانوی سائنسی جریدے نیچر میں اے آئی محقق ایگزینڈرا لوچواونی نے تجویز دی ہے کہ ’ڈیٹا کلاؤڈ فراہم کرنے والوں کو ہائیڈرو یا شمسی توانائی والے علاقوں میں ڈیٹا سینٹرز قائم کرنے کے لیے مزید ٹیکس مراعات کی پیشکش کی جانی چاہیے۔ کیوبیک میں زیادہ تر پاور گرڈ کم کاربن کا اخراج کرتے ہیں جو ہائیڈرو الیکٹرک انرجی پر انحصار کرتا ہے اور سرد موسم میں کمپیوٹنگ مراکز کی گرمائش گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے‘۔

محققین کی کمیونٹیز ’گرین اے آئی‘ کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔ گرین اے آئی ایسی تحریک ہے کہ جس میں کمپیوٹنگ سسٹمز کی کارکردگی اور اس کی ایکوریسی (درست جواب) دونوں کو بہتر بنانے پرتوجہ دی جاتی ہے۔ رائے شوارٹز اور ان کی ٹیم نے پایا کہ معروف اے آئی کانفرنسز میں 90 فیصد پیپرز نے کارکردگی کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ ان سسٹمز کی ایکوریسی اچھی ہو۔ تاہم یہ تبدیل ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس کے بگ سائنس پروجیکٹ جیسی ٹیموں نے بتایا ہے کہ جی پی ٹی-3 جیسے سائز کے ماڈل بنانا ممکن ہے جن کا کاربن کا اخراج بھی کم ہو۔

پانی کو محفوظ بنانا بھی ترجیح بنتا جارہا ہے۔ میٹا کے ڈیٹا سینٹرز نے درجہ حرارت کو بڑھانے اور نمی کی ضروریات کو کم کرنے کا تجربہ کیا ہے، کچھ معاملات میں 40 فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے۔ گوگل نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ وہ 2030ء تک 120 فیصد پانی استعمال کرے گا جس کو مختلف ذرائع استعمال کیے جائیں گے جیسے پُرنم زمینوں سے پانی حاصل کیا جائے گا اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جائے گا۔

بہترین حکمت عملی کے لیے محض انفرادی عوامل پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی بلکہ مجموعی طور پر ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کوپن ہیگن سینٹر آن انرجی ایفیشنسی اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ ’اے آئی کی ذمہ دارانہ ترقی اور استعمال کے کلیدی اصولوں میں ماحولیات کی حفاظت پر بھی توجہ دینی چاہیے‘۔ اس کے لیے اے آئی ہارڈویئر کے لیے مواد کو کس طرح حاصل کیا جاتا ہے سے لے کر جب آلات استعمال میں نہ ہوں تو اسے کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے، ہر چیز پر غور کرنا ہوگا۔

’ہر مسئلے کو مشین لرننگ کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘، یہ کہنا ہے دیپیکا سندیپ کا جو ایک اے آئی سائنسدان ہیں اور بھارت کے شہر بنگلور میں ایک صاف توانائی کمپنی بھارت لائٹ اینڈ پاور کے اے آئی اور ایم ایل پروگرام کی سربراہی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جہاں ممکن ہو وہاں آسان، کم وسائل والے حل پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔

مگر بہتری جلد نہیں آسکتی۔ لیکن بل گیٹس مصنوعی ذہانت اور ماحولیاتی توازن کے حوالے سے زیادہ پُرامید نظر آتے ہیں۔ ایک جانب جہاں اے آئی کی توانائی کی بھوک کے بارے میں خدشات بڑھتے جارہے ہیں، بل گیٹس کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر ٹیکنالوجی کے مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاور گرڈز پر اے آئی ڈیٹا سینٹرز جو اضافی دباؤ ڈالتے ہیں وہ نسبتاً معمولی ہے اور یہ اے آئی کی کارکردگی کے فوائد سے زیادہ ہوگا۔ ’یہ ایسے ممکن نہیں ہوسکتا کہ ہم سوچیں کہ ’اوہ نہیں، یہ ہم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم چیٹ سیشنز کرنے کے عادی ہوچکے ہیں‘۔ بل گیٹس نے اس خدشے کو مسترد کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ ہماری جانب سے اے آئی کا بڑھتا ہوا استعمال موسمیاتی توازن کو بگاڑ سکتا ہے‘۔

اب مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اے آئی میں کوئی بھی نئی پیش رفت توانائی اور وسائل کی کھپت میں اضافے کے بجائے پائیدار اختراع کا باعث بنے۔

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

پاکستان کے لیے یہ پیش رفت چیلنج بھی ہے جبکہ یہ ہمارے لیے اچھا موقع بھی ہے۔ چونکہ پاکستان اس وقت اپنے ٹیکنالوجی کے شعبے کو جدید بنانے اور موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کے حوالے سے کام کررہا ہے تو آج ہم جو انتخاب کریں گے یا جو راستے چنیں گے، وہ طویل مدتی ماحولیاتی اثرات کو جنم دیں گے۔

ڈاکٹر کاشف تالپور، برطانیہ کی سولینٹ یونیورسٹی میں مشین لرننگ کے محقق ہیں، اے آئی ماڈلز کے مکمل لائف سائیکل پر غور کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’ایک اے آئی ماڈل کو دو مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا ٹریننگ جبکہ دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے کہ جب اے آئی مشین آپ کے سوال کے جواب دینے یا پیش گوئی کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ جب صارفین اے آئی مشینوں کو استعمال کرنے لگتے ہیں تو یہ ان مشینوں کی 90 فیصد لائف اسپین ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر پہلے مرحلے کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ لاگت آتی ہے جس میں لاکھوں ڈالرز، فی گھنٹہ ہزاروں کلو واٹ توانائی اور کافی کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ اوسطاً ایک بڑا اے آئی ماڈل اپنی زندگی میں ایک اوسط امریکی کار کے لائف اسپین سے زیادہ کاربن کا اخراج کرتا ہے۔

وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ماڈلز انتہائی توانائی کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ لاکھوں صارفین روزانہ متعدد سوالات جمع کرتے ہیں، ہر ایک سوال کے لیے الگ الگ اندازے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اے آئی ماڈل کی کارکردگی جانچنے کے لیے رفتار ایک پیمانہ ہے جس کے لیے طاقتور، توانائی سے محروم پروسیسنگ یونٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ماڈلز سے جتنے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی توقع کی جاتی ہے، ہر ایک تخمینہ کے لیے اتنے ہی زیادہ کمپیوٹیشنل وسائل درکار ہوتے ہیں‘۔

ڈاکٹر کاشف تالپور کہتے ہیں کہ ’موجودہ دور کے بڑے لینگویج ماڈلز جیسے چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی اور دیگر ماڈلز اربوں ڈالرز کے پیرامیٹرز سے مزین ہیں۔ ڈیٹا سینٹرز جیسے انفرااسٹرکچر کو فعال رکھنے اور گرم ہوجانے پر انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں توانائی کی کھپت، ہارڈ ویئر کو پہنچنے والے نقصانات اور بھرپائی جیسے دیگر آپریشنل اخراجات شامل ہیں۔

تاہم ڈاکٹر کاشف تالپور ٹیکنالوجی کی حالیہ ترقی میں بہتری کی امید بھی دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کاشف تالپور نے وضاحت دی کہ نیا اے آئی ہارڈ ویئر جیسے این وی ڈی آئی اے کے خصوصی چپس، روایتی جی پی یو اور ٹی پی یو کے مقابلے میں زیادہ مؤثر کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ یہ بہتری کم توانائی کا استعمال کرکے اپنے کاموں کو تیز کرسکتی ہے۔ سافٹ ویئر سائیڈ پر مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ماہرین ایسے ماڈلز بنا رہے ہیں جو کوانٹائزیشن نامی تکنیک کے ذریعے مطلوبہ کمپیوٹنگ پاور کو کم کرسکتے ہیں۔ یہ مصنوعی ذہانت کے لیے ایک امید افزا مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ماحولیاتی مسائل کو بہتر طریقے سے منظم کیا جائے گا’۔

پاکستان کے لیے اس شعبے میں ترقی کا مطلب صرف مصنوعی ذہانت کو اپنانا نہیں بلکہ پائیدار طریقے سے اپنانا ہوگا۔ اس میں ایسی پالیسیز بنانا بھی شامل ہے جو مستقبل کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے قابل تجدید توانائی کی حوصلہ افزائی کریں۔ کولنگ سسٹم کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی بچت کو ترجیح دی جائے اور مؤثر، ماحول دوست مصنوعی ذہانت ماڈل بنانے کی خوصلہ افزائی کرتی ہوں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مقامی ٹیلنٹ میں سرمایہ کاری کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ذمہ دار مصنوعی ذہانت کے حوالے سے عالمی بات چیت میں پاکستان کا مؤقف بھی شامل ہو۔

سب سے بڑھ کر ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اے آئی کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہمیں اس سے وابستہ ذمہ داریوں کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ذمہ داری یہ ہے کہ ان ٹولز کو اس طرح استعمال کیا جائے جس سے پہلے سے حل طلب مسائل مزید پیچیدہ نہ ہوں۔

اے آئی کے ساتھ پاکستان کا تجربہ وسیع تر عالمی چیلنج کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ یہ مشینز موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، اس لیے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ اس موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو مزید سنگین رخ دینے میں اپنا کردار ادا نہ کریں، جوکہ ہمارے لیے اہم امتحان ہوگا۔

پاکستان اور مجموعی طور پر کرہِ ارض کے لیے بہت سے عوامل داؤ پر لگے ہیں۔ تاہم محتاط منصوبہ بندی اور پائیداری پر توجہ دینے سے یہ امید ظاہر کی جاسکتی ہے کہ اے آئی کی صورت میں آنے والا انقلاب ہماری دنیا کو نقصان پہنچانے کے بجائے اس کے لیے افادیت کس باعث بھی بن سکتا ہے جس سے سب مستفید ہوں گے۔


ہیڈر: اے آئی سے تیار کردہ


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عبدالستار عباسی

لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔