پیکا ترمیم اور اظہارِ رائے پر پابندیاں: ’اب حکومت جج جیوری اور جلاد ہے‘
اس وقت جب پاکستان کو بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ انٹرنیٹ کا انتظام کیسے درست کرتا ہے، ہماری حکومت سائبر کرائم قوانین میں بڑی تبدیلیوں کا مشورہ دے رہی ہے۔ ان تبدیلیوں میں چار نئی تنظیموں کا قیام اور آن لائن نقصان کی غیر واضح تشریح اور وسیع تعریفیں شامل کرنا شامل ہیں۔ ان نئے قوانین کے مطابق لوگوں کو ’جھوٹی یا جعلی معلومات‘ شیئر کرنے پر تین سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پیکا ترمیم کو عوام کی نمائندگی کرنے والوں سے مشورہ کیے بغیر منظور کر لیا گیا ہے۔ قوانین اور پالیسیاں بنانا ایک ایسا عمل ہونا چاہیے جہاں ہر کسی کی رائے ہو، بشمول وہ لوگ جو براہ راست ان قوانین سے متاثر ہوں گے جیسے متعلقہ شعبے کے ماہرین، متاثر ہونے والے میڈیا ورکرز اور نوجوان جو سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
یہ ترمیم بنیادی طور پر انٹرنیٹ سے متعلق ان تمام غیرقانونی کارروائیوں کو قانون کے دائرے میں لاتی ہیں جو 2016ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے سائبر کرائم قانون (پیکا) متعارف کروائے جانے کے بعد سے کی گئی ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات کو پہلے غیر قانونی سمجھا جاتا تھا۔
سب سے پہلے یہ ترمیم ’شکایت کنندہ‘ کی تعریف کو وسیع کرتی ہے جس میں نہ صرف براہ راست متاثر ہونے والے فرد کو شامل کیا جاتا ہے بلکہ ہر وہ شخص شامل ہوگا جو یہ مانتا ہے کہ جرم ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف ’افراد بلکہ تنظیموں اور سرکاری اداروں‘ کو بھی شکایت کنندہ کی تعریف میں شامل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب، گروپ اور حکومت دونوں اس قانون کو لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ، اس ترمیم کے تحت ’جھوٹی یا جعلی معلومات‘ شیئر کرنا جرم ہے۔ ’اگر کوئی جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلاتا ہے جوکہ غلط ہے اور وہ معاشرے میں خوف یا بدامنی کا باعث بن سکتا ہے تو ایسے شخص کو تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ اظہارِ رائے کے لیے یہ سزا سخت تشویشناک ہے کیونکہ اس کی تعریف مبہم ہے اور آسانی سے اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کے پاس اب یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا کہ وہ تعین کرے کہ سچ کیا ہے اور ان لوگوں کو سزا دی جائے گی جو اس کے خیال میں جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں، خاص طور پر بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کے خلاف ہے جو آزادی اظہار کے بارے میں اصول طے کرتا ہے جس کے آرٹیکل 19 میں قوانین واضح، ضروری اور منصفانہ بنانے کی ضرورت پر زور ڈالا گیا ہے۔
اس ترمیم کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوگا، اس پر حکومت کا تقریباً مکمل کنٹرول ہوگا یعنی حکومت جج، جیوری اور جلاد بن چکی ہے۔ اس کا بہت کم احتساب یا جانچ پڑتال ہوگی جوکہ جمہوری نظام میں انتہائی اہم ہوتی ہے۔ اس ترمیم سے چار نئے اداروں کا قیام عمل میں آئے گا جن میں سے ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔
یہ نیا ادارہ ممکنہ طور پر انٹرنیٹ کے مواد کو کنٹرول کرنے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ذمہ داری نبھائے گی اور اسے بغیر کسی سوال کے حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ پی ٹی اے کا مقصد خود مختار ہونا تھا اور وہ یہ انتخاب کر سکتا تھا کہ آیا حکومتی احکامات پر عمل کرنا ہے یا نہیں لیکن نئی اتھارٹی صرف حکومتی احکامات پر عمل کرے گی۔ پی ٹی اے نے عدالت میں یہ دلیل تک دی کہ اسے وزارت داخلہ نے ایکس کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا حالانکہ قانون کہتا ہے کہ اسے خود ایکس بلاک کرنے یا نہ کرنے کا کا فیصلہ کرنا تھا۔ تاہم اس نئی اتھارٹی کے چیئرپرسن کا تقرر براہ راست وفاقی حکومت کرے گی۔
پیکا کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عوام کی شکایات جمع کرنے کے لیے ایک نئی سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل نئی اتھارٹی کے فیصلوں سے متعلق اپیلوں کو سنبھالے گا۔ تاہم ہائی کورٹس میں معمول کے مطابق اپیلیں کرنے کے بجائے براہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہیں۔
یہ پاکستان کے آئین (آرٹیکل 10) کے تحت منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حق کے خلاف ہے۔ ٹریبونل ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج، ایک سافٹ ویئر انجینئر اور ایک صحافی پر مشتمل ہوگا۔ قانونی مسائل کی پیچیدگی کے پیش نظر، ان فیصلوں کو ایسی کونسل پر چھوڑنا غیر منصفانہ ہے جبکہ پہلے ہائی کورٹس میں اپیل کرنے کا حق برقرار رہنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ترمیم وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کا کردار سنبھالنے کے لیے ایک نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن اتھارٹی تشکیل عمل میں آئے گی۔ یہ 2016ء میں پیکا کی منظوری کے 9 سال بعد ہوا ہے کہ جب موجودہ ادارے توقعات پر پورا نہیں اترے۔ اب نئے اداروں کی تشکیل ترقی کے عمل کو سست کرسکتی ہے اور قانون کے تحت سائبر کرائم سے نمٹنے میں نظام کو کم مؤثر بنا سکتی ہے۔
چوتھا نکتہ یہ کہ ترمیم اتھارٹی کو یہ فیصلہ کرنے کا زیادہ اختیار دیتی ہے کہ کون سا مواد، غیر قانونی شمار ہونا ہے کون سا نہیں۔ اس حوالے سے 9 نئے زمرے شامل کیے گئے ہیں جو پیکا کے اصل قانون کے سیکشن 37 میں درج تھے۔ ان میں سے ایک زمرے میں ایسا مواد شامل ہے جو عدلیہ، فوج، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان جیسے افراد پر ’تشدد کا اظہار کرتا ہے‘۔ اس سے اتھارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متعدد رپورٹس کی جاسکتی ہیں جن میں ان شہریوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو محض سرکاری اہلکاروں کا احتساب مانگتے ہیں کیونکہ انہیں ٹیکس دہندگان اور ووٹر کی حیثیت سے حساب مانگنے کا حق حاصل ہے۔
اس ترمیم میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی بھی ضرورت ہے یعنی انہیں پاکستان میں مقامی طور پر کام کرنا چاہیے۔ اگر وہ اتھارٹی کے سینسر شپ کے مطالبات پر عمل نہیں کرتے ہیں تو اتھارٹی پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بلاک کر سکتی ہے۔
پیکا ترمیم اور اس سے اظہارِ رائے پر مزید پابندیاں پاکستان کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بنیں گی۔
سب سے پہلے، یہ ترمیم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا 2021ء میں منظور کیا گیا پیکا آرڈیننس جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپریل 2022ء میں کالعدم قرار دیا تھا۔ آزادی اظہار اور صحافت کی آزادی کے حق کو اتنا محدود نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں صحافیوں کو اس صورت میں تین سال تک قید کا سامنا کرنا پڑے کہ حکومت نے ان کی رپورٹنگ یا کسی عام شہری کی سوشل میڈیا پوسٹ کو ’جھوٹ‘ قرار دے کر رد کردیا ہو۔
یہ ٹربیونل کے فیصلوں کی اپیلوں کو پہلے ہائی کورٹس کی طرف سے نظرثانی کی اجازت دینے کے بجائے صرف سپریم کورٹ تک محدود کرکے مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ حقوق میں مزید کمی سنگین بین الاقوامی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ آئی سی سی پی آر کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ درجہ پاکستان کو یورپی یونین سے تجارتی فوائد حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ میں ملک کی کارکردگی پر مبنی ہیں۔ اگر پاکستان ان معیارات پر پورا نہیں اترتا تو وہ ان تجارتی مراعات سے محروم ہو سکتا ہے۔
تیسرا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے انٹرنیٹ کا ماحول مزید تنگ ہو جائے گا جس سے معاشی نقصانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کو پہلے ہی برین ڈرین کا سامنا ہے۔ بہت سے ہنر مند پیشہ ور افراد ملک چھوڑ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سینسرشپ، نگرانی، اور فائر وال کی وجہ سے سست روی جیسے مسائل کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید خراب ہو گیا ہے۔ یہ مسائل عوام کے لیے آن لائن کام کرنا اور اختراعات کا عمل مشکل بنا دیتے ہیں۔
کوئی بھی منصفانہ اور آزاد عدالت ممکنہ طور پر ایسے سخت قوانین کو مسترد کر دے گی کیونکہ یہ جمہوری آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے نوجوانوں کے مفادات کو بھی نقصان پہنچتا ہے جنہیں عالمی سطح پر بڑھنے، سیکھنے اور مقابلہ کرنے کے لیے مفت اور تیز انٹرنیٹ کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔