• KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:13am
  • KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:13am

’عورت کو بے دردی سے قتل کردینا غیرت ہرگز نہیں‘

شائع January 2, 2025

اقوامِ متحدہ کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں 25 نومبر تا 10 دسمبر صنفی بنیادوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے 16 روزہ مہم چلائی گئی لیکن اس مہم کے باوجود سندھ کے بکر جمالی گاؤں میں ایک نوجوان خاتون لیکچرار اور تین بچوں کی ماں کو اس کے شوہر نے غیرت کے نام پر بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس اندوہناک واقعے نے پورے علاقے میں ہلچل مچا دی۔

نوجوان خاتون سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہوئی تھی اور ایک گاؤں میں لیکچرار کی خدمات سرانجام دے رہی تھی۔ اس کا تعلق ایک اچھے اور تعلیم یافتہ خاندان سے تھا۔ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غیرت کے نام پر اپنی بیوی کو قتل کیا۔ مقتولہ کے لواحقین نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم نے خاتون کو پیسوں اور جائیداد کی لالچ میں موت کے گھاٹ اتارا۔ مقتولہ کے خاندان نے اسے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور اسے اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت دی۔ افسوس ناک طور پر انہیں اپنی بیٹی کی گولیوں سے چھلنی نعش ملی جبکہ مقتولہ کے تین بچے بھی ہیں جو اپنی ماں کی یاد میں روتے ہیں۔

چکوال کے ایک گاؤں میں ایک اور نوجوان خاتون کو اس کے شوہر نے قتل کرنے سے قبل ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ سال وہاڑی میں دو بہنوں کو ان کے والد اور بھائی نے مرضی کی شادی کرنے پر قتل کردیا تھا۔ 2024ء کے پہلے پانچ مہینوں میں سوات میں 20 خواتین سے جینے کا حق چھین لیا گیا جن میں سے 10 خواتین کو ’غیرت‘ کے نام پر قتل کیا گیا۔

2023ء میں ’فیمیسائیڈز‘ کے عنوان سے اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، ’2023ء میں تقریباً 51 ہزار 100 خواتین اور لڑکیوں کو ان کے قریبی جاننے والوں نے قتل کیا جوکہ خواتین کے قتل کے کُل واقعات کا 60 فیصد ہے۔ بہت سے معاملات میں تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین نے پہلے ہی مطلع کردیا تھا تو ان کے متوقع قتل کو روکا جا سکتا تھا‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں روزانہ اوسطاً 140 خواتین اور لڑکیاں اپنے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ ’اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ان کے گھر سب سے خطرناک ہوتے ہیں جنہیں جانی خطرات لاحق ہوں‘۔

عورت کو بےدردی سے قتل کردینا غیرت ہرگز نہیں۔ مرنے والی خواتین کو محض اعداد و شمار کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن ایسی کوئی رپورٹ، کوئی ڈیٹا نہیں جس سے اُس ذلت، درد، صدمے اور تشدد کی پیمائش کی جاسکے جو خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں قتل ہونے سے عورت محسوس کرتی ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی صورت حال کتنی سنگین ہے، اس کے اندازے کے لیے چند کیسز ہی کافی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تو معاشرہ کا اس عمل کو قبول کر لینا ہے اور اس طرح کے قتل کا معمول بن جانا ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کرمنل لا (ترمیم) ایکٹ 2016ء منظور ہوا جس میں غیرت کے نام پر یا غیرت کا بہانہ بنا کر قتل کرنے کے جرائم سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ اس سے قبل قیاس اور دیت کے قوانین کی وجہ سے مقتولہ کے لواحقین کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ مجرم کو معاف کردیں۔ ایسے واقعات میں عموماً فیملی ممبر یا رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں اس لیے معافی ملنے پر وہ سزا سے بچ جاتے تھے۔ اس مسئلے کو آنر کلنگ ایکٹ 2016ء کے ذریعے حل کیا گیا جس نے معافی کے امکان کو ہی ختم کردیا۔

اس نئے قانون نے ان لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جو مقتولہ کے لواحقین (والد، بھائی یا بیٹے) سے معافی مل جانے پر سزا سے بچ جاتے تھے۔ اس قانون نے غیرت کے نام پر قتل کو ایک ناقابلِ معافی جرم قرار دیا۔ قانون میں تعزیر کو عدالت کے اختیار کے طور پر شامل کیا گیا تھا جس سے اب مقتول کے ورثا کی جانب سے قصاص کی معافی کے باوجود، مجرم کو کم از کم عمر قید کی سزا ہوگی۔

سپورٹ میکانزم، فیملی کی سپورٹ اور شیلٹر ہومز یا تحفظ کے مراکز کی کمی کے باعث بھی خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک پدرشاہی معاشرے میں متاثرہ خواتین صنفی اعتبار سے غیر حساس تھانوں میں اپنے مقدمات درج کروانے یا عدالت میں مقدمہ دائر کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

اس جرم کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں صنفی بنیاد پر تشدد کو قبول کیا جارہا ہے اور ریاستی مشینری بشمول پولیس، عدلیہ اور پراسیکیوشن میں بھی صنفی تعصب پایا جاتا ہے۔

غیرت کے نام پر جرائم اور خواتین کے قتل کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ جب خاندان کیس کی پیروی نہیں کرتا تو انصاف کے حصول تک ریاست کو مقدمے کی پیروی کرنی چاہیے۔ قانونی ترامیم اور قوانین کے مؤثر نفاذ کے ساتھ ساتھ، جرائم کی روک تھام کے لیے ایک مضبوط پولیس اور کمیونٹی کی سطح پر میکنزم تیار اور نافذ کرنا ضروری ہے۔

خواتین کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کرنے کے ذمہ دار ادارے خود بھی امتیازی سلوک کرسکتے ہیں اور صنفی نمائندگی میں متعصب ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کی پوری پولیس فورس میں خواتین 2 فیصد سے بھی کم ہیں۔ عدلیہ میں خواتین ججز کی نمائندگی بھی قابلِ ذکر نہیں۔ حال ہی میں لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق، ملک میں 3 ہزار 142 ججز اور عدالتی افسران تھے جن میں اکثریت (2 ہزار 570) مرد ہیں۔ 572 خواتین ججز اور جوڈیشل افسران میں سے 565 ضلعی عدلیہ میں جبکہ 7 اعلیٰ عدالتوں میں ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ خواتین کی نمائندگی میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے۔

خواتین مخالف ذہنیت اور رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کئی نسلوں پر کام کرنا ہوگا لیکن جو کام فوری طور پر کیا جا سکتا ہے وہ پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کا نفاذ ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم آئین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان کی مساوی شہری ہونے کی حیثیت سے ریاست کو خواتین کے تحفظ میں اپنی پوری ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

شازیہ نظامانی

لکھاری وکیل ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 جنوری 2025
کارٹون : 3 جنوری 2025