• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:41pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:00pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:01pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:41pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:00pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:01pm

گھوڑوں کی روایتی دوڑ: ’ان گھوڑوں کو شہزادیوں کی طرح پالا جاتا ہے‘

سندھ میں مختلف درگاہوں، پیروں، بزرگوں کے عرس پر سجنے والے میلوں میں شامل ان گنت خوبصورت رنگوں میں سب سے حسین رنگ گھوڑوں کی روایتی دوڑ ہے جو آج بھی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔
شائع 03 فروری 2025 10:05am

صوبہ سندھ کے طول و عرض میں واقع درگاہوں پر لگنے والے میلے صرف ان لوگوں کے لیے نہیں لگتے جو دلوں میں منتیں مرادیں سجائے چلے آتے ہیں۔ درگاہوں میں مدفن روحانی ہستیوں کے عقیدت مندوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگ درگاہوں کے راہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پیروں، بزرگوں کے عرس پر سجنے والے میلوں میں ان گنت خوبصورت رنگ شامل ہوجاتے ہیں۔

ان لوگوں کے آنے سے ویرانوں میں رونق لگ جاتی ہیں جہاں سندھی ثقافت آپ کو سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ ان محفلوں کے ہر رنگ اپنے آپ میں خوبصورت ہوتے ہیں جو آپ کی دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتے ہیں۔

ایسے میلوں میں روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں، تھڑے پر تھیٹر قائم ہو جاتے ہیں۔ سورج ڈھلنے کے بعد صوفی و غیر صوفی راگ رقص دیکھنے سننے کو ملتا ہے۔ گانے بجانے والوں کی ٹولیاں ایک دوسرے سے ایک مناسب فاصلے پر چاروں اطراف کے کونے آباد کر لیتی ہیں۔ مٹھائیوں، کھلونوں، کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں اور گانے والوں کی ٹولیاں مل جل کر عرس کے دنوں میں درگاہوں کے اطراف ایک چھوٹا سا شہر بسا لیتے ہیں۔

ان میلوں کا ملاکھڑا بھی لازمی حصہ ہوتا ہے جس میں زور آزمائی کرنے اور داد سمیٹنے کے لیے سندھ بھر سے ملہہ پہلوان میلے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ کسان جو اب تک بیل پال رہے ہیں، ان کے لیے بیلوں کی دوڑ منعقد ہوتی ہے جبکہ اچھی نسل کے مویشیوں کو بناؤ سنگھار کروا کر نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

ان میلوں کا سب سے زیادہ حسین رنگ گھوڑوں کی دوڑ ہوتی ہے۔ اکثر میلوں میں سندھ بھر سے خوبصورت گھوڑے لائے جاتے ہیں۔ ان گھوڑوں کو دیکھ کر اکثر لوگوں کو اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔ وہ بچپن جب بوڑھی خواتین، بچوں کو بادشاہوں، شہزادیوں اور پریوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھی۔

ان کہانیوں میں گھوڑے ہوتے تھے جن پر بادشاہ اور شہزادی سواری کرتے نظر آتے تھے۔ ان کہانیوں میں کبھی کبھی شہزادوں اور بادشاہوں کی جگہ گھوڑے کہانی کے مرکزی کردار بن جاتے تھے اور بوڑھی عورتیں کہتی تھیں کہ گھوڑوں کو شہزادوں کی طرح پالا جاتا تھا جنہیں انہیں کی طرح کھلایا پلایا جاتا تھا اور ان کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہی بوڑھی خواتین کہتی تھیں کہ بھلا کوئی ان گھوڑوں کو بھی بیچ سکتا ہے کیا؟

  گھوڑے اب ہمیں صورف اصطبل میں نظر آتے ہیں
گھوڑے اب ہمیں صورف اصطبل میں نظر آتے ہیں

وہ گھوڑے نہ صرف کہانیوں کے مرکزی کردار تھے بلکہ زندگی کا بھی اہم حصہ تھے۔ اب وہی گھوڑے زندگی سے آہستہ آہستہ غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اب صرف ان میلوں میں یا ان کے پالنے والوں کے بنگلوں میں قائم اصطبلوں میں نظر آتے ہیں مگر ہماری روزمرہ زندگی سے تو جیسے معدوم ہوچکے ہیں۔

اصطبلوں میں گھوڑوں کو آج بھی شہزادوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسے گھوڑوں کو میلوں کے موقع پر دوڑایا جاتا ہے۔ گھڑ دوڑ کے لیے جو عارضی ریس کورس بنایا جاتا ہے اسے سندھی میں ’پٹی‘ کہا جاتا ہے۔ پٹی کو اس طرح ہموار کیا جاتا ہے کہ اس کی چوڑائی اتنی ہوکہ زیادہ سے زیادہ 20 گھوڑے بیک وقت دوڑ سکیں۔ پٹی کی لمبائی 800 فٹ رکھی جاتی ہے۔

  ان گھوڑوں کی شہزادوں کی طرح خصوصی دیکھ بھال کی جاتی ہے—تصویر: رحمٰن پل
ان گھوڑوں کی شہزادوں کی طرح خصوصی دیکھ بھال کی جاتی ہے—تصویر: رحمٰن پل

  اصطبلوں میں گھوڑوں کو خصوصی تربیت بھی دی جاتی ہے—تصویر: رحمٰن پل
اصطبلوں میں گھوڑوں کو خصوصی تربیت بھی دی جاتی ہے—تصویر: رحمٰن پل

سوار جب گھوڑوں کو اس پٹی پر لاتے ہیں تو اسے تنہا نہیں لاتے بلکہ اس کے ساتھ ایک اور گھوڑے کو بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ساتھی گھوڑے کو مقامی اصطلاح میں ٹپالی یا ایلچی کہا جاتا ہے۔ یہ ایلچی یا ٹپالی گھوڑا دوڑ کا گھوڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ صرف ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے کو دوڑنے پر اُکسانے کے لیے دوڑایا جاتا ہے۔

پٹی پر دوڑنے والے گھوڑے کو عام طور پر ’تین پانی‘ دوڑایا جاتا ہے۔ گھوڑا ایک دوڑ یا دو دوڑ لگاتا ہے۔ اس وقت گھوڑے کو تھوڑی دیر کے لیے روکا جاتا ہے۔ اسے کپڑے سے ہوا لگاتے ہیں، اس کے پسینے کو سکھاتے ہیں۔ اس وقفے کو پانی کہا جاتا ہے۔ کچھ شائقین تین پانیوں سے زیادہ بھی گھوڑے کو دوڑاتے ہیں جبکہ کچھ کم بھی دوڑاتے ہیں۔

عام طور پر لگنے والے بڑے میلوں میں تین گھڑ سوار یا ان کے مالکان اپنے گھوڑوں کو مختلف اوقات پر ریس میں دوڑاتے ہیں۔ پہلی مرتبہ گھوڑے کو میلے کے پہلے دن افتتاح کے بعد، دوسرے دن صبح کے وقت اور تیسری مرتبہ شام کے وقت گھوڑوں کی ریس منعقد کی جاتی ہے۔ لیکن اگر میلہ ایک روزہ ہو تو صرف میلے والے دن ایک یا دو مرتبہ گھڑدوڑ ہوسکتی ہے۔

  میلے میں حصہ لینے والے گھوڑوں کے مالکان انہیں دوڑاتے رہتے ہیں—تصاویر: لکھاری
میلے میں حصہ لینے والے گھوڑوں کے مالکان انہیں دوڑاتے رہتے ہیں—تصاویر: لکھاری

اس دوڑ کے وقت جو پرانے شوقین لوگ وہاں بیٹھ کر گھوڑے کی دوڑ کو دیکھتے ہیں۔ گھوڑوں کی رفتار کے علاوہ دیگر عوامل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اسی مشاہدے کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا اچھا دوڑ پایا۔ اگر کوئی گھوڑا اپنے اگلے دو پاؤں پر وزن دے رہا ہے اور پچھلے دو پاؤں چھوڑ رہا ہے تو اس گھوڑے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے اور اسے دوڑ سے باہر سمجھا جاتا ہے۔

اگر کوئی گھوڑا اپنا وزن اپنے تین پاؤں پر دے رہا ہے اور ایک پاؤں چھوڑ رہا ہے تو یہ گھوڑا بھی مقابلے سے باہر ہوجاتا ہے۔ ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے حتمی فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ اس میں ہار جیت نہیں ہوتی بس اچھے گھوڑے کو اچھا کہا جاتا ہے اور مالکان کو گھوڑوں پر مزید سدھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

گھوڑوں کے مشہور شائق 45 سالہ انور ہنگورجو بتاتے ہیں کہ ’کوئی بھی شائق گھوڑا خریدنے سے قبل اس کی نسل دیکھتا ہے۔ سندھ میں گھوڑوں کی چار مقبول نسلیں ہیں، سندھی، بلوچی، عربی اور کاٹھیاواڑی جسے مارواڑی بھی کہا جاتا ہے۔ مارواڑی نسل کے گھوڑے کے کان بھینس کی سینگوں کے طرح کنڈھے تک ہوتے ہیں، اس کی گردن پتلی، منہ چھوٹا ہوتا ہے جبکہ اس گھوڑے کا پچھلا حصہ نیچے ہوتا ہے اور اگلا حصہ اوپر ہوتا ہے‘۔

  گھوڑے پالنے کے شوقی افراد نسل پہنچاننے میں مہارت رکھتے ہیں— تصویر: لکھاری
گھوڑے پالنے کے شوقی افراد نسل پہنچاننے میں مہارت رکھتے ہیں— تصویر: لکھاری

مزید بتاتے ہیں کہ ’دوسرا سندھی نسل کا گھوڑا ہوتا ہے جو بہت خوبصورت نسل ہے۔ اس نسل کے گھوڑے کا قد لمبا ہوتا ہے۔ اس کے کان چھوٹے اور سیدھے ہوتے ہیں اور یہ وزن میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس نسل کے گھوڑے کا منہ بھی بڑا جبکہ گردن لمبی ہوتی ہے۔ تیسرا بلوچی نسل کا گھوڑا ہے جو سندھی نسل کے گھوڑے کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے صرف کان لمبے ہوتے ہیں۔ گردن اور پونچھ پر بال لمبے اور زیادہ ہوتے ہیں جسے ’بر‘ کہا جاتا ہے‘۔

ان تمام نسلوں میں شائقین سندھی گھوڑے کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ نہ ملے تو ان کی دوسری پسند بلوچی گھوڑا ہوتی ہے۔ عربی گھوڑا سندھ میں بہت نایاب ہے اور کم دستیاب ہوتا ہے۔ ان نسلوں کے علاوہ شائقین گھوڑوں کو ان کے رنگ کی بنا پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔

گھوڑے پالنے کے شوقین 35 سالہ سنیل بھگت بتاتے ہیں کہ ’رنگ کے اعتبار سے بھی گھوڑوں کی اقسام ہوتی ہیں۔ اس میں سے ایک کو ’کالی رگوں والا کمیت‘ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے گھوڑے کی پاؤں کی رگیں کالی ہوتی ہیں اس گھوڑے کے کندھے پر لمبے بال ہوتے ہیں جوکہ کالے ہوتے ہیں اور اس کی پونچھ بھی کالی ہوتی ہے۔

’دوسرا بہتر رنگ کالا سمجھا جاتا ہے۔ مکمل کالے رنگ کے گھوڑے کو بھی سندھ میں اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس گھوڑے کا پورا جسم کالا ہوتا ہے۔ سبز سرخا گھوڑے کی اس قسم کا رنگ بالکل سفید ہوتا ہے اور اس پر ہلکے کالے بال ہوتے ہیں۔ سبز سرخا دیناری گھوڑا سفید ہوتا ہے مگر اس کے پورے جسم پر دینار سکے کی طرح کالے نشانات ہوتے ہیں۔ سرخا قسم کا گھوڑا مکمل سفید ہوتا ہے۔ نکرا گھوڑا پورا کالا ہوتا ہے صرف اس کے بر کالی ہوتی ہے جس گھوڑے کو ’بور‘ پکارا جاتا ہے اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ کبوتر گھوڑے کی قسم بور اور سرخو کا امتزاج ہوتی ہے۔ کشمشی بور گھوڑے کا رنگ کشمش کی طرح گہرا ہوتا ہے‘۔

  سندھی گھوڑے کی نسل کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے—تصویر: لکھاری
سندھی گھوڑے کی نسل کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے—تصویر: لکھاری

سنیل بھگت بتاتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ گھوڑے کی رنگ کے اعتبار سے اور بھی اقسام ہیں جن میں سنجاپ بھارت میں پایا جاتا ہے۔ سرخ سنجاپ گھوڑا سفید رنگ کا ہوتا ہے۔ اس کے جسم پر سرخ رنگ کے بڑے بڑے پٹے ہوتے ہیں۔ دوسرا کالا سنجاپ ہوتا ہے اس قسم کے گھوڑے کا رنگ سفید ہوتا ہے مگر اس کے اوپر بڑے بڑے کالے پٹے ہوتے ہیں۔ گھوڑے کی ایک اور قسم کو پانچ کلیان کہا جاتا ہے جو کسی بھی رنگ میں ہوسکتا ہے مگر اس گھوڑے کے چاروں پاؤں سفید رنگ کے ہوتے ہیں‘۔

گھوڑے کی ایک نایاب قسم فتح جنگ ہے جوکہ عام نہیں ہے اور یہ جس کے گھر میں ہوتا ہے وہ اسے بیچتا ہے اور نہ ہی کسی کو دیتا ہے۔ اس گھوڑے کا کوئی بھی رنگ ہوسکتا ہے مگر اس کے اگلے دونوں پاؤں سفید ہوتے ہیں۔ گھوڑے کی اس قسم کا تعلق امام اور عالی مرتبت شخصیات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اس لیے اس گھوڑے کو گلدستہ بھی کہا جاتا ہے۔ شیر مکڑا گھوڑے کے اس قسم میں پاؤں کی رگیں کالی ہوتی ہیں، گردن کے بال کالے ہوتے ہیں جبکہ شیر مکڑا کی بھی دو اقسام ہیں ایک سمندر مکڑا اور دوسرا بوسکی مکڑا۔

  سرخ سنجاپ گھوڑا سفید رنگ کا ہوتا ہے—تصویر: لکھاری
سرخ سنجاپ گھوڑا سفید رنگ کا ہوتا ہے—تصویر: لکھاری

گھوڑے کی ایک اور قسم ہے جسے شائقین بلکل پسند نہیں کرتے ہیں۔ اسے ابت ڈان کہا جاتا ہے اور اس قسم کے گھوڑے کے ایک طرف کے دونوں پاؤں سفید ہوتے ہیں۔ ایک اور ناپسندیدہ اور بد شگون مانی جانے والی نسل گھوڑے کے اس قسم کو صافی کہتے ہیں۔ شائقین کا ماننا ہے کہ کمیت گھوڑا سب سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے۔ شیر مکڑا اگر دوڑ گیا تو سب سے اچھا ہے اگر بگڑ گیا تو کسی کام کا نہیں ہے۔

شائقین گھوڑے کی نسل اور رنگ سے مطمئن ہونے کے بعد اس کی دیگر خصوصیات دیکھتے ہیں۔ انور ہنگورجو کے مطابق ’گھوڑے کی گردن لمبی ہونی چاہیے، ایک اچھے گھوڑے کی گردن کم از کم 60 انچ ہونی چاہیے۔ گھوڑے کا پاؤں جسے سنب کہتے ہیں وہ بڑا ہونا چاہیے، ہرن کے پاؤں کی رگوں کی طرح گھوڑے کی رگیں بھی پتلی ہونی چاہیے۔ زمین پر پڑنے والا کھرے کا حصہ کشادہ ہو اور آخری حصہ ذرا پتلا ہو۔ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ بڑا ہوگا تو گھوڑا ہار جائے گا۔

  جس گھوڑے کی گردن لمبی ہوتی ہے ان کی مانگ زیادہ ہوتی ہے—تصویر: فیس بُک
جس گھوڑے کی گردن لمبی ہوتی ہے ان کی مانگ زیادہ ہوتی ہے—تصویر: فیس بُک

شائقین گھوڑے کی تمام رنگ و نسل دیکھ کر پھر اس پر اپنی توجہ لگا کر اسے تربیت دے سکتے ہیں۔ تین سال کے گھوڑے کو سرل کہا جاتا ہے۔ 3 سال سے لے کر 5 سال تک کے گھوڑے کو دوگ کہتے ہیں اور 5 سال سے بڑے گھوڑے کو پانچار کہا جاتا ہے۔

گھوڑے کو تین سال کے بعد تربیت دینا شروع کی جاتی ہے۔ تین سال سے لے کر 5 سال تک گھوڑے کی تربیت ہوتی ہے جس کے بعد یہ میلے میں اتارنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ تاہم آج کل تو 3 سال کے گھوڑے بھی میلوں میں اترتے ہیں اور جیت بھی جاتے ہیں۔

دوڑ کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ گھوڑے کو سب سے پہلے وکھ، اس کے بعد رلو، چرل، اس کے بعد ڈوگام حد تک دوڑایا جاتا ہے۔ یہ سب دوڑ کی اقسام ہیں جو گھوڑا ڈوگام تک پہنچتا ہے۔ وہ آگے جا کر وارڑیا بنتا ہے اور جو چرل تک جاتا ہے، وہ آگے جاکر چوباز بنتا ہے۔

پہلے وارڑئے کو اچھا سمجھا جاتا تھا۔ وہ ریت یا مٹی کسی بھی زمین پر دوڑ سکتا تھا مگر اب چوباز کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ چوباز گھوڑا ریت میں یا نرم زمین پر نہیں بلکہ صرف پکی زمین پر دوڑ سکتا ہے۔ ہر چوباز دوڑنے میں تیز ہوتا ہے مگر اس کے مقابلے میں وارڑیا کی رفتار کم ہوتی ہے۔ اس میں سے پر کوئی تیز نہیں دوڑ سکتا۔

انور ہنگورجو بتاتے ہیں کہ ’جیسے گائک سُر میں گاتے ہیں ویسے گھوڑے بھی سر میں دوڑتے ہیں۔ اگر کسی گھوڑے کا سر چوک گیا تو وہ اس کا کام بگڑ جاتا ہے۔ بس گھوڑے کی دوڑ کو ایسے ہی سمجھنا پڑتا ہے جیسے گائک کے سروں کو لیہ اور تان کو سمجھا جاتا ہے‘۔

  یہ گھوڑے سُر میں دوڑتے ہیں—تصویر: لکھاری
یہ گھوڑے سُر میں دوڑتے ہیں—تصویر: لکھاری

آج کل تو گرمیوں میں بھی گھوڑے کو دوڑنا سکھایا جاتا ہے مگر پہلے جیسے ہی سردیاں ختم ہوتی تھی تو عارضی سنج بنا کر اس گھوڑے کے سامنے جلا دیتے تھے جس سے گھوڑا سمجھ جائے کہ آج کے بعد مجھے دوڑایا نہیں جائے گا۔ ایسا کرنے سے گھوڑا سکون سے کھا پی سکتا تھا۔

موسمِ سرما گھوڑے کو دوڑنا سکھانے کا موسم ہے۔ گھوڑے کو ہر روز صبح شام 10 کلومیٹر تک دوڑایا جاتا ہے۔ جب سردیوں میں گھوڑا دوڑایا جاتا ہے تو اسے اناج مکس کرکے دیا جاتا ہے جس میں گندم، باجرہ، چاول شامل ہوتے ہیں۔ اصلی گھی، مکھن اور تل بھی کھلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھوڑوں کے کھانے کے لیے ایک دیگ بناتے ہیں جس میں لال گاجر، دودھ، دیسی گھی، پستے، بادام اور دیگر میوہ جات ڈالے جاتے ہیں۔

گائے کے دودھ کو کم عمر گھوڑوں کی افزائش کے لیے مفید مانا جاتا ہے جبکہ گھوڑوں کی خوراک میں سیپیاں بھی شامل کی جاتی ہیں اور پنسار کے دکان پر ملنے والا سیپ کا مربا بھی اسے کھلایا جاتا ہے۔

  سردیوں میں گھوڑے کو اناج مکس کرکے دیا جاتا ہے
سردیوں میں گھوڑے کو اناج مکس کرکے دیا جاتا ہے

گھوڑے کو لگام پر دوڑنا سکھایا جاتا ہے جسے سندھی زبان میں واگ کہا جاتا ہے اور اس کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم کو سندھی لگام کہا جاتا ہے۔ اسے کڑی والا لگام کہتے ہیں، دوسری کو کلیان اور تیسری کو آدھا کلیان کہا جاتا ہے۔ اگر گھوڑے کو دائیں ہاتھ پر دوڑنا سکھایا گیا تو وہ وارڑیا بنے گا اگر بائیں ہاتھ پر سکھایا گیا تو چوباز بنے گا۔

اگر کسی گھوڑے کو دائیں ہاتھ پر دوڑنا سکھایا گیا ہوگا اور اسے بائیں پر دوڑانے کی کوشش کی گئی تو گھوڑے کی چال خراب ہوگی بالکل اسی طرح اگر بائیں ہاتھ پر دوڑنے والے گھوڑے کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر لگام تبدیل ہوگئی تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ سندھی لگام والے گھوڑے کو کلیان یا آدھی کلیان پر دوڑایا جانا بھی درست نہیں۔

اس طرح لگام کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ سوار جو گھوڑے کو ان سب باتوں کا باریکی سے خیال رکھنا چاہیے۔ گھوڑوں کو سدھانے والے کچھ سوار بھی سندھ میں مقبول عام ہیں جن میں سے ایک استاد احمد مگنھار نامی گرامی سوار رہے ہیں جسے فخر سندھ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ استاد ارباب مگنہار، استاد نور محمد چانڈیو، فضل چانڈیو مشہور سوار رہے ہیں۔

  گھڑ سوار لگام کا خیال رکھتے ہیں— تصویر: لکھاری
گھڑ سوار لگام کا خیال رکھتے ہیں— تصویر: لکھاری

تربیت دینے والوں کو معاوضے میں کوئی طے شدہ رقم نہیں دی جاتی۔ تاہم انہیں ملنے والے معاوضے کا انحصار گھوڑے مالک کے اطمینان سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر گھوڑا اچھے اطوار سے سدھا گیا ہو تو مالک بدلے میں بہت کچھ بھی دے سکتا ہے۔

سندھ میں گھوڑوں کی کچھ ایسی نسل بھی ہیں جو آج بھی مقبول ہیں جیسے محمد یوسف چانڈیو کے طوفان گھوڑے کی نسل آج بھی سندھ میں طوفان کے نام سے مشہور ہے۔ اس طرح مور، علی شیر شاہ کے گھوڑے کی نسل بھی مشہور ہے۔ راہی، یہ محمد حیات ہنگورے کا گھوڑا تھا۔ اصیل، شاہ نواز جونیجو کے گھوڑے کی نسل پوری سندھ میں مشہور ہے۔ فخر سندھ، گھوڑا اشرف جمالی کا گھوڑا تھا جس کی نسل بھی مشہور ہے۔

گھوڑے اب ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں تو نظر نہیں آتے مگر دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شائقین آج بھی بڑی رقم خرچ کرکے اسے سنبھالتے ہیں۔

خالد کمہار

خالد کمہار فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام خانہ بدوش قبیلوں کے رسم رواج، رہن سہن اور عقائد پر ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔