• KHI: Maghrib 6:26pm Isha 7:43pm
  • LHR: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • ISB: Maghrib 5:51pm Isha 7:15pm
  • KHI: Maghrib 6:26pm Isha 7:43pm
  • LHR: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • ISB: Maghrib 5:51pm Isha 7:15pm

بچے ہوم ورک سے نہیں سیکھتے، اپنے کم عمر بچوں پر بوجھ نہ ڈالیں!

شائع February 15, 2025 اپ ڈیٹ February 15, 2025 01:19pm

حال ہی میں والدین نے مشاہدہ کیا کہ ان کا سات سالہ بچہ ہوم ورک کیسے کرتا ہے تو انہوں نے چند دلچسپ باتیں نوٹ کیں۔ بچے کو وہ کام کرنے میں مزہ آتا تھا جو اس کی دلچسپی کا باعث بنتے لیکن وہ ہوم ورک کرنے کے لیے اسے حوصلہ افزائی کی ضرورت پڑتی جو اسے پسند نہیں تھے۔ والدین نے سوچنا شروع کیا کہ کیا واقعی تمام طلبہ کے لیے ایک قسم کا ہوم ورک موزوں ہوسکتا ہے۔

کسی بھی استاد کے لیے اپنے تمام طلبہ کی مختلف تعلیمی ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کر پانا ناممکن ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر طالب علم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک اسمبلی لائن سسٹم ہے جس کے تحت ہر بچے کی منفرد خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، تمام کو ایک ہی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بہت سے والدین جو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، اب وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پہلا سوال یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ایک بچے کو اپنے دن کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ مطالعہ، کتابیں پڑھنے اور اپنی مشق کی کتابوں میں کیوں صرف کرنا پڑتا ہے۔ یہاں میں پرائمری اسکولز کے ان چھوٹے بچوں کی بات کررہی ہوں جن کی عمریں عام طور پر 10 سال سے کم ہوتی ہیں۔ میں نے اس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک پرائمری اسکول ٹیچر سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے طلبہ کو ہوم ورک دیتی ہیں؟

میرے سوال نے ٹیچر کو حیران کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انہیں کچھ نیا سکھانے کے بعد ہوم ورک دینا پڑتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ طالب علم اسے اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ یوں ہوم ورک دینے سے کلاس میں جو کچھ سیکھا اس کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔

اب حیران ہونے کی باری میری تھی کیونکہ وہ واضح طور پر بچوں کے سیکھنے کے عمل سے متعلق نہیں سمجھتیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ جیسے ٹیچر بچے کے دماغ میں معلومات اس طرح منتقل کررہا ہے جیسے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا جاتا ہے۔ لیکن بچے اس طرح نہیں سیکھتے۔ وہ اپنے تجربات اور تجسس کے ذریعے سیکھتے ہیں۔

کم عمر بچوں کے یہ تجربات ہیں جو علم حاصل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا فطری تجسس ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بنانے میں مدد کرتا ہے۔ علم ایسی چیز نہیں ہے جسے صرف زبانی طور پر سکھایا جا سکتا ہو بلکہ ایک بار بچہ کچھ سیکھ لیتا ہے تو وہ اسے نہیں بھولتا۔ انہیں یاد رکھنے کے لیے ہوم ورک کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہر بچہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ان کی نشوونما منفرد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بچے جن چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں، کچھ بچوں کو وہی چیزیں بورنگ لگ رہی ہوتی ہیں۔

یہ بنیادی حقائق ہیں کہ بچے قدرتی طور پر کیسے سیکھتے ہیں اور ہمیں انہیں کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم فطرت کے خلاف جاتے ہیں اور ان اصولوں پر زور دیتے ہیں جو بےمعنی ہیں تو بچہ مزاحمت کرے گا اور اس کی تعلیم میں حقیقی دلچسپی پیدا نہیں ہوگی۔

اگر ایک استاد کا خیال ہے کہ بچے کو یہ یاد رکھنے کے لیے ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے کلاس میں کیا پڑھایا گیا ہے تو ہمیں استاد کے طریقہِ تدریس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات دنیا بھر میں مانی جاتی ہے کہ چھوٹے بچے کھیل کے ذریعے زیادہ بہتر انداز میں سیکھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کتنے اسکولز ایسے ہیں جن میں کھیل کے میدان موجود ہیں یا وہاں ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں جو بچوں کو جلدی اور مؤثر انداز میں سیکھنے میں مدد کرتے ہیں؟ افسوس ناک ہے کہ جسمانی مشق پر توجہ نہیں دی جاتی ہے حالانکہ یہ بچے کے دماغی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔

سسٹر زینیا پنٹو کی قیادت میں کراچی میں سینٹ جوزف کانوینٹ کے پرائمری سیکشن میں نہ تو ہوم ورک دیا جاتا ہے اور نہ ہی امتحانات ہوتے ہیں۔ یہاں بچے خوش ہیں اور اچھی طرح سے ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ وہ استاد کی خواہش کے مطابق ان چیزوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور نہیں ہوتے۔ یوں انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سسٹر زینیا نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بچوں کو انتخاب کا حق حاصل ہو جس کی وجہ سے وہ تعلیم میں لطف محسوس کرتے ہیں۔

ان ماہرین تعلیم اور والدین کو بتاتے چلیں جو مغربی تعلیمی نظام کو بچوں کے لیے مثالی سمجھتے ہیں۔ میرے پوتے پوتیاں جب پرائمری اسکول میں تھے تو میں نے ان سے ان کے ہوم ورک کے متعلق پوچھا۔ کینیڈا میں مقیم میری پوتی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر مجھے بتایا کہ اسے ہفتے میں ایک ہوم ورک اسائنمنٹ ملا ہے جسے ختم کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اسے مکمل کرنے میں اسے کتنا وقت لگے گا؟ تو میری پوتی نے جواب دیا، 10 یا 15 منٹ سے زیادہ نہیں۔

برطانیہ میں میری پوتی نے بتایا کہ پیر کو ہوم ورک کا دن تھا اور انہیں نئے سوالات دیئے گئے جنہیں مکمل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ بچوں نے اگلے پیر کو جوابات جمع کروائے اور کسی نے کام کے بوجھ کی شکایت نہیں کی۔

تو کیا ہمارے بچے اتنے ہوشیار نہیں ہیں کہ وہ روزانہ بنا کسی مشکل کے اپنا ہوم ورک کر سکیں؟ کیا ہمارے اساتذہ میں کوئی خرابی ہے؟ یا مسئلہ خود ہمارا تعلیمی نظام ہے؟

ایک اور چیز جو بچے کی فطری تعلیم کی راہ میں حائل ہوتی ہے وہ اسے سکھانے کے لیے استعمال کی جانے والی زبان ہے۔ اگر ایسی زبان جس سے بچہ واقف نہیں ہے ان پر زبردستی مسلط کی جائے تو یہ ان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس صورت میں خود سے سیکھنے کا عمل مشکل بن جاتا ہے اور بچہ روٹ لرننگ یا رٹے پر انحصار کرنے لگتا ہے جسے مسلسل دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہوم ورک ضروری ہو جاتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 فروری 2025
کارٹون : 14 فروری 2025