’ملکی سلامتی پر سیاسی جماعتوں کی آرمی چیف سے ملاقات انتہائی خوش آئند ہے‘
گزشتہ ہفتہ پاکستانی معیارات کے حساب سے بھی کافی دلچسپ گزرا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) کیمرے کے سامنے دوستانہ ماحول میں نظر آئے، عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر کیس میں سزائیں سنائی گئیں، بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی جوکہ پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان رابطے کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا اور آخر میں کرم امن معاہدہ، جو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔
لیکن ان تمام شہ سرخیوں میں پشاور میں ہونے والے اجلاس کو نہیں بھولنا چاہیے جہاں آرمی چیف نے خیبرپختونخوا کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاستدانوں سے ملاقات کی۔ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی سے عوامی نیشنل پارٹی تک اور تمام چھوٹی جماعتوں جن کے سربراہ آفتاب شیر پاؤ اور پرویز خٹک ہیں، سب اس اجلاس میں موجود تھے۔
شاید یہ پہلا موقع تھا جب آرمی چیف نے کسی صوبے کے تمام سیاستدانوں سے عوامی سطح پر ملاقات کی ہو اور خیبرپختونخوا کی حالیہ سیکیورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہو۔ اس نے نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ ریاست اور معاشرے کو جن چیلنجز کا سامنا ہے انہیں تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ یہ اشارہ بھی دیا کہ متعلقہ حکام کو یہ شعور ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے محض ملٹری آپریشن کافی نہیں ہے۔
اس اجلاس کے مناظر نے پیغام دیا کہ سیکیورٹی سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے عوام کے احساسات و جذبات کو سمجھنا اور ان کی شمولیت کا ادراک ہونا انتہائی ضروری ہے جبکہ یہ شعور بھی ہونا چاہیے کہ عوام اور ریاست کے درمیان سیاستدان پُل کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو پرویز مشرف کے دور کے بعد ہونے والے فوجی آپریشنز یاد ہوں تو آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سیاستدان اس میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
صرف یہی نہیں۔ تصاویر کے علاوہ رپورٹس نے بتایا کہ سیاستدانوں نے اس اجلاس میں کیا مؤقف اپنائے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ’سب نے افغان عبوری حکومت سے رسمی یا غیر رسمی بات چیت کی تجویز دی‘۔ مزید کہا گیا کہ ’تمام شرکا اس بات پر متفق تھے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھا کر خطے میں امن لایا جاسکتا ہے‘۔
یہ حیران کُن تھا کیونکہ ان دنوں خبروں میں محض سرکاری بیانات یا اعلامیہ بار بار دہرائے جاتے ہیں اور معاملے کی یک طرفہ رپورٹنگ کی جاتی ہے جہاں بات چیت یا شرکا کے درمیان خیالات کے تبادلے سے متعلق بہت کم ہی بات کی جاتی ہے۔ سیکیورٹی اور اس جیسے دیگر معاملات کی رپورٹنگ کی بات آتی ہے تو یہ بات سچ بھی لگتی ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اسلام آباد میں موجود صحافی اپنے کام میں سُست ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ سیاستدانوں نے کسی سٹکام ڈرامے کے اداکار کی طرح اپنے کردار کو قبول کرلیا ہے جہاں وہ تب ہی کوئی ردعمل دیتے ہیں جب انہیں ہدایت دی جاتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت کرنے کے قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے مشترکہ فیصلے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے بار بار اسی فیصلے کی حمایت کی حالانکہ اب ان میں سے بہت سے چہرے ٹی ٹی پی کو واپس پاکستان آنے کی اجازت دینے کے پی ٹی آئی کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے وہ یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت میں بھی یہی پالیسیز برقرار تھیں جہاں جون 2022ء میں تصدیق کی کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
لیکن قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے جانے کے بعد جب افغانستان کے حوالے سے مؤقف میں تبدیلی آئی تو اقتدار میں بیٹھے تمام عناصر مذاکرات کے مخالف ہوگئے اور کابل کی عبوری حکومت کے سخت ناقد بن گئے۔ دیگر الفاظ میں موجودہ پالسیز کی حمایت کرنا ہمارے سیاستدانوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ ہفتے ہونے والا اجلاس اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجلاس کے بعد آنے والی رپورٹس نے ظاہر کیا کہ ہمارے سیاستدان نہ صرف موجودہ پالیسیز پر فوج سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اس مؤقف کے حوالے سے اتفاقِ رائے بھی ہے۔
یہ ایک حقیقی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کی پائیداری کے لیے اُمید کی جاسکتی ہے۔ ایک تو پہلے ہی ذکر کیا جاچکا کہ مشرف نے ظاہر کیا کہ صرف فوجی کارروائیاں کافی نہیں بلکہ اس کے لیے سیاستدانوں اور عوام کی حمایت کی ضرورت ہے جبکہ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو صرف خاموش پارٹنر سے بڑھ کر اہمیت دینا ہوگی۔
دوسری بات یہ کہ سیکیورٹی چیلنجز اور ان کے حل سے متعلق بحث ہونا ضروری ہے۔ بہت طویل عرصے سے سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر بات چیت اور فیصلے بند دروازوں کے پیچھے ہوتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی نے آج تک ان پر اعتراضات نہیں اٹھائے۔
چنانچہ جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ ریاست کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو اس حوالے سے بہت کم معلومات تھیں کہ ایسا فیصلہ کن وجوہات کی بنا پر کیا گیا اور جب یہ فیصلہ واپس لیا گیا تب بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
جب ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کررہی ہو اور کابل کی جانب سے انہیں روکنے کی خاطر خواہ کوششیں نہ کی جارہی ہوں تو ایسے میں ان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنا آسان ہے لیکن ہمارے لیے یہ سوال اہم ہے کہ اس میں ہمیں کیا حاصل ہوگا؟ اگر گزشتہ فوجی کارروائیوں میں صرف ٹی ٹی پی کو افغانستان میں دھکیلنے (مکمل خاتمہ کیے بغیر) سے مسئلہ حل ہوا ہوتا حالانکہ اس وقت تو افغان حکومت اور فورسز سب ان کے خلاف تھے، تو پاکستان موجودہ وقت میں کیسے ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ کیا ہماری فوجی کارروائیاں کرنے کی حکمت عملی میں کوئی کمی ہے یا ٹی ٹی پی کو مکمل طور پر ختم کرپانا ناممکن ہے؟
ساتھ ہی یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ مغرب اور مشرق دونوں سرحدوں پر حکومتوں سے دشمنی رکھنا، ہمارے لیے کتنا مناسب ہے؟ اب سے اہم یہ ہے کہ کیا ہمیں دہلی کے حوالے سے اپنی پالیسیز پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے یعنی کیا ہمیں واقعی افغانستان کے ساتھ وہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جیسا کہ ہم دہلی کے ساتھ کرتے ہیں جہاں ہر چیز سیکیورٹی کے گرد گھومتی ہے؟
گزشتہ دہائی یا اس سے زائد عرصے سے سنگین نوعیت کے حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان سے تجارت اور شہریوں کے داخلے پر متعدد بار پابندیاں لگائی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سخت بیانات دینے کی بھی عادت ہوچکی ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کے خیال میں سفارت کاری یا بات چیت سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کے طریقہ کار کی افادیت پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ سوال پوچھنا بھی اہم ہے کہ اس سے حکومت کو عوام کی حمایت کیسے حاصل ہوگی بالخصوص جب عوام ٹی ٹی پی کے حملوں کی وجہ سے معاشی نقصانات کا سامنا کررہے ہیں۔
شاید موجودہ پالیسی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو لیکن ہمیں اس حوالے سے بحث و مباحثہ کرکے اس نتیجے پر پہنچنا ہے جو نہ صرف حال پر توجہ مرکوز کرے بلکہ ماضی میں ہم سے جو ہوا اور جو نہ ہوسکا اس پر بھی روشنی ڈالے۔ ایسا کرنے سے ہمیں یہ بصیرت ملے گی کہ ہم نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام کیوں رہے۔
بلاشبہ پشاور کا اجلاس ایک اہم اقدام تھا۔ امید کرتے ہیں کہ یہ اس نوعیت کا آخری اجلاس نہیں ہوگا جہاں تبادلہ خیال اور بات چیت ہو، بلکہ مستقبل میں ایسے بہت سے اجلاس ہوں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔