اداریہ:’ عوام کو یہ دیکھنے کا حق ہے کہ عمران اور فیض کی کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے’
گرفتاری کے تقریباً 4 ماہ بعد خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔
انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا ہے جبکہ ان پر لگائے جانے والی فردِ جرم میں سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کی تحقیقات ہوں گی جبکہ انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کسی شخص کو ناجائز طور پر نقصان پہنچانے کے لیے محتسب ٹھہرایا جائے گا۔ کیا طویل عرصے سے زیرِالتوا مقدمہ واقعی اس بار نمٹ جائے گا یا یہ اصل مسئلے کو چھپانے کی ایک اور کوشش ہے؟
وہ لوگ جو جنرل فیض حمید کی سرگرمیوں سے واقف ہیں وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ انہوں نے اپنی مدت اقتدار میں چند حدود کی پامالی کی۔ ڈائریکٹر جنرل انسداد دہشت گردی اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اپنی مخالفت کرنے والوں کو سزا دی۔ 2018ء کے انتخابات ’منیجنگ‘ میں ان کا نام سامنے آیا جبکہ مخالف سیاست دانوں کو خوفزدہ کرنے اور میڈیا کو خاموش اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں تھا کہ جب یہ ’جرائم‘ ہورہے تھے، اس وقت یہ کسی کی نظروں میں نہیں آئے تھے۔
جنرل فیض حمید یہ سب اس لیے کررہے تھے کیونکہ انہیں نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی حمایت حاصل تھی بلکہ اس وقت انہیں اپنے ادارے اور سربراہ کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے کس طرح اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، اس بارے میں سب جانتے تھے لیکن ادارہ جاتی احتساب تو چھوڑیے، ان کی جانچ نہیں کی گئی۔ ایسا اس لیے تھا کیونکہ اس وقت وہ جن مقاصد کے لیے کارفرما تھے وہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کے مطابق تھے۔
وقت بدل گیا لیکن جنرل فیض حمید نہ بدلے جس پر ان کے اقدامات کی سنگین جانچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ بظاہر ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات میں جو کچھ سامنے آیا وہ اتنا پریشان کن تھا کہ جنرل فیض حمید کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے پہلے آئی ایس آئی سربراہ بن چکے ہیں۔ یہ مقدمہ فوج کا اندرونی معاملہ ہوتا اگر ان سے صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں سے متعلق تفتیش کی جارہی ہوتی۔ تاہم ان پر لگائے گئے الزامات میں ان کی سیاست میں مداخلت بھی شامل ہے جس نے معاملات کو پیچیدہ بنایا ہے۔
پاک فوج کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ملک میں ’انتشار اور بے امنی سے متعلق پُرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق تفتیش بھی جاری ہے جبکہ 9 مئی سے جڑے واقعات میں بھی شامل تفتیش ہیں‘۔ ان پر پُرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما شامل ہونے کا الزام ہے۔ وسیع پیمانے پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جنرل فیض حمید کے عزائم مختلف تھے اور اگلا آرمی چیف بننے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔
تاہم اگر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے مقاصد کے حصول کی کوششوں میں سرگرم تھے تو یہ معاملہ سامنے لایا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے فوجی ٹرائلز کی کارروائی منظرعام پر نہیں لائی جاتی اس لیے ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ جنرل فیض حمید نے ٹرائل کے دوران اپنا دفاع کیسے کیا ہوگا۔
تاہم سابق آئی ایس آئی چیف پر عائد الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور ان کے تانے بانے ملک کی بڑی سیاسی جماعت سے جوڑے جاتے ہیں تو فوج کو ان کے ٹرائل کی کارروائی کو منظرعام پر لانے کے لیے غور کرنا چاہیے۔ عوام کو یہ دیکھنے کا حق ہے کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔