حکومت اور پی ٹی آئی کی کشیدگی کے درمیان پِستے افغان پناہ گزین
گمان ہوتا ہے کہ سب 26 نومبر کو بھولنے کی عجلت میں ہیں پھر چاہے وہ لوگ ہوں جو اس افراتفری کے ذمہ دار تھے یا پھر وہ لوگ جو اس روز براہِ راست متاثر ہوئے۔ حکومت کو اطمینان ہوگا کہ 26 نومبر کی بازگشت اتنی کم ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت پارلیمنٹ اور خیبرپختونخوا حکومت میں بھی اس واقعے کو اٹھاتی نظر نہیں آرہی۔
لیکن پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان تنازع کے علاوہ اس روز پیش آنے والے واقعے کے سنگین اثرات ہمارے معاشرے کے ایک اور کمزور طبقے پر مرتب ہوئے اور وہ طبقہ اسلام آباد میں مقیم افغان پناہ گزین ہیں۔
مظاہرہ ختم ہونے کے بعد سامنے آیا کہ انہیں کس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر واقعے کے بعد انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی ایمان مزاری نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد میں مقیم افغان پناہ گزین اور پختون آبادی کو ریاست کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غریب اور کمزور پختون عوام کو شہر کے مختلف علاقوں سے پولیس نے اپنی حراست میں لیا۔ گویا گمان ہوتا ہے کہ حکام انہیں نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ملکی سلامتی ان کے ہاتھ میں ہے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کے ’نتائج‘ کے بارے میں واضح پیغام دیا جاسکے۔
شہر بھر میں یہ کہانیاں گردش کرنے لگیں جہاں دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی دوستوں کی کہانیاں بتائیں کہ پولیس نے بغیر کسی وجہ کے انہیں روکا جبکہ ان سب میں صرف ایک چیز مشترک تھی وہ تھی ان کی نسل۔ حالانکہ امتیاز واضح ہے لیکن پناہ گزین طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ کراچی کے جے اے سی فار ریفیوجیز نامی ادارے نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں اسلام آباد کے مختلف تھانوں سے ایف آئی آرز اکٹھا کی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے کے دوران اور بعد میں 540 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 86 افغان شہری ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر افغان شہری راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی ہیں جنہیں اپنے کام پر جاتے یا آتے ہوئے پولیس نے حراست میں لیا۔ اکثریت نوجوانوں کی ہے جن میں سے زیادہ تر کی عمر 25 سال سے کم ہے۔
19 سالہ لڑکے نے اس اسٹوری میں بتایا کہ کیسے وہ فارمیسی جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا، ’میں سیکٹر آئی 10 اسلام آباد کی فارمیسی جارہا تھا۔ ایک پولیس والے نے مجھے مارکیٹ کے سامنے روکا اور کچھ کہے بنا مجھے وین میں سوار کردیا۔ بعدازاں میں نے خود کو پولیس اسٹیشن شمس میں پایا جہاں مجھے پتا چلا کہ پی ٹی آئی مظاہرے میں، میں بھی شریک تھا‘۔
اس کے علاوہ زیرِ حراست کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا ’جرم‘ بھی نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایک 20 سالہ لڑکے نے بتایا کہ بستی میں رات گئے مارے گئے ایک پولیس چھاپے میں انہیں حراست میں لیا گیا۔ ’مجھے میرے بستر سے اٹھا کر پولیس نے گرفتار کیا۔ مجھے لاک اپ میں بند کردیا گیا جہاں مجھے پتا چلا کہ مجھ پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں‘۔ انہیں 29 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم لگتا ہے کہ پی ٹی آئی مظاہرین کے اسلام آباد آنے سے قبل ہی لوگوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان نے رپورٹ میں بتایا کہ انہیں 23 نومبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا کہ جب وہ اپنے گھر واپس آرہے تھے۔ نوجوان کے مطابق مجھے چوکی پر پولیس اہلکار نے روکا جبکہ گرفتار کرنے کے لیے پولیس کے لیے یہی کافی تھا کہ میں پناہ گزین ہوں۔
جب 21 سالہ نوجوان نے مزاحمت کی کوشش کی تو اسے کہا گیا کہ اس پر ’ناقابلِ ضمانت‘ جرم کا الزام لگادیا جائے گا۔ فردِ جرم عائد ہونے سے قبل نوجوان نے تین روز جیل میں گزارے۔ رپورٹ کے مطابق گرفتار افراد کی اکثریت یومیہ اجرت کے لیے مزدوری کرنے والے لوگ ہیں جو سبزیوں کی ہول سیل مارکیٹ میں کام کرتے ہیں۔
اس مسودہ رپورٹ میں ان لوگوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ان سے رہائی اور فرد جرم عائد نہ کرنے کے عوض رشوت طلب کی گئی تھی۔ ان میں سے کچھ نے بھاری رقم ادا کی جبکہ بہت سے دیگر افراد رقم ادا نہیں کرسکے اور عدالتی کارروائیوں میں پھنس گئے۔
لیکن سب سے زیادہ پریشان کُن یہ ہے کہ افغان پناہ گزین کی گرفتاری اور ان پر سنگین جرائم کا الزام لگانا معمول بن چکا ہے یعنی یہ کسی خاص واقعے تک محدود نہیں ہے۔
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کابل میں حکومت کی تبدیلی اور پاکستان کے افغان پناہ گزین کو واپس ملک بھیجنے کے فیصلے کے بعد سے افغان پناہ گزین سیاسی مباحثوں کا اہم موضوع رہے ہیں حالانکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر افغان پناہ گزین کو واپس افغانستان بھیجنے کا حالیہ فیصلہ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر سے منسلک ہے۔ حکومتی عہدیداران نے دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ افغان شہری دہشت گرد حملوں میں ملوث پائے گئے۔
2023ء میں جب یہ اعلان کیا گیا تو اس وقت کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اپنے بیانات میں دہشت گردی کو افغان شہریوں سے جوڑا تھا۔ اگرچہ اس فیصلے کے بارے میں بہت سے جائزوں نے نشاندہی کی کہ یہ شاید اسلام آباد کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کو نشانہ بنانے سے روکنے کے لیے کابل پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایسا فیصلہ کیا گیا تھا۔
لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ 26 نومبر سے قبل، دوران اور بعد میں حکومت اور دیگر اداروں نے پی ٹی آئی کے مظاہروں کو کمزور کرنے کے لیے نسلی رنگ دیا۔ جبکہ اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ کس طرح ایک صوبہ خیبرپختونخوا، اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت پر مبینہ طور پر حملہ کررہا ہے۔ حکام نے پی ٹی آئی پر افغان پناہ گزین کو احتجاج میں حصہ بنانے اور اسلام آباد لانے کا الزام بھی عائد کیا۔
درحقیقت جیسے ہی دھرنا ختم ہوا تو نیوز چینلز پر ایک اسٹوری گردش کرنے لگی جہاں مختلف نوجوانوں نے کیمرے میں اعتراف کیا کہ وہ غیرقانونی پناہ گزین ہیں جنہیں مظاہرے میں شرکت کے لیے رقم کی ادائیگی کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے یا قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کا بھی اعتراف کیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا صرف پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا یا پختون برادری کو پریشان کیے بغیر احتجاج کو کمزور کرنے کے لیے مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے اس یقین کو تقویت ملے گی کہ پناہ گزینوں کا ملک میں تشدد کی کارروائیوں سے تعلق ہے۔
پی ٹی آئی اور کابل کی حکومت کے ساتھ پاکستان کی جاری کشیدگی کے تناظر میں امکانات یہی ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کو زبانی یا عملی طور پر ’ہدف بنانے‘ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔