ریلو کٹوؤں سے چیمپیئنز ٹرافی تک، پاکستان کرکٹ کے ناقابلِ فراموش 16 سال!
3 مارچ 2009ء، وہ دن جب پاکستان کرکٹ پر حملہ ہوا۔ سری لنکن ٹیم دہشتگردوں کا نشانہ بنی اور اس کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے۔ اس کے بعد طویل عرصے تک یہی گمان ہوا جیسے پاکستان شاید اب کبھی بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی نہیں کرپائے گا لیکن وقت کا دھارا بدلا اور ٹھیک 16 سال بعد پاکستان چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔
لیکن یہ سفر اتنا آسان نہیں جتنی آسانی سے بیان ہوگیا بلکہ اسے طے کرنے کے لیے کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا، کئی مرتبہ امیدیں بندھی اور ٹوٹیں، اس پورے عرصے میں سازشوں کا بھی سامنا رہا، اندرونی اور بیرونی طور پر بھی مسائل رہے مگر اس یک نکاتی ایجنڈے پر پاکستان کام کرتا رہا کہ چاہے کتنا بھی وقت لگ جائے، چاہے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرنی پڑیں مگر ان بند دروازوں کو کھولنا ہے اور یہ ہدف اب حاصل ہوچکا ہے۔
مگر یہ سفر کیسے شروع ہوا، آئیے اس پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔
2009ء سے 2014ء تک پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بالکل بند رہے۔ ان 6 سالوں میں مصباح الحق سمیت کئی کھلاڑی ایسے گزرے جو پاکستان میں ایک میچ بھی نہ کھیل سکے۔
2015ء
پھر 2015ء ایسا سال ثابت ہوا جب امید کی ایک کرن اس وقت نظر آئی جب زمبابوے کرکٹ ٹیم 6 سالوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔ اس نے لاہور میں دو ٹی ٹوئنٹی اور 3 ایک روزہ میچز پر مشتمل انٹرنیشنل سیریز کھیلی۔
2017ء
اس دورے سے اگرچہ حالات کچھ بہتر تو ہوئے مگر سب اچھا اب بھی نہیں تھا کہ ہمیں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) بھی پاکستان سے باہر کھیلنی پڑی۔ 2016ء میں جب اس کا پہلا سیزن ہوا تو وہ مکمل طور پر پاکستان سے باہر کھیلا گیا۔ اگلے سال 2017ء کے لیے ابتدا میں یہ طے ہوا کہ کچھ میچز پاکستان میں کروائے جائیں مگر بات نہ بنی اور صرف فائنل پر اکتفا ہوا، مگر یہ فائنل بھی بہت سارے اگر مگر کے ساتھ کھیلا گیا۔
پھر گمان تھا کہ شاید فائنل تو ہوجائے مگر غیر ملکی کھلاڑی اس میں شرکت نہ کرسکیں لیکن اس کے لیے انتظار اس بات کا تھا کہ کونسی دو ٹیمیں فائنل تک پہنچتی ہیں اور اس کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔ جب پشاور اور کوئٹہ کی ٹیمیں فائنل میں پہنچیں تو پہلی بُری خبر یہ سامنے آئی کہ کوئٹہ کی جانب سے کھیلنے والے کیون پیٹرسن، لیوک رائٹ، رائلی روسو، ٹائمل ملز اور نیتھن مک کولم نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ جو کھلاڑی پاکستان آئے گا اسے 10 ہزار سے 50 ہزار ڈالرز تک معاوضہ دیا جائے گی مگر اس کے باوجود سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر بیشتر کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔
یہ خبر محض کوئٹہ کے لیے دھچکے کا سبب نہیں بنی بلکہ پاکستان میں لیگ کے انعقاد سے متعلق بھی کئی خدشات نے جنم لیا مگر یہاں ہم جتنی پشاور کی نمائندگی کرنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کی تعریف کریں کم ہوگی، بالخصوص ڈیرن سیمی جنہوں نے ہمت دکھائی اور پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے فوری طور پر یہاں آنے کی ہامی بھرلی۔
پھر اگلے سیزن یعنی 2018ء میں پاکستان میں 3 میچز منعقد ہوئے، 2019ء میں 8 اور اس کے بعد پھر پوری لیگ پاکستان میں ہی کھیلی جانے لگی۔
لیکن اس موقع پر یہ بات یاد رہے کہ اگرچہ لیگ میں اوورسیز کھلاڑی تو شامل ہوتے رہے مگر ان میں بڑے نام کم ہی شامل تھے اور یہی وہ موقع تھا جب اس وقت اپوزیشن رہنما عمران خان نے مشہور زمانہ بیان دیا کہ یہ تو سارے ’ریلو کٹے‘ ہیں، انہیں کون جانتا ہے؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ان کھلاڑیوں میں ڈیرن سیمی بھی شامل تھے اور پھر جب عمران خان صاحب کی اپنی حکومت آئی تو انہوں نے 2019ء میں ڈیرن سیمی کو پاکستان کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں پاکستانی شہریت دینے کا بھی فیصلہ کیا۔
بہرحال یہ وہ حالات تھے جن سے گزرتے ہوئے پاکستان میں کرکٹ بحال ہونا شروع ہوئی۔ پھر یہ سال 2017ء ہی تھا جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ہمت دکھائی اور پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ورلڈ 11 بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹیم میں جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، سری لنکا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ یہ 3 میچز پر مشتمل سیریز پاکستان نے 1-2 سے جیتی تھی۔
2018ء
اس کے بعد اگلے سال یعنی 2018ء میں پاکستان کو ایک اور اچھی خبر ملی کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم نے دورہ پاکستان کے لیے ہامی بھرلی ہے اور کراچی میں تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیلی گئی جو پاکستان نے کلین سویپ کی۔
2019ء
2019ء پاکستان کے لیے اس لیے یادگار اور تاریخی سال رہا کہ 10 سال بعد ایک مرتبہ پھر سری لنکن کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ موقع اس لیے بھی یادگار تھا کیونکہ یہ متاثرہ ٹیم تھی، اسی پر حملہ ہوا تھا اور جب سری لنکا نے پاکستان آنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا تو پاکستان کے امیج میں بہت زیادہ بہتری آئی۔
اگرچہ سری لنکا نے اپنی سی ٹیم پاکستان بھیجی تھی مگر اس کے باوجود اس اقدام کے اثرات مرتب ہوئے۔ سیریز میں تین ایک روزہ میچ کراچی میں کھیلے گئے اور پھر تین ٹی ٹوئنٹی میچز کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ ایک روزہ سیریز تو پاکستان جیت گیا مگر حیران کن طور پر ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا اور یہی وہ دورہ تھا جس میں سرفراز احمد سے کپتانی چھین لی گئی۔
2020ء
2019ء تک پاکستان میں کرکٹ کے دروازے کھلنا تو شروع ہوچکے تھے مگر اب تک ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز ہی کھیلی گئی تھیں جبکہ انتظار اس بات کا تھا کہ کب کوئی ٹیم پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے آئے گی اور یہ انتظار بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے ختم کروایا جب انہوں نے جنوری 2020ء میں پاکستان کا دورہ کیا۔
یہ سیریز تین ٹی ٹوئنٹی، ایک ون ڈے اور دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل تھی۔ پھر اسی سال زمبابوے نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کیا جس میں تین ٹی ٹوئنٹی اور تین ایک روزہ میچ کھیلے گئے۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں تو پاکستان نے کلین سویپ کیا مگر ایک روزہ میچ میں پاکستان کو ایک ون ڈے میچ میں شکست ہوئی جو اس وقت بڑی خبر بنی تھی۔
2021ء
اب تک سب کچھ اچھا چل رہا تھا مگر کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کب تک ہم چھوٹی ٹیموں کی میزبانی کرتے رہیں گے، بڑی ٹیمیں پاکستان کب آئیں گی؟ حالانکہ یہ اعتراض بنتا نہیں تھا مگر اس کے باوجود ایسے تمام لوگوں کو اس وقت ان کا جواب مل گیا جب جنوبی افریقہ نے اپنی بھرپور ٹیم جنوری 2021ء میں پاکستان بھیجی اور یہاں تین ٹی ٹوئنٹی اور دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلی گئیں اور دونوں میں ہی پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی۔
اب تک پاکستان میں حالات معمول پر آچکے تھے مگر اب جو کچھ ہونے جارہا تھا اس کی توقع شاید کم ہی لوگوں کو تھی کیونکہ مارچ 2022ء میں صف اول کے کھلاڑیوں پر مشتمل آسٹریلیا کی ٹیم نے دورہ پاکستان کیا جس میں تین ایک روزہ، تین ٹیسٹ میچ اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچ پر مشتمل سیریز کھیلی گئیں۔
اس کامیاب دورے کے بعد پی سی بی کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا اور دنیا کو واضح پیغام دیا گیا کہ اب کوئی سوال نہیں بنتا کہ کوئی ٹیم پاکستان آنے سے انکار کرے۔
اس دورے کے بعد سے پاکستان کے دروازے انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے مستقل کھلے ہوئے ہیں اور سال 2025ء پاکستان کرکٹ کے عروج کا سال ہے کہ جہاں ایک طرف سہ ملکی سیریز کھیلی گئی تو دوسری جانب 29 سال بعد پاکستان کسی بھی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کرنے جارہا ہے۔
یہ 16 سال پاکستان کرکٹ کے لیے ناقابل فراموش ہیں۔ اس تحریر میں جو حالات اور واقعات بیان کیے گئے، لکھنا تو شاید آسان تھے مگر ان حالات کو یاد کرنا انتہائی مشکل ہے۔ مگر اندھیرا تادیر نہیں رہتا، سورج نے نکلنا ہی ہوتا ہے، تو جناب ہمارا سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، پاکستان میں کرکٹ کی نہ صرف واپسی ہوئی بلکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس میں ترقی بھی ہورہی ہے۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔