اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ہم کراچی کی قدامت کے حوالے سے ماضی میں تقریباً گزشتہ ایک برس سے محوِ سفر ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش رہی کہ قدیم زمانے کے متعلق ہم جتنا زیادہ جان سکتے ہیں وہ جانیں۔ اس کے لیے ہم نے بہت سی کتب سے معلومات کشید کیں اور محققین سے ان کی رائے لیتے آئے ہیں لیکن اب اس سفر میں ہمارے پاس معلومات کا ایک اچھا ذخیرہ بھی موجود ہے۔
18ویں صدی کے زمانے میں کلہوڑا دور حکومت اپنے اختتام کو پہنچی اور تالپور سندھ کے تخت و تاج کے دھنی بنے۔ اس زمانے میں سندھ سے متعلق بہت سی تاریخ کی کتابیں تحریر ہوئیں۔ کراچی کے حوالے سے ہمارے پاس سیٹھ ناؤنمل ہوتچند کی ’آتم کتھا‘ کی کتاب ہے جو ہمیں موجودہ کراچی کی بنیادوں کے حوالے سے بنیادی اور انتہائی اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ چونکہ ان کے والدین نے یہاں کراچی قلعہ کی بنیاد ڈالی تھی، اس لیے اس کتاب سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔
اس طرح کی کوئی دوسری تحریر خاص طور پر کراچی کے حوالے سے ہمارے سامنے موجود نہیں ہے اس لیے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ البتہ 18ویں صدی کے بالکل آخر میں مسٹر ناتھن کرو کراچی آیا تھا جو ہمیں 1799ء کے حالات کے متعلق اہم معلومات دیتا ہے جبکہ اس کے ساتھ 1774ء میں مسٹر ماسکال اور 1775ء میں مسٹر کالنڈر کے کراچی کے کناروں تک آنے کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ 18ویں صدی کا ایک تفصیلی سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی جائزہ لیں کیونکہ 18ویں صدی ایشیا کے ساتھ ساتھ سندھ کے لیے بھی انتہائی اہم تھی۔ یہاں آسانی سے ہم کوشش کریں گے کہ برس وار ایک ترتیب کے ساتھ بات کرتے آگے بڑھائیں تاکہ ہمارے پاس جو معلومات ہے وہ پڑھنے والے تک پہنچانے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ ہم یہ بھی دعویٰ نہیں کر رہے ہیں کہ سب بالکل اسی طرح تھا جس طرح بیان کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ ایسی اور تحریریں کتب کی صورت میں ہوں جو اب تک ہم تک نہیں پہنچ سکی ہوں۔ کل اگر اس حوالے سے کوئی کتاب شائع ہوکر آگئی تو منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے مگر ہمارے پاس ناؤنمل ہوتچند کی تحریر فی الوقت موجود ہے۔
ناؤنمل کی آتم کتھا میں درج برسوں اور رقم کیے ہوئے واقعات آپس میں کم میل کھاتے ہیں۔ ناؤنمل کہتا ہے کہ ’جب 1723ء میں نادر شاہ ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے کابل سے نکلا۔ نادر شاہ کے ساتھ قلات کا خان نصیر خان اعظم بھی تھا جو متھرا کے لوگوں کو قید کرکے اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان لوگوں کے قید ہونے کی خبر پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
’یہ خبر میری بڑی دادی شریمتی تخت بائی کے کانوں تک پہنچی جو بھوجومل کے چھوٹے بھائی کیولرام کی بیوی تھیں۔ ان کی ہدایات پر شکارپور اور کَچھی علاقوں کے گماشتوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ پیسے دے کر متھرا کے ان برہمنوں کو آزاد کروائیں۔ ان لوگوں کے لیے 100 سے 250 تک رقم دینا پڑی اور آزاد ہونے کے بعد انہیں راستے میں آنے والا خرچہ دے کر متھرا واپس بھیج دیا گیا۔ اس وقت اس کراچی شہر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ البتہ حب ندی کے اس طرف کھڑک بندر نام کا شہر تھا جو بیوپار کے حوالے سے مشہور تھا‘۔
اب 1723ء کا یہ برس ہضم کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نادر شاہ نے 1739ء میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا جبکہ تاریخ بلوچستان بھی اس حوالے سے متفق نہیں۔ پرویز احمد لکھتے ہیں، ’میر محبت خان کو 1738ء میں دوبارہ خان بلوچ مقرر کیا، اسی دوران بلوچی مرکز کمزور پڑ گیا تھا تو طوائف الملوکی پھیل گئی، میر محبت خان نے اپنی سوتیلی ماں بی بی مریم اور سوتیلے بھائی نصیر خان کو یرغمال کے طور پر نادر شاہ کے پاس بھیج دیا۔
’چنانچہ 1740ء میں جب نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس دوران میر نصیر اس کے ساتھ تھا۔ دہلی سے واپسی پر سندھ کے کلہوڑوں پر چڑھائی ہوئی۔ بہرحال 20 اگست 1749ء میں بلوچ سرداروں نے میر نصیر خان اعظم کو اپنا نیا حکمران مقرر کیا‘۔
اب یہاں پورے 16 برس کا فرق ہے جسے ہمیں ذہن میں رکھنا ہوگا۔ میں حیران ہوں کہ اب تک ناؤنمل کی یہ کتاب جو 1915ء میں شائع ہوئی تھی، سب تاریخی حوالہ جات کے لیے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ شاید برسوں کی یہ ہیر پھیر سنبت سن (سندھی کیلینڈر) کی وجہ سے ہوئی ہے جو عیسوی سن کے ساتھ ساتھ تحریر ہے۔ اس کتاب کا سندھی ترجمہ جو محمد حنیف صدیقی صاحب نے 1968ء میں کیا تھا، اس نے بھی ان برسوں کو برقرار رکھا ہے۔ البتہ اپنے پیش لفظ میں یہ ضرور کہا کہ ترجمہ کے وقت سنبت سن کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی۔
بہرحال ہم تھوڑی بہت تو کوشش ضرور کرسکتے ہیں کہ ان برسوں کے حوالوں سے جو ابہام ہے انہیں کم سے کم کر سکیں۔ اب تک کراچی کے حوالے سے میرے سامنے سے جو کتابیں گزری ہیں ان میں سے اکثر میں یہ تحریر ہے کہ کھڑک بندر میں ریت بھر گئی اور 1729ء میں بھوجومل ’کراچی جو کُن‘ کے کنارے پر اپنے خاندان کے ساتھ آ کر بسا۔ آپ اگر ناؤنمل کی MEMOIRS OF SETH NAOMUL HOTCHAND, C.S.L, OF KARACHI کا تحقیقاتی مطالعہ کریں گے تو اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اسے شاید تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔ آپ موجودہ کتاب میں لکیر کہیں سے بھی کھیچیں وہ کبھی اس 1729ء برس پر آ کر نہیں رکے گی کہ بھوجومل اسی برس آکر کراچی میں بسا تھا۔
چلیے اب میں اس کتاب کے مؤلف کے کچھ جملے یہاں تحریر کرتا ہوں۔ ’سیٹھ ناؤنمل ولد ہوتچند، لوہانہ قوم کا ہندو بیوپاری تھا۔ وہ کراچی میں رہتا تھا جہاں اس کا جنم 1804ء یا 1805ء میں ہوا۔ اس کے آباو اجداد سیہون کے نزدیک کاہری (کاہری اور خدا آباد کی بستیاں میں نے 1870ء میں دیکھی تھیں اور ان دنوں وہ زبوں حال کا شکار تھیں جبکہ یادگار کی طور پر صرف کلہوڑا خاندان کے پہلے حاکم میاں یار محمد کلہوڑو کا شاندار مقبرہ موجود تھا) سے تعلق تھا جو کلہوڑا حکمرانوں کی حکومت کی پہلی تخت گاہ تھی۔
’18ویں صدی کی ابتدا میں سیٹھ ناؤنمل کا پڑ دادا (بھوجو مل) خاندانی اختلافات اور کلہوڑوں کی تخت گاہ خدا آباد سے حیدرآباد منتقل ہونے (حیدرآباد والے تخت گاہ کی بنیاد 1768ء میں کلہوڑا بادشاہ نے رکھی تھی) کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرکے اپنے کاروبار کے لیے کھڑک بندر کو چُنا جو ایران نار (حب ندی) کے کنارے تھا اور یہ بہاؤ قلات کے خان کی ریاست کو الگ کرتا ہے۔ اس نے یہاں کاروبار کیا اور پھر جب یہ بندر ریت سے بھر گیا اور کشتیوں کی آوت جاوت آسان نہ رہی تو دوسری جگہ کی تلاش شروع کی اور اپنا گھر اور کاروبار کراچی منتقل کیا۔
’کراچی کھڑک بندر سے کچھ میل دور جنوب مشرق کی طرف ایک چھوٹی میانی تھی (میانی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں دریا، بڑی جھیل یا سمندر کے کنارے ماہی گیر مچھلی پکڑ کر اُسی جگہ پر بیوپار کرتے ہیں جبکہ قریب ہی ان کی بستیاں ہوتی ہیں)۔ اس وقت کراچی قلات کے ماتحت تھا مگر جیسے آگے چل کر ظاہر ہوگا کہ قلات کا خان، میروں کے حق میں کراچی سے دستبردار ہو گیا تھا۔
کراچی منتقل ہونے سے پہلے کراچی اور قرب و جوار میں جو بندرگاہیں تھیں ان کا اچھے طریقے سے جائزہ لیا گیا تھا اور کراچی کی بندرگاہ سندھو دریا کے بہاؤ کے نزدیک تھی جس کی وجہ سے اندرون ملک بھی بیوپار کرنے کی سہولت دستیاب تھی۔ بندر کے علاوہ کراچی دلفریب جگہ نہیں تھی۔ یہاں کا پانی کڑوا تھا اور گرد و نواح یعنی جنوب اور مشرق کی طرف 50 میلوں سندھ کے زرخیز ڈیلٹا تک، اونٹوں کے چرانے کے لائق ایک ویران پہاڑی علاقہ موجود تھا’۔
یہ کتاب کے مؤلف کی تحریر ہے جس میں، میں صرف ایک جملے کا اضافہ کروں گا جو حیدرآباد کے تخت گاہ کے قیام کے حوالے سے ہے کہ ’1768ء میں حیدرآباد کے قلعے کی بنیاد رکھی گئی، 1770ء میں یہ مکمل ہوا اور میاں نے یہاں رہائش اختیار کی۔ مگر اس شاندار اور پُرسکون قلعے میں وہ زیادہ عرصہ نہیں گزار سکا۔ 1772ء کے اگست کے مہینے میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اور دوسرے دن اس کی سانسوں نے اس کے وجود کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میاں کو قلعے کے شمال میں دفن کیا اور ان کی قبر پر شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا‘۔ ان شواہد کے بعد تو یہ کہنا چاہیے کہ بھوجو مل کاہری سے 1750ء یا اس کے بعد بھی سیہون سے گزر کر کھڑک گیا ہوگا۔
اب ناؤنمل سے کچھ ان کے بڑوں کے متعلق بھی جان لیتے ہیں، ’میرے آباو اجداد پُشتوں سے کاہری (جوہی سیہون میں کلہوڑوں کے تخت گاہ کے قریب، جہاں خدا آباد کے نام سے کلہوڑوں نے اپنی تخت گاہ قائم کی تھی، میاں یار محمد کا مقبرہ اب بھی وہاں موجود ہے) میں رہتے تھے۔ میرے ایک بزرگ سجن مل کی کاہری کے نزدیک زمینیں تھیں جبکہ اس کے سوا وہ بڑا بیوپاری تھا۔ اس کے بیٹے نانک نے اس کے بیوپار کو بڑھایا یہاں تک کہ اس کے گماشتے (کارندے) شاہ بندر، ننگر ٹھٹہ، سون میانی، بیلے، شکارپور اور چانڈکو میں ہوتے تھے۔ اُس وقت کراچی کا نام و نشان موجود نہ تھا‘۔
جب بھوجو مل 16 برس کا تھا تو کاہری چھوڑ کر پہلے سیہون اور پھر کھاڑک بندر گیا جو اس وقت بیوپار کے لیے مشہور تھا۔ وہاں اس کا کاروبار اچھا چل پڑا، اس لیے اپنے گماشتے، گوادر، لس بیلا، مسقط بھیجے۔ ساتھ ہی اس وقت ہند کی مشہور بندگاہوں جیسے شاہ بندر، لاڑی بندر، سورت و پور بندر اور ملبار میں اپنے گماشتے اور بیوپاری کوٹھیاں کھولیں۔ تقریباً 1758ء-1757ء میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں موسم گرم ہونے لگا اور دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھنے لگی، پانی نے اپنے نئے راستے ڈھونڈے اور پرانے بہاؤں کو چھوڑ دیا یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ سمندری کنارے پر زوردار مد وجزر کی وجہ سے بہاؤں میں ریت بھرنے لگی۔
میں اگر یہ کہوں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے 1756ء سے دریائے سندھ میں تبدیلی آنے لگی اور 1758ء میں دریا نے اپنا نیا بہاؤ، ہالا سے حیدرآباد کے مغرب سے بنایا اور پرانا بہاؤ جو ہالا سے اڈیرو لال، نصرپور، شیخ بھرکیو، پرانی بدین اور رحمکی بازار سے کوری کریک تک جاتا تھا، اسے چھوڑ دیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے 500 سے زائد نئی نہریں ہالا سے اوپر اور مغرب میں جاری ہوئیں جبکہ اتنی ہی نہریں ہالا سے نیچے جنوب اور مشرق میں خشک ہوئیں۔
اس کی وجہ سے آب پاشی سے ہونے والی زراعت جو 20 لاکھ ایکڑ پر تھی، کم ہوکر 10 لاکھ ایکڑ ہوگئی۔ تو آپ یہ سمجھیں کہ سندھ کا مشرقی حصہ ویران ہوا اور مغربی حصے میں نئے بہاؤ اور نہروں نے ایک نئے شاندار منظرنامے کو جنم دیا۔ ان حالات اور ماحولیاتی حوالے سے آگے آنے والے ماحولیاتی و معروضی حالات کو آپ جان کر یہ ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ حالات کیسے کراچی کے منظرنامے کو بُنتے تھے۔
ناؤنمل کے مطابق، ’بھوجو مل کھڑک سے کسی نئے بندر کی تلاش کے لیے نکلا جہاں بیٹھ کر وہ اپنا بیوپار پھر سے شروع کر سکے۔ وہ گھومتے گھامتے کراچی کی کھاڑی پر آ پہنچا جہاں پانی کے گہرے تالاب کے کنارے کچھ ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں۔ لیاری نئے اور سمندر کے پانی کے ملاپ کی نشانی تمر کا وہ جنگل بھی وہاں موجود تھا جو اس تالاب کو ایک قدرتی حفاظتی دیوار یا پناہ گاہ فراہم کرتا تھا۔ مقامی لوگ اس جگہ کو دربو کہہ کر پکارتے تھے۔
اس زمانے میں منہوڑے کی کھاڑی (منہوڑا کراچی بندر کے آگے ایک ساحل ہے جہاں اب ایک مضبوط قلعہ بنایا گیا ہے۔ انگریزوں نے جب کراچی کو فتح کیا تو ان دنوں بندر کے دہانے کے پاس پانی میں ریت کی ایک دیوار تھی جس کی وجہ سے جہاز ٹکرانے کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ بعد میں سیلاب کی روک تھام کے لیے منہوڑا کے کونے پر ایک دیوار بنا کر اسے ختم کروا دیا گیا) نہیں تھی۔ بابا جزیرہ (بابا جزیرہ کراچی کے مرکزی گھاٹ کے اندر اور کیماڑی جزیرے کے سامنے ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، کیماڑی میں جہاز کھڑے کرنے کے لیے بڑے گھاٹ ہیں جن کی آمد و رفت شہر سے جوڑنے کے لیے ایک وسیع پل بنایا گیا ہے جو سر چارلس نیپئر نے بنایا تھا۔ ناؤنمل کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بندرگاہ جانے اور آنے کے موجودہ راستے کو استعمال نہیں کیا جاتا تھا، جہاز بندرگاہ پر چھوٹی کھاڑی سے آتے تھے جو اب بند ہو چکی ہے) کے مغرب میں ایک اور کھاڑی ہوتی تھی جس کو اب نئی نار (کھاڑی) کہا جاتا ہے’۔ (کھاڑی یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جو تین اطراف سے خشکی سے گھرا ہوا اور ایک طرف سے سمندر سے ملا ہوا ہو اور دور تک چلا گیا ہو)
ناؤنمل کو وہاں گھومتے ایک قدیم بستی یا چھوٹے سے شہر کے کھنڈرات بھی ملے تھے جو کلفٹن اور انگریز سرکار کی چھاؤنی کے بیچ میں ایک پہاڑی پر تھے۔ اس بادشاہ کا نام ہم مورڑو منگر مچھ کے داستان میں پڑھ آئے ہیں۔ مجھے یہ اکیلا دلورا نام کا بادشاہ ملا جو رحم دل بھی تھا، فراخ دل بھی اور ایک اچھا بادشاہ بھی۔ آج تک میں نے کئی تاریخی مقامات دیکھے ہیں جو اکثر دلورا بادشاہ کے ظلم کی وجہ سے برباد ہوئے تھے۔
سیہون میں قلندر سے پہلے جس قلعے کو اُلٹ دیا گیا تھا یا اروڑ جو سندھ کی اولین تخت گاہ تھی، وہاں کے دریا سندھ کے بہاؤ کو بھی دلورا کے ظلم نے ادھر ادھر کر دیا اور دلورا ماضی کی لوک داستانوں میں ظالم کے ظلم کی علامت بن گیا۔
واحد یہ کراچی والا دلورا تھا جو پہاڑیوں پر اپنی بادشاہت کرتا تھا اور وقت آنے پر وہ مورڑو کے بھائیوں کو سمندر میں نکالنے میں مدد بھی کرتا۔ ناؤنمل ہمیں بتاتا ہے کہ اس پہاڑی پر ایک زبردست شہر آباد تھا جسے دلورا نے آباد کیا تھا۔ اس شہر کے شمال اور کلفٹن اور کیماڑی کے بیچ میں ایک سمندری بہاؤ بہتا تھا جب پانی سمندر میں چڑھتا تھا تو پانی چھاؤنی میں بہہ کر آ جاتا تھا اور اس بہاؤ کا نام چینی نار تھا تو کشتیاں اُس نار سے اندر آ جاتیں جس کی وجہ سے شہر کا خوب بیوپار ہوتا تھا۔
شہر کے لوگ پینے کا میٹھا پانی رام باغ کے تالاب اور چھاؤنی کے شمال میں باغ میں جو کنواں ہے، وہاں سے لاتے تھے جسے اب چھاؤنی والا کنواں کہتے ہیں۔ میں جب 13 یا 14 برس کا تھا تو بہت سارے پکے گھروں کے نشان دیکھے تھے اور جب بارش ہوتی تو قریبی بستیوں کے مرد اور عورتیں سونے اور چاندی کے زیورات کے ٹکڑے ڈھونڈتے تھے اور پھر انہیں اچھے داموں بیچ دیتے۔
ناؤنمل ہمیں ریڑھی میان کے مغرب میں ان قدیم آثار کے متعلق بھی بتاتا ہے کہ ’یہاں واگھو در نام کا مشہور شہر تھا، یہ نام اس لیے پڑا کیونکہ اس شہر کے شمال میں نیچے گرم پانی کے چشمے میں بہت سے مگرمچھ رہتے تھے۔ ان زمانوں میں مگرمچھ کی پوجا بھی کی جاتی تھی تو اس وجہ سے اس شہر کا یہ نام مشہور ہوا۔ 400 برس پہلے یہ علاقہ جودھپور کے راجپوتوں کے قبضے میں تھا، یہاں ایک بدھیمل نام کا ایک شاہوکار بیوپاری رہتا تھا جس نے اپنے رہنے کے لیے شاندار کوٹ بنوایا تھا۔
’شہر کو پینے کا پانی قریب کے میٹھے پانی کے چشموں اور ملیر سے ملتا تھا۔ بارش کے موسم میں ملتان، بہاول پور اور نئی سکھر (ناؤنمل روہڑی کو پرانے سکھر کے معنوں میں لیتا ہے) سے اناج سے بھری کشتیاں سندھو دریا کے راستے اور پھر سمندر کنارے یہاں کے گھاٹ پر آ کر رُکتی تھیں اور اناج کا اچھا کاروبار ہوتا تھا‘۔
ناؤنمل ہمیں رانو ارجن کے اس قتل کے متعلق بھی بتاتا ہے جس کے متعلق ہم گزشتہ اقساط میں پڑھ چکے ہیں مگر ناؤنمل رتو کوٹ پر حملے اور راجا ارجن کے قتل کے متعلق کچھ نئی معلومات بھی دیتا ہے اور ان دنوں کی معروضی حالات بھی بیان کرتا ہے چونکہ یہ واقعات ناؤنمل سے 60 یا 70 برس پہلے ہوئے تھے تو اس کے بیان کو اہمیت حاصل ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ سندھ کے حاکم غلام شاہ کلہوڑو نے ننگر ٹھٹہ کے نائب کو حکم دیا کہ رانا ارجن کو قتل کردیا جائے اور اس کی ریاست پر قبضہ کر لیا جائے۔ نواب نے یہ کام بجر (بجار) جوکھیو پر رکھا جو وہاں ٹھٹہ کے نواب کے پاس نوکری کرتا تھا۔
بجر نے ملیر آ کر اسی کے قریب جوکھیوں کو اکٹھا کیا۔ انہیں وہاں چھوڑ کر وہ سیٹھ بھوجو مل کے پاس آیا اور اس سے کچھ پیسے ادھار لیے تاکہ ساتھ جانے والے لوگوں کو کچھ روپے دے سکے۔ پیسے لینے کے بعد وہ حملے کی تیاری کرکے گزری بندر سے رانو ارجن کو قتل کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ رانو ارجن اپنے 20 آدمیوں کے ساتھ مچک جزیرے پر ٹھہرا ہوا تھا۔ جب آدھی رات کو سب سو گئے تو بجر کے لوگوں نے حملہ کر کے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔ اور ٹھٹہ کے نواب کو یہ خبر پہنچائی گئی اور ٹھٹہ کے نواب نے رانو ارجن کی چھوٹی سی ریاست پر بڑے آرام سے قبضہ کرلیا’۔
18ویں صدی ناؤنمل نے تو نہیں دیکھی کیونکہ ناؤنمل کا جنم 1804ء میں کراچی میں ہوا تھا مگر 18ویں صدی کے 40 یا 50 برس اتنے طویل بھی نہیں کہ بڑوں نے جو ان دنوں دیکھا ہو اور اس کا ذکر ناؤنمل سے کیا ہو اور وہ بھول گیا ہو۔ ایک اور بات بھی جو ناؤنمل کی باتوں کو یاد رکھنے کے لیے اہم تھی کہ ایک تو نئی جگہ تھی، اطراف میں جو قبیلے بستے تھے وہ بلوچ مسلمان تھے۔ کلہوڑا اور خاص طور پر تالپور مذہبی حوالے سے انتہائی سخت بھی رہے۔
تو یہ ایسا منظرنامہ ہے جس میں ناؤنمل کے حافظے کو اچھا اور تیز ہونے کی ضرورت تھی۔ البتہ برسوں کے حوالے سے انتہائی پریشان کر دینے والی کتاب ہے۔ مگر کراچی کے متعلق 18ویں صدی کے مواد کے لیے ہمیں اس کتاب سے استفادہ کرنا پڑے گا کیونکہ کسی اور کتاب میں ملنے کی امید بھی نہیں ہے۔
حوالہ جات
- Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915.
- ’تاریخ کے مسافر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور