• KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:37am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:45am Sunrise 7:13am
  • KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:37am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:45am Sunrise 7:13am

’آدھی روٹی کھائیں گے، پاکستان جائیں گے‘

'جنیوا کیمپ میں ریڈ کراس نے سب کو ایک پرچہ دیا جس میں انہیں بتانا تھا کہ وہ کہاں جائیں گے؟ انہیں پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا، اکثریت نے پاکستان کا انتخاب کیا'۔
شائع January 9, 2025

بنگلہ دیش میں موجود 116 جنیوا کیمپ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ذکر اور کہانیاں کتابوں میں کم اور لوگوں کی زبانی زیادہ سننے کو ملتی ہیں۔

گزشتہ دنوں ’کونسل آف مائنارٹیز‘ بنگلہ دیش کے سربراہ خالد حسین سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔ جنیوا کیمپ، ڈھاکا کے رہائشی خالد پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں جنہوں نے چند دوستوں کے ہمراہ خود کو بنگلہ دیشی شہری بنانے کی قانونی جنگ لڑی اور بہاری کمیونٹی کے بنیادی انسانی حقوق کی جنگ کو جیت کر دکھایا۔ یہاں تک کہ بے وطن افراد یا stateless people کے بین الاقوامی پروگرامز میں ان کی مثال دی جاتی ہے کہ ’اپنے لیے جدوجہد کریں اورخالد کی کہانی سنیں کہ قانونی جنگ کیسے لڑی جاتی ہے‘۔

یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ آئیے خالد حسین کی زبانی جانتے ہیں۔

'ہم کیوں پاکستانی نہ بن سکے؟'

ہمارے خیال میں یہ گفتگو المیہ ہوگی لیکن باہمت خالد حسین کی کہانی شوق، لگن اور جدوجہد کی داستان ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’1971ء میں جنیوا کیمپ میں ICRC ریڈ کراس نے سب کو ایک پرچہ دیا جس میں انہیں بتانا تھا کہ وہ کس ملک جانا چاہتے ہیں؟ ان لوگوں کو پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔ اکثریت نے جان بچانے کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا کیونکہ بھارت جا نہیں سکتے اور بنگلہ دیش میں رہ نہیں سکتے تھے۔

  باہمت خالد حسین
باہمت خالد حسین

’ ICRC نے UNHCR کے تعاون سے کاغذات حکومت پاکستان کو دیے۔ پاکستان ہائی کمیشن نے ساری جانچ پڑتال کی اور پھر 1973ء میں شملہ معاہدے کی رو سے پاکستان 25 ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس بلا چکا تھا جن میں افواج، مرکزی حکومت کے ملازمین اور قیدی شامل تھے’۔

1993ء میں نوازشریف نے 325 بہاریوں کو پاکستان بلایا۔ بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں حائل رہا۔ خیر باقی پیچھے رہ جانے والوں کی داستان کچھ عجیب بھی ہے اور ناخوشگوار بھی۔

خالد حسین بتاتے ہیں کہ ’1975ء تک یہ واضح ہوچکا تھا کہ باقی لوگ پاکستانی نہیں۔ ہمارے بڑے دھوکے میں رہے اور نعرے لگاتے رہے کہ ’ہم آدھی روٹی کھائیں گے، ہم پاکستان جائیں گے‘ لیکن ہم پاکستان نہیں جا سکے۔ 43 سالہ خالد کو اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں سب بڑے صبح اٹھتے کے ساتھ ہی بی بی سی سیربین سنتے تھے کہ جانے کب تبادلہ شروع ہوجائے۔ کبھی کسی تبادلے کی خبر آتی تو لوگ سمجھتے کہ ان کے تبادلے کی بات کی جا رہی ہے۔

’اب 53 سال سے بنگلہ دیش میں مقیم ان بہاریوں کو 2008ء میں پہلی بار ’اردو بولنے والے بنگلہ دیشی‘ کی شناخت مقامی عدالت نے دی۔ 2010ء میں ’آدھی روٹی کھائیں گے اور پاکستان جائیں گے‘ کا نعرہ لگانے والے محصورینِ بنگلہ دیش کی وطن واپسی کے سلسلے میں دائر کیس میں حکومتِ پاکستان تسلیم کر چکی ہے کہ کیمپ میں مقیم بہاری بنگلہ دیشی ووٹر اور شہری ہیں‘۔

کیمپ میں زندگی گزارنا کیسا ہے؟

خالد حسین محمد پور، ڈھاکا کے جنیوا کیمپ میں 1981ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جنیوا کیمپ، ڈھاکا میں وزیرِاعظم ہاؤس کے پاس ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’1971ء کے حالات تو سب جانتے ہیں کہ براہِ راست بہاریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ میرے والد جیسے دیگر ملازمت پیشہ لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ ہم نرغے میں آ جائیں گے۔ بچ جانے والوں نے پناہ کے لیے پناہ گزین کیمپوں کا رخ کیا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں 116 کیمپوں میں تقریباً 3 لاکھ اردو بولنے والے بنگلہ دیشی مقیم ہیں اور محمد پور، ڈھاکا میں موجود جنیوا کیمپ میں 30 ہزار بنگلہ بہاری رہتے ہیں جبکہ ڈھاکا ٹربیون کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار تک ہے۔

  جنیوا کیمپ میں 30 ہزار بنگلہ بہاری بستے ہیں۔
جنیوا کیمپ میں 30 ہزار بنگلہ بہاری بستے ہیں۔

’کیمپوں میں وہی لوگ آئے جو کمزور تھے۔ معاشی طور پر مستحکم اور تعلیم یافتہ بہاری کیمپوں میں نہیں آئے۔ پھر جو لوگ حالات کی نزاکت کو سمجھ گئے تھے، وہ پہلے ہی بھارت اور نیپال چلے گئے۔ مزدور طبقہ ہی کیمپوں تک پہنچا‘۔

43 سالہ خالد زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ وہاں بہت سے بہاریوں کے ساتھ بنگالی طبقہ بھی تھا جو پاکستان کو قائم دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن 25 مارچ 1971ء کے بعد باقاعدہ بہاریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی سرحد سے منسلک علاقے دنش پور، سید پور، سانتا ہار، چٹاگانگ وغیرہ میں بڑے پیمانے پر بہاریوں کو قتل کیا گیا۔ سانتھا ہار میں ہم ’پرومسنگ لینڈ‘ نامی ڈاکیومینٹری بنانے کے لیے پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں آج بھی صرف بیوائیں رہتی ہیں‘۔

شناخت ایک اہم مسئلہ کیوں؟

خالد نے کہا، ’ہمارے لیے ہماری شناخت کا مسئلہ ہمیشہ سے بہت اہم رہا ہے۔ 2001ء سے 2003ء کے عدالتی فیصلے اس کی واضح مثال ہیں۔ ان فیصلوں سے پہلے ہمیں ہر کوئی پاکستانی یا بہاری کہتا تھا اور حکومتی کاغذات میں ہمیں ’غیر بنگالی‘ یا ’غیر مقامی‘ لکھا جاتا۔ حالانکہ کیمپ میں موجود تمام افراد بہاری نہیں تھے۔ میرے سسرالی اڑیسہ سے آئے تھے لیکن پھر بھی کیمپ میں رہتے تھے۔ ہم 1947ء میں پٹنہ سے آئے تھے۔ ہم سب اردو بولتے تھے اور مقامی لوگ ہمیں پاکستانی کہتے تھے‘۔

  مہاجرین نقل مکانی کرتے ہوئے— تصویر: راگھو رائے
مہاجرین نقل مکانی کرتے ہوئے— تصویر: راگھو رائے

مزید بتاتے ہیں کہ ’1947ء میں کسی نے نہیں سوچا تھا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ بنگال میں دو طبقے پہنچے۔ ایک علی گڑھ کا تعلیم یافتہ طبقہ جس نے نظم و نسق سنبھالا اور ڈھاکا یونیورسٹی کی آب یاری کی۔ دوسرا طبقہ مزدور پیشہ افراد پر مشتمل تھا جو ریلوے اور دیگر نچلے درجے کی نوکریوں میں کام کرتے تھے۔ 1971ء میں زیادہ مسئلے مزدور پیشہ طبقے کے ساتھ پیش آئے۔

’ تعلیم یافتہ طبقے نے اہلِ بنگال سے روابط قائم کر لیے تھے۔ ان میں صحافی، اردو شاعر، لبرل اور ترقی پسند لوگ شامل تھے۔ اہلِ دانش جیسے ڈاکٹر یوسف حسن، احمد الیاس اور نوشاد نوری وغیرہ اس فہرست میں شامل ہیں۔ یہ رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ چین بھی گئے تھے۔ انہوں نے 1952ء کے بنگلہ-اردو زبان کے تنازع پر بنگال کا ساتھ دیا تھا’۔

خالد کا ماننا ہے کہ بنگالی عوام اردو کو ختم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ دونوں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینا چاہتے تھے۔

وہ بچے جو کیمپ سے باہر اسکول پہنچے

خالد نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کیمپ کے اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن میٹرک نہیں کر سکے کیونکہ کیمپ میں کوئی اسکول نہیں تھا، بتاتے ہیں کہ ’میں اور چند دوستوں نے ہمت دکھائی کہ اگر سرکاری اسکول میں داخلہ ممکن نہیں تو نجی اسکول میں داخلہ لے لیتے ہیں کیونکہ سرکاری اسکول، کیمپ کے بچوں کو داخلہ نہیں دیتے تھے‘۔

1994ء میں وہ اور کیمپ کے 20 لڑکے پہلی بار بنگلہ میڈیم اسکول پہنچے۔ خالد نے بتایا کہ انہوں نے یہ کہانی اقوامِ متحدہ میں بھی سنائی تھی۔ ’نورجہاں روڈ پر واقع نجی اسکول میں جب نویں جماعت میں پہنچے تو منظر بالکل الگ تھا۔ ہم نے کبھی بنگلہ دیش کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ترانہ نہیں پڑھا تھا۔ اسمبلی کا گھنٹہ بجا لیکن ہم کلاس میں ہی رہے۔ اسمبلی میں قومی ترانہ پڑھا گیا لیکن ہمیں آتا ہی نہیں تھا۔ باقی بچوں نے ہمارا خوب مذاق اڑایا۔ یہاں تک کہ دو تین دن میں بات لڑائی تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے کئی بچوں نے اسکول آنے سے انکار کر دیا۔ وہ بچے آج بھی کیمپ میں ہیں اور آگے نہیں پڑھ سکے‘۔

  کیمپ میں رہنے والے بچوں کو رہائشی پتا اور شناخت کے مسائل کا سامنا رہا—تصویر: اے پی
کیمپ میں رہنے والے بچوں کو رہائشی پتا اور شناخت کے مسائل کا سامنا رہا—تصویر: اے پی

خالد اپنے بنگالی اساتذہ کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اساتذہ کے تعاون کی وجہ سے آہستہ آہستہ حالات بہتر ہوئے۔ تاہم میٹرک کے امتحانی فارم میں ایک اور مسئلہ سامنے آیا کہ قومیت اور پتا کیا لکھیں؟‘

خالد نے بتایا کہ ’اساتذہ نے کہا کہ قومیت بنگلہ دیشی لکھو لیکن پتا کیمپ کا نہ لکھا جائے کیونکہ اس سے فارم منسوخ ہوجاتا ہے۔ اساتذہ نے ہمیں حل دیا اور ہم 4 کیمپ کے بچوں کو اپنے گھروں کے پتے دے دیے تاکہ ہمارا مسئلہ حل ہو سکے۔ یہی مسئلہ میٹرک کے بعد کالج میں بھی پیش آیا لیکن اساتذہ کے تعاون نے ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دی‘۔

قومی شناخت کے حصول کی جدوجہد

خالد حسین یاد کرتے ہیں کہ ’1999ء میں ہم نے ینگ اردو اسپیکنگ کمیونٹی بنائی۔ میرا دوست حسن سیکریٹری تھا اور میں صدر۔ میں نے بی کام میں داخلہ لیا تھا۔ ہم تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ احمد الیاس، جو مشہور اردو شاعر اور صحافی تھے، الفلاح نامی تنظیم کے تحت کیمپ میں کلینک چلاتے تھے۔ ان کے ساتھ مل کر ہم نے پڑھے لکھے بہاریوں سے بات کی۔

’انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ پاکستان کی شہریت کے قانون اور شملہ معاہدے کی رو سے ہم پاکستانی نہیں بلکہ بنگلہ دیش میں پیدا ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیشی ہیں۔ ہم نے طے کیا کہ ہمیں اس پر کام کرنا ہے۔ اس کے بعد ہم نے اپنی انجمن کے تحت 16 دسمبر، 21 فروری اور 26 مارچ جیسے بنگلہ دیش کے قومی دن منانے شروع کیے‘۔

'ووٹر لسٹ میں اندراج ہمارا حق ہے'

خالد حسین بتاتے ہیں کہ ’2001ء میں میرا بی کام مکمل ہوا ہی تھا کہ انتخابات قریب آ گئے اور سیاسی گہما گہمی شروع ہوچکی تھی۔ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ بنا رہا تھا۔ یہ وقت تھا جب ہم نے احمد الیاس سے بات کی۔ ایک دوست، ایم آئی فاروقی نے بھی ہمیں سمجھایا کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں اور ہمیں اپنے لیے آواز اٹھانا ہوگی۔ جب تک ہم خود سامنے نہیں آئیں گے، کچھ نہیں ہوگا۔

  جنیوا کیمپ کی تنگ گلیاں
جنیوا کیمپ کی تنگ گلیاں

’بنگلہ دیش کی قانونی شق نمبر 102 کے مطابق اگر کسی شہری کے حقوق پامال کیے جا رہے ہوں تو وہ ریٹ پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ ہم نے پہلے الیکشن کمیشن کو یادداشت جمع کروائی کہ ہم بنگلہ دیشی شہری ہیں اور ہمارا نام ووٹر لسٹ میں شامل کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن نے ہمیں یہ کہہ کر بھگا دیا کہ تم پاکستانی ہو۔ ہم چھوٹے تھے لیکن خود کو تسلیم کروانے کا جذبہ دل میں جگہ بنا چکا تھا۔ ہم سب مل کر وکیل کے پاس گئے جنہوں نے ایک قانونی نوٹس بھیجا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس کے بعد ہم نے 10 لوگوں کی جانب سے پہلی پٹیشن دائر کی۔ ان میں 8 افراد 1971ء کے بعد پیدا ہوئے تھے جبکہ 2 اس سے پہلے پیدا ہوئے تھے‘۔

مزید بتاتے ہیں کہ ’یہ پٹیشن عدالت نے مسترد کر دی لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ہائی کورٹ پہنچے۔ وہاں ہماری عرضی سنی گئی۔ ایک سال بعد فیصلہ آیا کہ یہ 10 افراد جنیوا کیمپ میں پیدا ہوئے جو بنگلہ دیش کی زمین پر واقع ہے۔ لہٰذا انہیں بنگلہ دیشی شہری سمجھا جائے‘۔

خالد حسین نے مزید کہا کہ ’ہم سے ایک غلطی ہوئی کہ ہم نے صرف 10 لوگوں کا حوالہ دیا تھا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ ان کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کیے جائیں۔ 2003ء میں پہلی بار الیکشن کمیشن کا عملہ جنیوا کیمپ میں آیا اور ہماری انتخابی فہرست میں نام شامل کر لیے گئے‘۔

’جنیوا کیمپ میں موجود افراد خاص طور پر وہ جو پاکستان جانا چاہتے تھے، سخت پریشانی کا شکار ہوگئے کیونکہ اب کمیونٹی کے 10 افراد کو بنگلہ دیشی شہریت مل چکی تھی۔ 2008ء میں ان 10 افراد کو پہلی بار شناختی کارڈ بھی فراہم کیے گئے۔ اس کے بعد میرپور کے کیمپ سے صداقت خان نے ایک اور پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیا کہ کیمپ میں رہنے والے تمام بہاری بنگلہ دیشی شہری ہیں لہٰذا انہیں ووٹر لسٹ میں شامل کیا جائے اور شناختی کارڈ دیا جائے۔

’اس پٹیشن پر ایک تاریخی عدالتی فیصلہ آیا جس میں عدالت نے واضح کیا کہ ان افراد کو باضابطہ بنگلہ دیشی شناخت دی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ انہیں اردو بولنے والے بنگلہ دیشی کہا جائے کیونکہ انہیں بہاری، پاکستانی یا غیر مقامی کہہ کر ان کی شناخت کو مسخ کیا جا رہا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ شناختی کارڈ لینا نہیں چاہتے، انہیں ان کا حق دیا جائے کہ وہ خود کو پاکستانی کہلوا سکیں۔ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی ٹیم کیمپ پہنچی جس سے پورے کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی‘۔

  کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین— تصویر: راگھو رائے
کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین— تصویر: راگھو رائے

جنیوا کیمپ سے جنیوا تک

خالد حسین نے اپنا تجربہ شیئر کیا کہ ’2009ء میں مجھے اقوامِ متحدہ کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جہاں میرا تعارف یہ کہہ کر کروایا گیا کہ ’یہ جنیوا کیمپ، بنگلہ دیش سے آئے ہیں‘۔ اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں، میں نے زبان اور تہذیب کے حقوق پر بات کی۔ قانونی جنگ لڑنے کا سبق ہم پہلے ہی سیکھ چکے تھے اور اقوامِ متحدہ کے تین ماہ کے تربیتی پروگرام کے بعد ہم نے کیمپ کے لوگوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم کیا۔

’2013ء میں، میں نے ’کونسل آف مائنارٹیز‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس کے تحت ہم نے کیمپ کے مقامی افراد کو قانونی مسائل اور حقوق کے حوالے سے آگاہی دی۔ کیمپ کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پیدائش کے اندراج کا تھا کیونکہ اس کے بغیر بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا اور نہ ہی وہ کوئی کام کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا، کسی جھگڑے کی صورت میں پولیس رپورٹ درج کروانا اور دیگر بنیادی شہری حقوق تک رسائی کے لیے ہم نے ہر ممکن مدد فراہم کی‘۔

پاسپورٹ کا حصول، ایک دشوار سفر

خالد حسین نے بتایا کہ ’2015ء سے پہلے کیمپ کے بہاری کمیونٹی کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ افسران کا کہنا تھا کہ ’آپ بہاری ہیں، لہٰذا پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا سکتا‘۔ وزارتِ داخلہ کی پالیسی کے مطابق روہنگیا اور بہاریوں کو پاسپورٹ دینے پر پابندی تھی۔ ہم نے افسران کو عدالتی فیصلہ دکھایا لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔

  کیمپ میں مقیم بچوں کو سرکاری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
کیمپ میں مقیم بچوں کو سرکاری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

’چونکہ روہنگیا پناہ گزین تھے اور ہم اردو بولنے والے بنگلہ دیشی تھے، اس لیے ہم نے محکمہ داخلہ کے فیصلے کی کاپی مانگی لیکن ہمیں انکار کر دیا گیا۔ ہم نے ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ قانون کے تحت محکمہ داخلہ کے حکم نامے کی کاپی کے لیے کمیشن سے رجوع کیا اور ساتھ ہی ایک پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیا کہ ہماری کمیونٹی کے لیے پاسپورٹ پالیسی واضح کی جائے۔

’ایک ماہ گزرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو ہم نے دوبارہ درخواست دی۔ چند دن بعد ہمیں محکمہ داخلہ کی طرف سے بلایا گیا جہاں بتایا گیا کہ وزارت مزید تحقیق کر رہی ہے۔ تین دن بعد ہمیں گھر کے پتے پر چھ صفحات پر مشتمل ایک جواب موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ جس کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے، اسے پاسپورٹ جاری کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد ہم نے پاسپورٹ کے حصول کے عمل کو آسان بنانے کے لیے عدالتی فیصلے کے ساتھ ضروری دستاویزات جمع کروانا شروع کر دیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری‘۔

کیمپ کے باسیوں کا مستقبل روشن تر

خالد حسین کہتے ہیں کہ ’ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کیمپ کے بچوں کو ہمارے بچپن کے مقابلے میں بہتر سہولیات مل رہی ہیں۔ یہاں کُل 260 اسکول، 14 پری اسکول اور 4 کلینک ہیں۔ خواتین بھی بہتر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ سلائی مشین اور دیگر گھریلو صنعتوں کو فروغ دینا یہاں کی بنیادی ضرورت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کیمپ کی 12 بچیاں نرسنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ کیمپ کے لوگ پہلے زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں تھے اور اکثریت مزدوری پیشہ تھی لیکن اب نوجوان تعلیم اور کاموں کے لیے کیمپ سے باہر جا رہے ہیں۔ بہاری کبھی بھی کاشت کار نہیں تھے شہری علاقوں کے کاموں میں یہ لوگ زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔

  آج کیمپ کے بچوں کو زیادہ بہتر ماحول مل رہا ہے
آج کیمپ کے بچوں کو زیادہ بہتر ماحول مل رہا ہے

’آج نئے جذبے سے فکری، سماجی اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جو حقوق بنگلہ دیشی شہریوں کو مل رہے ہیں، وہ ہمیں بھی ملیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے 60 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کو ہر تین ماہ بعد 500 ٹکا اعزازیہ دے رہی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے کام کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی پہلے پہل 100 بوڑھے افراد کو یہ اعزازیہ مل رہا ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ اس پر مزید کام کیا جائے‘۔

خالد حسین نے مطالبہ کیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ایک وقت میں بینک رابطہ فنڈ قائم کیا گیا تھا، اگر حکومت پاکستان وہ فنڈ بنگلہ دیشی حکومت کو واپس کردے تو ان کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے‘۔

اختتام میں انہوں نے کہا کہ ’حکومت پاکستان کو بنگلہ دیشی حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور اب کیمپ کو ختم ہونا چاہیے۔ شیخ حسینہ واجد نے 45 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی منظوری دی تھی، اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ لوگ کیمپوں سے نکل کر اپنے مکانوں میں زندگی گزار سکیں‘۔


اس تحریر میں شامل جنیوا کیمپ بنگلہ دیش کی تمام تصاویر، لکھاری نے مہیا کی ہیں۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔