• KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:37am Sunrise 7:02am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:12am
  • KHI: Fajr 5:58am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:37am Sunrise 7:02am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:12am
شائع January 17, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


زندگی کے سحر سے حیوان بچ سکا ہے نہ حیوان ناطق۔ حیوان ناطق چونکہ شعور رکھتا ہے اور اپنے احساسات کو کئی طریقوں سے بیان کر سکتا ہے اس لیے وہ زندگی کی جادوئی کشش میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ کبھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ چاہے زندگی نے اس سے کسی بےوفا محبوب جیسا سخت اور تُرش رویہ کیوں نہ روا رکھا ہو مگر وہ کبھی اس کے سحر سے آزاد ہونا نہیں چاہتا۔

مگر جب انسان، چاہے وہ ہسپتال کے بستر یا جنگ کے میدان میں، اور زندگی کسی بےوفا محبوب کی طرح آدھے راستے میں اسے چھوڑ جائے تب وہاں سے ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ وہ جن اپنوں میں پل کر بڑا ہوا ہوتا ہے، دھوپ اور چھاؤں کے دن اکٹھے گزارے ہوتے ہیں، وہ پل دل اور دماغ میں جڑیں پکڑ لیتے ہیں اور جب تک سانس کی ڈوری نہ ٹوٹے وہ پل مرتے نہیں ہیں۔ تب اس کے ٹھنڈے وجود، اس کی یادوں کو زندگی دینے کے لیے اس دنیا میں قبرستانوں کی دنیا آباد ہوتی ہے اور بچھڑنے کے درد کی کیفیت تمام انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ دنیا کا ایسا کوئی کونہ نہیں جہاں قبرستان نہ ہوں۔

   چوکنڈی طرز کے قبرستان—نقشہ: کلیم اللہ لاشاری
چوکنڈی طرز کے قبرستان—نقشہ: کلیم اللہ لاشاری

ہم اگر سرسری طور پر نظر ڈالیں تو اکثر ممالک میں قبرستانوں کے لیے پتھر یا سنگِ مرمر کا استعمال ہوتا ہے۔ البتہ جہاں کے معروضی حالات یادگاروں پر پتھر لگانے کے لیے موزوں نہ ہوں تو پھر قبرستانوں کی شکل تبدیل ہوکر اینٹوں کی چاردیواری یا مقبروں کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

پوری دنیا میں یادگاروں کی تعمیر وہاں کے زمینی حالات اور ثقافتی نفسیات کے مطابق ہوتی ہے۔ قبرستانوں پر پتھروں یا لکڑیوں پر جو کندہ کیا جاتا ہے وہ مرنے والے کی ذاتی زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ یا اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ قبروں یا مقبروں پر لوک کہانیوں کو تمثیلی انداز میں کندہ یا پینٹ کیا جاتا ہے۔

ماضی قریب میں بدین کے قریب شاہ طریل کی درگاہ اور ننگر پارکر میں جین مت کے مندر میں لوک کتھاؤں کو تمثیلی انداز میں کندہ اور پینٹ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی شمالی سندھ میں مقبروں کے اندر برش اور رنگوں سے جنگوں کے مناظر کو پینٹ کیا گیا ہے جسے دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ جس کی آخری آرام گاہ ہے اس نے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے دنیا چھوڑ دی تھی۔

   جام مرید خان قبرستان کراچی میں موجود ایک مقبرہ—تصویر: لکھاری
جام مرید خان قبرستان کراچی میں موجود ایک مقبرہ—تصویر: لکھاری

علی احمد بروہی صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ترک اپنے جنگجوؤں کی قبروں پر گھوڑوں اور جنگ کے مناظر کی تصاویر کندہ کرواتے تھے۔ آٹھویں صدی کے ترک اورخان کی تحریروں کے مطابق، جنگجوؤں کی ایسی قبریں جن پر ایسے منظر تراشے گئے ہوتے ہیں انہیں Balbal کہا جاتا ہے۔ ایران کے مختلف حصوں خاص طور پر کُردستان میں ایسی قبریں دیکھی گئی ہیں جن پر ہتھیار جیسے ڈھال، تلواریں اور نیزے تراشے گئے ہیں۔ روم میں مستطیل گھر نما مقبرے موجود ہیں جن کا تعلق دوسری صدی عیسوی سے ہے۔ ان مقبروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں تدفین دو طبقوں میں کی گئی ہے۔

مرنے والے کی میت نیچے زمین میں بنے چیمبر میں ہے جبکہ اوپر کا طبقہ مذہبی رسومات کے لیے بنایا گیا ہے۔ قبر کے محرابی گوشوں پر پرندوں، پھولوں اور میوہ جات کی تصاویر کندہ کی گئی ہیں۔ یہودی ایک زمانے سے پہاڑوں میں مقبروں جیسی سرنگ بنا کر اس میں تدفین کرتے رہے ہیں۔ یروشلم کی پسگردائی میں قبروں پر پھول پتیاں، زیتون کی شاخوں اور انگور کی بیلوں کی تصاویر تراشی گئی ہیں۔

اس طرح افریقہ میں مقبرے ٹریپولیٹینا کے اندرونی علاقے غرزا (’Ghirza‘) میں بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ مقام Tripoli کے جنوب مشرق میں 180 میلوں کے فاصلے پر ہے۔ یہ تیسری اور چوتھی صدی قدامت رکھنے والے مقبرے ہیں۔ یہاں مقبروں کے ستونوں پر سنگ تراشی کا حیرت انگیز کام نظر آتا ہے جبکہ شکار اور زرعی زندگی کے شاندار مناظر تراشے گئے ہیں۔ پھر یونان کی بات کریں تو وہاں دفنانے کے لیے پتھر کے تابوت بنائے گئے ہیں اور ان تابوت کو بند کرنے والے پتھر پر مرے ہوئے لوگوں کی شکلوں کو تراشا گیا ہے جس میں وہ صوفوں پر ٹیک لگائے آرام سے بیٹھے ہیں۔

   قدیم یونان میں کتبوں پر شکلوں کو تراشا جاتا تھا—تصویر: آرکیالوجی میوزیم آف ایتھنز
قدیم یونان میں کتبوں پر شکلوں کو تراشا جاتا تھا—تصویر: آرکیالوجی میوزیم آف ایتھنز

   غرزا افریقہ کے قبرستان
غرزا افریقہ کے قبرستان

اس طرح تقریباً پوری دنیا میں بادشاہوں، معززین، قومی ہیروز، جنگجوؤں اور بہادروں کے لیے قبرستانوں کا ذکر ہمیں پہلی دوسری صدی بلکہ اس سے بھی پہلے ملنا شروع ہوا۔ مگر ہم یہاں فقط موضوع کے حوالے سے کراچی کے قرب و جوار میں واقع ان قبرستانوں کا ذکر کریں گے کہ جن جنگوں کا ذکر ہم گزشتہ اقساط میں کرچکے ہیں۔ اگر ہم بلوچستان میں اور آگے کچھ گجرات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ یقیناً موضوع کے دائرے سے باہر ہوگا۔

   یہ لوگ جہاں جنگ لڑتے تھے وہیں اپنے جنگجوؤں کے مقبرے بنادیتے تھے—تصویر: لکھاری
یہ لوگ جہاں جنگ لڑتے تھے وہیں اپنے جنگجوؤں کے مقبرے بنادیتے تھے—تصویر: لکھاری

اس سے پہلے جو ہم بار بار چوکنڈی طرز کے قبرستان کہتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے محققین سے کچھ بات کر لیتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ چوکنڈی طرز ہے کیا؟

گزشتہ کتنے عرصہ سے محققین اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ یہ نام ’چوکنڈی‘ کیسے پڑا۔ کچھ تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ چوکنڈی ایک قدیم تعمیر کا مخصوص نام ہے اور یہ تعمیر جہاں بھی ہوگی اسے چوکنڈی کے نام سے بلایا جائے گا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ چوکنڈی سے مراد قبر کی لینی چاہیے، ایک ایسی قبر جو پیلے پتھر کی بنی ہو اور اس پر مخصوص سنگ تراشی کی گئی ہو جیسے پھول، گھڑ سوار، جنگی ہتھیاروں کے نشانات وغیرہ۔

جبکہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ ان قبروں پر چھتری نما تعمیر ہوئی ہو مگر چھت نہ ہو، اُسے چوکنڈی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس حوالے سے بہت سی روایات اور تحقیقات ہمیں ملتی ہیں۔

گل حسن کلمتی صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ’عام لوگوں کو ’چوکُنڈی‘ لفظ کے حوالے سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہے، وہ قبر اور اس کے اوپر بنی ہوئی چھتری (Canopy) کو ہی ’چوکُنڈی‘ کہتے ہیں بلکہ لوگ تو ان قبرستانوں کے لیے نام استعمال کرتے ہیں جیسے وہ چوکنڈی کے مقام کو ’جام مرید جوکھیو‘ کے مقام (قبرستان) کے نام سے جانتے ہیں‘۔

   کراچی جام مرید خان قبرستان میں چوکنڈی طرز کی قبریں موجود ہیں—تصویر: لکھاری
کراچی جام مرید خان قبرستان میں چوکنڈی طرز کی قبریں موجود ہیں—تصویر: لکھاری

یہ بات ہمیں حقیقت کے کچھ قریب لے آتی ہے کہ 4 کونوں کے تھلے پر بنی ہوئی تعمیر کو چوکنڈی کہا جاتا ہے اور اس پر اگر پلر 4 ہوں، 6 ہوں یا اس سے بھی زائد ہوں تو اس سے اس کے چوکور ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تک جو بھی آرکیالاجی کے ماہرین اور محققین یہاں آئے ہیں، ان میں سے ہینری کزنس، ایم-اے-غفور اور ممتاز حسین کا یہ کہنا ہے کہ یہ بلوچوں کے قبرستان ہیں جبکہ ’بینرجی‘ اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ چوکنڈی (جام مرید جوکھیو) قبرستان جوکھیوں کا ہے۔

اس حوالے سے مرزا کاظم رضا بیگ تحریر کرتے ہیں کہ ’چوکنڈی کے قبرستان کے کتبوں کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہاں متعدد قبائل کے لوگوں کی قبریں ملتی ہیں جیسے داد خان جوکھیو، مسمات اجازا، ساحر جوکھیو، جام رادھو جوکھیو، بخار بن چاٹو جوکھیو وغیرہ اس کے علاوہ ’جام‘ بھی نام سے پہلے لکھا ہوا ملتا ہے جیسے جام مرید بن جام حاجی، میران بن جام رادھو، دودو بن جام مہر علی وغیرہ جو ’سمہ‘ خاندان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اس قبرستان میں نومڑیوں (بُرفتوں) کی بھی قبریں ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قبائل جو گرد و پیش میں رہتے تھے، ان کے لوگ یہاں دفنائے گئے ہوں گے جیسے جوکھئے، کلمتی بلوچ، برفت وغیرہ’۔

   ان چوکنڈی طرز کے قبرستانوں میں متعدد قبائل کے لوگوں کی قبریں ملتی ہیں—تصویر: لکھاری
ان چوکنڈی طرز کے قبرستانوں میں متعدد قبائل کے لوگوں کی قبریں ملتی ہیں—تصویر: لکھاری

تاریخ کے صفحات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ سمندری کنارے، کراچی کے قرب و جوار سے لے کر حب تک جن قبیلوں کے نام ہمیں ملتے ہیں، ان میں کلمتی بلوچ، جوکھیا، گبول اور برفت نمایاں ہیں۔ ان کی اکثر آپس میں کبھی نہیں بنی۔ یہ دوسروں سے تو یقیناً لڑ پڑتے تھے جس طرح ہم گزشتہ اقساط میں پڑھ چکے ہیں۔ مگر یہ آپس میں بھی لڑ پڑتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان میں لڑائی ہوجاتی۔ مگر ایک بات جو ان قبائل کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی کہیں نہ کہیں آپس میں کیمسٹری ضرور تھی۔

ان کے اکثر قبرستان ساتھ ہیں جبکہ ان کی قبروں کی بناوٹ بھی تقریباً ایک جیسی ہے۔ یہ جہاں جہاں آباد ہوئے، ساتھ ساتھ ایک اراضی میں آباد ہوتے۔ اب ان تمام حقائق کا ممکنہ طور پر یہ محرک بھی ہےکہ یہ ایک جیسے معروضی حالات سے آئے اور ان کا ذریعہ معاش بھی تقریباً ایک جیسا ہی تھا اور یقیناً ان میں کوئی بڑا فرق نہیں رہا ہوگا، اس لیے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ ان کے رسم و رواج بھی ایک جیسے ہوتے ہوں گے۔

   بلوچ ٹومبز کراچی—تصویر: اقبال کھتری
بلوچ ٹومبز کراچی—تصویر: اقبال کھتری

علی احمد بروہی صاحب بتاتے ہیں کہ 16ویں صدی کے آخر تک ملیر والے علاقہ میں کلمتی بلوچوں اور بُرفتوں کے نام کا سکہ چلتا تھا، جوکھیوں کا قبیلہ جو اس وقت خود وک چوکنڈی قبرستان کا متولی سمجھتا ہے، وہ کوہستان سے ان دونوں قبائل سے بہت بعد میں آکر یہاں آباد ہوا تھا اور جلد ہی ان میں چپقلش کی ابتدا ہوئی اور پھر ان کی آپس میں جو لڑائیاں ہوئیں، ان کا ایک سبب قبروں پر بنی سنگ تراشی کی خوبصورتی تھی۔

کسی نے کہا ہوگا کہ اس قبر پر کتنے خوبصورت پھول بنے ہیں یا یہ کہ ہماری قبر پر کتنا خوبصورت گھڑ سوار بنا ہے۔ دوسرے قبیلہ والے نے اس کے برعکس بات کی ہوگی اور اس وجہ سے جنگ ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے بعد کلمتی، میمن گوٹھ ملیر میں ’تھدھو‘ ندی کے کنارے آکر آباد ہوئے اور یہ قبرستان جوکھیوں کے حوالے ہوا اور جوکھیوں کے بہت سے سردار یہاں اسی قبرستان میں مدفن ہیں۔

   تھدھو ندی کے کنارے بلوچ ٹومبز—تصویر: اقبال کھتری
تھدھو ندی کے کنارے بلوچ ٹومبز—تصویر: اقبال کھتری

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ یہ قبیلے کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ گلہ بانی بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے معاشی حالات انتہائی مستحکم تھے۔ وہ خانہ بدوش ضرور تھے مگر اپنے بہادروں اور بڑوں کی عزت کرنا خوب جانتے تھے۔ وہ اپنے بڑوں کی قبروں کو منفرد بنانے کے لیے خرچے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ جہاں بھی رہے جہاں جنگ کا میدان لگا وہیں پر قبرستان بنائیں اور پھر وہاں قبروں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ گھارو سے لے کر پوری ساحلی پٹی اور کوہستان تک سیکڑوں ایسے قبرستان ہیں جو اپنے اندر سنگ تراشی کی ایک وسیع دنیا رکھتے ہیں۔

آپ اگر گھارو سے کچھ کلومیٹر جنوب کی جانب چلے جائیں تو ایک لیٹ اسٹاپ ہے جہاں کچھ دکانیں ہیں۔ اس کے مغرب میں راج ملک کا وہ قبرستان ہے۔ تالپوروں کے دور میں بجار کے بیٹے چاکر نے لاشاریوں اور کلمتیوں پر دھوکے سے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے مکلی میں دو جنگیں ہوئیں۔ آپ اس قبرستان میں بنی قبروں اور ان پر کیا ہوا سنگ تراشی کا کام دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ وہاں کسی زمانے میں ایک چھتری (چوکنڈی) جو ملک مرید کلمتی کی تھی مگر اب وہ کب کی گر چکی ہے۔

   راج ملک کا قبرستان—تصویر: لکھاری
راج ملک کا قبرستان—تصویر: لکھاری

دوسرے قدیم قبرستانوں کی طرح اس کا بھی کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ 20، 30 برس کے بعد شاید یہ قبریں بھی نہ رہیں کیونکہ وہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں سے قبروں کے سنگ تراشی والے حصے چوری ہوتے رہتے ہیں۔

   راج ملک قبرستان سنگ تراشی کا کمال—تصویر: لکھاری
راج ملک قبرستان سنگ تراشی کا کمال—تصویر: لکھاری

گل حسن کلمتی ان قبرستانوں کی قبروں پر تراشی گئی بہت سی تصاویر اور نشانات جیسے پرندوں، اونٹ، مور، فاختہ، عورتوں کے زیورات وغیرہ کے متعلق ہمیں بتاتے ہیں کہ ان قبروں پر جو پھول بوٹے اور تصاویر، عورتوں کی قبروں پر زیورات اتنی نزاکت اور نفاست سے بنائے گئے ہیں وہ اس زمانے کی ثقافت اور روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کا پتا دیتے ہیں۔

کچھ قبروں پر بدھ مت اور جین مت مذہب کی نشانیاں بھی کھدی ہوئی ہیں۔ درحقیقت یہ نشانیاں سندھو تہذیب کی بقایاجات ہیں کیونکہ سندھو تہذیب مختلف مذہبوں کی آماجگاہ رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی نشایاں مقامی لوگوں نے سنبھال کر رکھیں جو انہیں اچھی لگیں اور انہیں اپنے کلچر میں خوبصورتی کے لیے شامل کرلیا۔ ان نشانیوں کو اپنے سئی دھاگے کے کام میں پھول بوٹوں اور دوسری نشانیوں میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جب جب موقع ملا انہوں نے انہیں اظہار کے لیے استعمال کیا۔

یہ قبرستان بھی اظہار خیال کا ایک اچھا ذریعہ بنے اور ان لوگوں نے سنگ تراشی کا فن رومن کی طرح مذہبی میدان سے نکال کر کُھلی فضاؤں میں لے آئے جس کی وجہ سے ہم یہ شاندار قبرستان دیکھ پا رہے ہیں۔

   راج ملک، جنگ کا منظر— تصویر: لکھاری
راج ملک، جنگ کا منظر— تصویر: لکھاری

کلیم لاشاری صاحب قبیلے کے سردار یا قبیلے میں خاص اہمیت رکھنے والے فرد کی پہچان پگڑی بتاتے ہیں اور سنگ تراشی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’پتھر پر پگڑی کو تراشنے کا یہ رواج اس سنگ تراشی کے فن کے ذریعے ایک دور کی تاریخ، تہذیب، روزمرہ کی زندگی اور ثقافت ہمارے سامنے عیاں ہوجاتی ہے۔ اس زمانے میں پڑھنے لکھنے کا رواج زیادہ نہیں تھا اس لیے ان پتھروں پر پھول پتیوں اور مختلف دیگر تصاویر اور تصورات کے ذریعے آنے والی نسلوں تک اپنی تاریخ کو ایک بہتر انداز میں پہنچانے کا کام ان قبرستانوں نے خوبصورت طریقے سے انجام دیا‘۔

   راج ملک، ملک مرید کی گری ہوئی چھتری— تصویر: لکھاری
راج ملک، ملک مرید کی گری ہوئی چھتری— تصویر: لکھاری

آپ اگر مکلی میں دریا خان کی آخری آرام گاہ سے 300 فٹ مغرب کی طرف جائیں تو وہاں بلوچوں کی چند قبریں ہیں۔ یہ قبریں سنگ تراشی کی وہ دوسری تاریخی کہانی بیان کرتی ہیں جنہیں ہم چوکنڈی طرز کی قبریں کہتے ہیں۔ ان قبروں پر جس طرح کی نازک و نفیس سنگ تراشی کا کام کیا گیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

کلمتی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ان قبروں کو تراشنے کا یہ فن ایران سے لوگ اپنے ساتھ لے کر آئے اور اس طرح سندھ اور بلوچستان میں ایسی قبروں اور اس طرز کی سنگ تراشی کی بنیاد پڑی۔ چوکنڈی طرز کی یہ قبریں 11ویں سے 16ویں صدی کی ہیں، اس طرز کی قبروں کو ’رومی‘ بھی کہا جاتا ہے اور بلوچ اسے ’تومبس‘ بھی کہتے ہیں‘۔

   عورتوں کے زیورات، راج ملک قبرستان— تصویر: لکھاری
عورتوں کے زیورات، راج ملک قبرستان— تصویر: لکھاری

سلمان رشید صاحب سے جب میں نے ان قبرستانوں کے متعلق بات کی تو انہوں نے اس حوالے سے تفصیلی جواب دیا، ’ہم اگر سرسری طور پر ایک اندازہ لگائیں تو سندھ اور بلوچستان میں مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ، تونگ جیسے 100 سے بھی زائد قبرستان ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانہ میں طاقتور قبیلے تھے۔ ان قبائل کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو گبول، لاشاری، پنہور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبیلوں کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں جو اس حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں‘۔

   سونڈا کا قبرستان— تصویر: لکھاری
سونڈا کا قبرستان— تصویر: لکھاری

اب سنگ تراشی کے متعلق کچھ اور جاننے کے لیے ہم سونڈا کے قبرستان چلتے ہیں۔ ٹھٹہ سے حیدرآباد جانے والے راستے سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر جائیں تو سونڈا کا وسیع قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ یہاں ہزاروں قبریں ہیں جو پیلے رنگ میں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ تیز دھوپ ہو، بارشیں ہوں یا ٹھنڈی چاندنی کی راتیں یہ قبریں صدیوں سے آنکھیں موندے یہیں موجود ہیں اور ان قبروں پر سنگ تراشی کا نازک و نفیس کام، اپنی خوبصورتی اور نزاکت میں لاجواب ہے۔

یہاں اس قبرستان میں ستونوں والی قبروں میں پُراسراریت ہے۔ ان ستونوں والی قبروں کے لیے ابھی تک کسی محقق نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ یہ ستونوں والی قبریں اب تک محققین کے لیے ایک راز ہی ہیں۔ قبروں پر پیلے پتھر کے گڑے ستونوں پر جنگ کے مختلف مناظر کندہ ہیں۔

   سونڈا قبروں پر جنگ کے مناظر— تصویر: لکھاری
سونڈا قبروں پر جنگ کے مناظر— تصویر: لکھاری

   سونڈا قبرستان میں ستونوں میں جنگ کی یادیں کندہ ہیں—تصویر: لکھاری
سونڈا قبرستان میں ستونوں میں جنگ کی یادیں کندہ ہیں—تصویر: لکھاری

ہر ایک ستون کی اپنی ایک کہانی ہے۔ قبر کی سنگ تراشی اور بناوٹ آپ کو بتادے گی کہ یہ قبر کسی سردار کی ہے، کسی عورت کی ہے یا کسی جنگجو کی۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اس سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں نچلی طرف گھڑ سوار کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کچھ قبروں پر دستار کی شبیہ تراشی گئی ہے جن کے متعلق مسٹر ’کارٹر‘ کا خیال ہے کہ یہ ’سرداروں‘ کے قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر 7 فٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑ دیے گئے ہیں وہ قبریں شہدا کی ہیں‘۔

   ستون پر سنگ تراشی کا شاہکار—تصویر: لکھاری
ستون پر سنگ تراشی کا شاہکار—تصویر: لکھاری

ٹھٹھ شہر کے رہنے والے آرکیالاجی کے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیم قبرستان ہے۔ یہاں ہمیں تین مختلف زمانوں کی قبریں ملتی ہیں جن میں خاص طور پر وہ ستونوں والی قبریں ہیں جن کی قدامت جاننے کے لیے ہمیں بہت تحقیق کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔

’اس کے بعد سمہ دور کی قبریں ہیں یہ یقیناً صدیوں پرانا قبرستان ہے جہاں سنگ تراشی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔ یہاں ارد گرد جو قومیں اور قبیلے آباد ہیں ان سب کی قبریں یہاں موجود ہیں۔ یہاں جنگوں میں شہید ہونے والے مرد اور عورتوں کی قبریں ہیں، سرداروں کی قبریں ہیں اور عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں‘۔

   سونڈا قبرستان—تصویر: لکھاری
سونڈا قبرستان—تصویر: لکھاری

آپ اگر ملیر میں موہن جو دڑو کے زمانے کی بستی الہڈنو کے آثار، جو بازار کے مشرق میں ہیں وہاں سے مغرب کی طرف جائیں تو وہاں تھدو نئے کے کنارے بلوچ ٹومبز کی ایک دنیا آباد ہے۔ کلیم لاشاری صاحب لکھتے ہیں کہ ’چوکنڈی ایک ایسی عمارت ہے جو اوپر کھڑی تعمیر ہوسکے اور اوپر کی چھتری ستونوں کے سہارے کھڑی ہو۔

’ایسی شاندار چھتری یا اسی قسم کی چوکنڈی، ایک زمانے میں برساتی ندی تھدو کے کنارے پر واقع قبرستان میں ملک طوطہ کے قبر پر بھی تھی جوکہ اب مخدوش ہوچکی ہے البتہ اس میں استعمال کیے گئے ستون، شہتیر اور چبوترے کے پتھر ارد گرد بکھرے پڑے ہیں۔ اس چھتری کی وجہ سے قبرستان طوطائے چوکنڈی (طوطہ کی چوکنڈی) کے طور پر مشہور تھا۔‘

یہ ایک وسیع قبرستان ہے۔ اگر اس قبرستان کو آپ تحقیق کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں تو شاید ایک ماہ کا عرصہ بھی کم ہے۔ کبھی آنے والے وقتوں میں سنگ تراشی کے حوالے سے بات ہوئی تو ہم ضرور اس حوالے سے ایک تحقیقی اور تفصیلی بات کریں گے۔ اب منگھو پیر کا وہ قبرستان بھی نہیں رہا جو آج سے 60 یا 70 برس پہلے تھا۔ بس ایک دو تین قبریں ہیں جن کے پتھر بھی ترتیب سے نہیں لگے۔

   بلوچ ٹومبز میں ملک طوطہ کی گری ہوئی چوکنڈی—تصویر: نیک محمد سومرو
بلوچ ٹومبز میں ملک طوطہ کی گری ہوئی چوکنڈی—تصویر: نیک محمد سومرو

یہ انسان کے تاریخی سفر کی نشانیاں ہیں جس سفر میں ہمارے پرکھوں نے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ چل کر ہمارے لیے ثقافت اور تہذیب کے راستے وقت کی جھولی سے چُن چُن کر بنائے۔ ہم دنیا کے جن جن قبرستانوں کا ذکر کر چکے ہیں یا یہ قبرستان کن خیالات، حالات اور کیفیات میں بنے، ہمارے یہ قبرستان بھی اس تانے بانے سے بُنے گئے ہیں۔ ہمارا اس دنیا میں بسنے والوں سے تعلق ہے، ان کا ہمارے ساتھ اور ہمارا ان کے ساتھ صدیوں پرانا رشتہ ہے۔

ان قبرستانوں کے حوالے سے یہ ایک نتیجہ خیز نشست تھی اور یہاں سے ہم اب قدیم سے جدید زمانے میں داخل ہوتے ہیں کہ 18ویں صدی کی ابتدا میں کراچی کے مغرب میں کھڑک بندر میں ریت بھرنے لگی ہے اور وہاں کا مشہور بیوپاری بھوجو مل، کھڑک بندر کو چھوڑنے کی سوچ رہا ہے جبکہ سمندر کنارے ایسی جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں سے اس کا بیوپار جاری رہ سکے۔ جلد ملتے ہیں بھوجومل سے کہ اس کی نظر کہاں جا کر ٹھہرتی ہے۔

حوالہ جات

  • ’چوکنڈی اور قبائلی قبریں‘۔ کلیم اللہ لاشاری۔ محکمہ قدیم نواردات، حکومت سندھ، کراچی
  • ’کراچی سندھ جی مارئی‘۔ گل حسن کلمتی۔ نئوں نیاپو، کراچی
  • ’نگری نگری پھرا مُسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • History on Tombstone Sind and Balochistan. Ali Ahamed Brohi. Culture Department, Karachi
  • The Antiquities of Sind. By Henry Cousens. Culcutta, India
  • Riders on the wind. Sulman Rashid. Sang-e-meel Publications, Lahore
  • UNESCO web site: Ghirza
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔