’ملیر ایکسپریس وے کا افتتاح ہوچکا لیکن خطرات برقرار ہیں‘
حکومت سندھ نے حال ہی میں کراچی ملیر ایکسپریس وے کے ایک حصے کا افتتاح کیا ہے جسے ’شاہراہِ بھٹو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سڑک کی لمبائی 39 کلومیٹرز ہے جو ایم نائن موٹر وے (بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی اور اس سے ملحقہ دیگر رہائشی منصوبوں) کو ڈیفنس اور اس کے مضافاتی علاقوں سے منسلک کرے گی۔
ایکسپریس وے اور اس جیسے منصوبوں کی مالی قیمت تو ادا کرنی ہی ہوتی ہے لیکن ان کے سماجی نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں جب 16.5 کلومیٹرز طویل لیاری ایکسپریس وے تعمیر کی گئی جس نے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا۔ اس پروجیکٹ سے متاثرہ بہت سے لوگ اب بھی حکومت کی آبادکاری اسکیمز میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایکسپریس وے جیسے پروجیکٹس سیاستدانوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ایسی اسکیمز کے ساتھ ان کی تصاویر، سیاسی ساکھ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں اور ان کی سیاسی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے۔
موٹر سائیکلز، بڑے رکشے، منی بسسز اور عام پبلک بسسز ایکسپریس وے کا استعمال نہیں کرتیں۔ ایکسپریس وے ملک کی اشرافیہ آمدورفت کے لیے زیادہ استعمال کرتی ہے۔ عام سڑکیں، ثانوی گلیاں اور دیگر روڈز پر بھاری ٹریفک کا بوجھ ہوتا ہے جبکہ پیدل چلنے والے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کراچی میں ایسی سڑکوں کی حالت کسی جنگ زدہ علاقے کی حالت سے زیادہ اچھی نہیں۔
ماہرینِ ماحولیات، سماجی کارکنان، سول سوسائٹی کے اراکین اور مقامی کمیونٹیز کے اراکین ملیر ایکسپریس وے سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسے ماحولیات کی مجموعی صورت حال یعنی دریا اور اس کے ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، اس سے کاشتکاری کی سرگرمیوں میں کمی آئی گی جبکہ یہاں کے مقامی لوگوں کو مبینہ طور پر اعلیٰ حکام کی جانب سے مارکیٹ سے کم نرخوں پر زمین فروخت کرنے پر دباؤ ڈالنے جیسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس پروجیکٹ پر ہونے والے اخراجات کا شہر کی 9 ہزار 500 کلومیٹرز سے زائد سڑکوں کی مرمت کے برابر رقم سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ ملیر ایکسپریس وے پر تخمینہ کے مطابق 55 ارب روپے کی لاگت آئی ہے۔ سرکاری اور نجی شرکت داری کے تحت حکومت سندھ نے اس منصوبے میں 32 ارب روپے کا حصہ ڈالا ہے۔ خدشات کا شکار شہریوں کا کہنا ہے کہ اتنی خطیر رقم سے شہرِ کراچی کی سڑکوں کی مرمت کا کام کیا جاسکتا تھا جس سے عام شہریوں کو ریلیف ملتا۔ ایکسپریس وے سے صرف نجی گاڑیوں کے مالکان اور دیگر گاڑیاں مستفید ہوپائیں گی۔
ملیر ندی کا شمار کراچی کے قیمتی ماحولیاتی نظاموں میں ہوتا ہے جوکہ ایک ہزار 850 کلومیٹرز رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ملیر ندی میں جھاڑیاں، درخت، سبزیوں کے کھیت، بنجر زمین اور تناور درخت شامل ہیں جوکہ ماحولیاتی نظام کے اہم عناصر ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پہلے ہی ’سینڈ مائننگ‘ ہورہی ہے جس نے زمین کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مٹی کی کھدائی کے ناپسندید عمل سے پہلے ہی بڑے رقبے کی قدرتی خصوصیات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ ملیر ندی میں فیکٹریوں اور گھروں سے بےدریغ فضلے اور سیوریج کے پانی کا اخراج کیا جاتا ہے۔ چونکہ سیوریج میں غذائیت کے اجزا شامل ہوتے ہیں اس لیے ملیر ندی کے کناروں پر بہت سے درخت اور جھاڑیاں اُگ جاتی ہیں۔ اس سے ندی کے بہاؤ کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مون سون کے موسم میں ندی پھیل جاتی ہے اور اس میں سیلاب آجاتا ہے جس سے اس کے کنارے پر واقع علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ان زمینی اور ماحولیاتی مسائل کا تدارک کیسے کیا جائے گا۔
ہم اس حوالے سے دیگر ممالک سے اسباق لے سکتے ہیں کہ جنہوں نے شہروں میں ایکسپریس وے بنائے اور بعد میں انہیں عوامی مقامات قرار دے کر شاہراہیں مسمار کردیں۔ اس کی ایک مشہور مثال چن گائی چن (Cheonggyecheon) ہے جو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں واقع ایک ندی ہے۔ برسوں پہلے ندی کے اوپر ایک بلند شاہراہ تعمیر کی گئی تھی جو مکمل طور پر اس ندی پر بچھی ہوئی تھی۔
اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ اس کے نیچے ہائی وے کے دائیں طرف خالی جگہیں بن گئیں۔ ایک میئر نے ہائی وے کو سائنسی انداز میں احتیاط سے مسمار کرکے ندی کو بحال کرنے کا باہمت فیصلہ کی۔ اب سیئول کا یہ علاقہ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
اسی طرح 2008ء میں کامن ویلتھ گیمز سے قبل نئی دہلی میں ریپڈ بس ٹرانزٹ سسٹم بنایا گیا تھا۔ یہ ایک ناقص منصوبہ بندی تھی جس سے ٹریفک جام اور فضائی آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بلآخر اس منصوبے کو ختم کردیا گیا۔
بعدازاں بہت سے جدید اور مؤثر پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبے لانچ کیے گئے جس میں دہلی میٹرو بھی شامل ہے۔ بی آر ٹی سے متعلق قانونی کارروائی میں دہلی ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’ایک ترقی یافتہ ملک وہ نہیں ہوتا کہ جہاں غریب کے پاس بھی اپنی گاڑی ہو بلکہ ترقی یافتہ وہ ملک ہوتا ہے جہاں کا امیر طبقہ بھی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرے‘۔
کراچی ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے ملیر ندی میں صاف پانی کا بہاؤ ضروری ہے۔ دریا کے کناروں کی قدرتی حالت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان علاقوں میں کاشتکاری اور سبزے کی افزائش ہوسکے۔ اس مسئلے اور دیگر چینلجز سے نمٹنے کے لیے شاید ندی کی بحالی کا جامع منصوبہ تیار کیا جاسکتا ہے۔
اس اقدام میں ملیر ندی کی حد بندی اور اس کی معاون ندیوں تھڈو اور سُکن سمیت ملحقہ علاقے میں کاشتکاری کی سرگرمیوں کا تحفظ کو شامل کیا جاسکتا ہے، آبادیوں کے لیے سروے اور ان کی حفاظت جبکہ مٹی کی غیرقانونی کھدائی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
حکومت کو دیہی آبادی اور سماجی کارکنان کے مطالبات پر توجہ دینا ہوگی جوکہ برسوں سے غیرقانونی سینڈ مائننگ کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس جامع منصوبے میں نقل و حمل کے نظام میں بہتری، ماحولیات کی حفاظت، پُر نم زمینوں پر ترقیاتی کام، سیوریج کا انتظام اور سیاحت کے لیے پُرکشش مقامات کی تعمیر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ملیر ندی اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو اچھی منصوبہ بندی کے ذریعے بحال کرکے ترقی دی جائے تو اس اہم ماحولیاتی اثاثے کو مقامی آبادی کو فائدہ پہنچانے کے لیے تبدیل کیا جاسکتا ہے جو کراچی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔